ایمانوئیل کانٹ کی کتاب” تنقید عقل محض ” مختصر تعارف/مبشر حسن

“Critique of Pure Reason ”

کانٹ کے مداح آرتھر شو پنہاور نے کہا تھا ، کسی عظیم ذہن کی تخلیق میں غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر دینا بہت آسان لیکن اس کی قدرو قیمت کے بارے میں وضاحت کرنا بہت مشکل کام ہے، کچھ کے خیال میں کانٹ جدید ادوار کا عظیم ترین فلسفی ہے ۔افلاطون یا ارسطو کا ہم سر مگر یہ خیال ایک چھوٹی سی اقلیت کا ہی ہے ۔ بہر حال یہ ایک مصنوعی بیان ہے۔
اس کا مقصد لوگوں کو سمجھنے کی بجائے محض انہیں درجہ بند کر دینا ہے ۔ قطعی بات یہ ہے: کہ ایک اہم حوالے سے کوئی بھی پڑھا لکھا شخص کانٹ پسند ہے ، یا پھر نہیں ہے ۔ یہ بذات خود ایک عظیم رتبہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ مارٹن بیوبر کو کانٹ پسند اور برٹرینڈ رسل کو اس کے برعکس قرار دینے کا مطلب کیا ہے؟

کانٹ نے نا  صرف فلسفے بلکہ تکوینیات (Cosmology ) اور حتیٰ کہ علم فلکیات میں بھی خاطر خواہ حصہ ڈالا ۔ اس نے انگریز ماہر فلکیات ولیم ہرشل کے مشاہدے سے چند برس پہلے ہی یورینس سیارہ موجود ہونے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ کانٹ کی ایک ابتدائی تصنیف ” فطرت کی عمومی تاریخ اور افلاک کا نظریہ (1755ء) نیوٹنی دائرہ عمل کے اندر رہتے ہوئے کاسموس کا ارتقاء بیان کرنے کی اولین حقیقی کوشش تھی۔ کانٹ نے دیکھا کہ کائنات ہنوز زیر تعمیر تھی۔

بعد ازاں اس نے اپنی تین “Critiques” کے ذریعہ کہا کہ اس کی کوششیں فلسفہ میں ایک” کاپر نیکی” انقلاب کی ہم پلّہ تھیں۔ کاپرنیکس خود بھی مشرقی پروشیا میں رہا اور وہاں کام کیا۔ کانٹ کی اصل اہمیت اخلاقیات اور مذہب میں ہے۔ سائنس میں اس کا کام فلسفے کے سامنے ہیچ ہو گیا۔ تاہم، میں یہاں فلسفہ میں اس کی صرف ایک عظیم ترین حصہ داری کا مختصر تعارف پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ یعنی اس کا یہ بیان کہ ہم کس حد تک جان سکتے ہیں ۔ کانٹ سے پہلے بیشتر فلسفیوں نے تصور کیا تھا کہ دنیا کے بارے میں ہمارا تمام علم لازماً اس میں موجود اشیاء سے مطابقت رکھتا ہے۔ لاک، بر کلے، ڈیوڈ ہیوم کے ہاں یہ چیز واضح ہے۔ کانٹ نے اس کو بالکل الٹا کر رکھ دیا۔ پہلے بھی کچھ لوگوں نے ایسا کرنے کا سوچا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی کانٹ جیسا بہادر نہ تھا۔

اس نے لکھا: ” آئیے آزما کر دیکھتے ہیں ۔ فرض کریں کہ اشیاء ہمارے علم سے مطابقت رکھتی ہیں ۔ لہذا اس نے سوچا کہ دنیا حقیقتاً بذات خود اشیاء سے مل کر بنی ہے، اور ہرگز قابل معلوم نہیں ہے۔ (برکلے کی طرح اس کے پاس گہری تشکیکیت کے لیے فرصت نہ تھی ۔ ) لاک اور حتیٰ کہ ہیوم بھی دنیا کی اصل نوعیت کے متعلق پریشان ہوا تھا ، کانٹ نے تمام پریشانی کو ختم کرتے ہوئے لکھا:

“ہماری تمام بصیرت محض چیزوں کے ظاہری پن کی ہی نمائندہ ہے۔ ہمارے ادراک میں آنے والی چیزیں بذات خود وہ نہیں جیسا کہ ہم ان کا ادراک کرتے ہیں ۔ ظاہری صورتوں کی حیثیت میں وہ بالذات موجود نہیں ہوسکتیں، بلکہ ان کا وجود صرف ہمارے اندر ہے۔ ہم اب بھی نہیں جانتے کہ اشیاء بذات خود کیا ہیں ”

کانٹ نے نامعلوم مظہر فطرت کو ایک علت مظہر (Noumenon) یا ماورائی معروض کہا ۔ یوں اسے ایک ماورائی عینیت پسند کے طور پر جانا جانے لگا۔ لیکن اسے ایسا فلسفی نہیں کہا جا سکتا جو بر کلے کی طرح قائل ہے کہ مادہ وجود نہیں رکھتا ۔ چنانچہ اس نے برکلے پر تنقید کی کہ اس نے مادے کو محض ایک التباس بنا کر رکھ دیا۔ کانٹ نے ماورائی عینیت پسند کو ایک ایسے شخص کے طور پر بیان کیا جو اشیاء بالذات کے علم کا دعویٰ کرے۔

اوپر دیے گئے بیان میں کانٹ کے فلسفے کو بہت سادہ بنا کر پیش کیا گیا۔ برٹرینڈ رسل نے کانٹ کو زبر دست اہمیت دی لیکن اسے اعلیٰ ترین رتبے پر فائز نہ کیا۔ کیونکہ اس کے خیال میں مظہر فطرت (thing-in-itself) ایک بے تک عنصر ہے، اور دوسری وجہ یہ کہ وہ کانٹ کو بعد کے جرمن فلسفے میں غالب عینیت پسندانہ رجحان کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔

رسل کانٹ کے صوفیانہ پہلو کا ذکر بھی کرتا تھا جو اس کی تحریروں میں نظر نہ آنے کے باوجود موجود تھا ۔ سچی بات یہ ہے کہ اپنے سے پہلے کے متعدد فلسفیوں کی طرح کانٹ بھی اپنی عقیدتوں کے درمیان بٹا ہوا تھا۔ ایک طرف اس نے اپنے Critique of Pure Reason جیسی تصنیفات میں دکھایا کہ خدا کا وجود ثابت کرنے کے لیے عام ثبوت فلسفیانہ لحاظ سے غیر مستند تھے۔ لیکن اس کے بعد وہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ نیکی موجود ہے، اس لیے یقیناً خدا کا وجود بھی ہے۔ یہ ایک منصفانہ دلیل ہے، لیکن یہ حقیقت میں فلسفہ نہیں۔ دینیات پر کانٹ کا اثر بے اندازہ ہے۔ کانٹ پر کوئی نہایت مختصر بحث بھی عملیات ( نظریہ علم ) اور اخلاقیات میں اس کی خدمات کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔ عملیات کا تعلق Critique سے ہے اور یہ در حقیقت اس کے مرکزی موضوعات میں سے ایک ہے۔ ہیوم نے مابعد الطبیعیات کو ماہرین مابعد الطبیعیات کے ایک کجر و مطالعہ میں تبدیل کر دیا تھا ۔ اس نے کہا تھا کہ مابعد الطبیعیات کے بارے میں تمام کتابوں کو شعلوں کی نذر کر دینا چاہیے۔ ان میں سراب اور مغالطے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔“

کانٹ نے اس سوال کو زیادہ سنجیدگی سے لیا۔ اگر چہ ہیوم نے کانٹ کو اس کی ” عقائدانہ غفلت سے بیدار کیا، لیکن کانٹ کا پیش کردہ حل ہیوم سے متاثر نہیں تھا۔ ہیوم ریاضیاتی (Mathematical) یا تجربیت پسندانہ علم پر یقین رکھتا تھا لیکن کسی اور قسم کے علم پر نہیں۔ چنانچہ اس نے مقدم قضیے ( priori proposition) کی اقسام کے درمیان فرق کیا۔ مقدم قضیہ … جس کی موجودگی سے لاک جیسے فلسفیوں نے انکار کیا. وہ ہے جسے دنیا میں واقعات کے اصل بہاؤ کا تجربہ کیے بغیر جانا جا سکتا ہے۔ ادنیٰ قضیوں، مثلاً ریچھ ایک چوپایہ ہے“ کو اس نے تجزیاتی (analytical) کہا کیونکہ ان میں نتیجہ موضوع کے اندر ہی موجود ہے۔ زیادہ دلچسپ اور مفید قضیوں کو وہ ترکیبی/ مصنوعی (synthetic) کہتا ہے۔ مثلاً کانٹ نے اصرار کیا کہ 5 + 7 = 12 ، اور تمام ریاضیاتی قضیے ترکیبی تھے، اور واقعے کی ایک علت ہوتی ہے بھی ترکیبی ہے۔ یہ فرق فلسفیوں کے لیے بے حد اہم ہے، چاہے وہ اسے مانیں یا نہ مانیں۔

کانٹ کی اخلاقیات کی بنیاد فرض کے ایک تصور پر ہے : اخلاقی بننے کے لیے ہمیں فرض ادا کرنا لازمی ہے۔ لیکن ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ ہمارا فرض کیا ہے؟ کیا کوئی کسوٹی موجود ہے؟ کانٹ نے ایک کسوئی ایک آزمائش اختراع کی جسے وہ Categorical imperative کہتا ہے۔ اس اصول کی ایک عام صورت یہ ہے: ہر فعل کا فیصلہ اس بنیاد پر ہونا چاہیے کہ اگر وہ ہمہ گیر طرز عمل کا قانون بن جائے تو کیسا لگے گا۔ چنانچہ بینک لوٹنا اس کسوٹی کے برخلاف ہے۔ کانٹ کے مطابق تنہائی میں سیکس بھی اس آزمائش میں پورا نہیں اترتا۔

اس تصور پر بہت زیادہ تنقید ہوئی اور یہ بمشکل ہی کارآمد ہے ۔ ایک فلسفی نے ہمیں بتایا کہ اگرچہ کانٹ تکنیکی اعتبار سے اسے ضرور غلط سمجھتا ہوگا کیونکہ یہ کہنا اس کی وضع کردہ آزمائش پر پورا نہیں اتر تاکہ میں ایسے تمام بچوں کا گلا دبا دوں گا جو رات کو چلا چلا کر میری نیند خراب کرتے ہیں !‘ دوسری طرف یہ بیان بھی کسوٹی کے برخلاف ہے کہ میں اتوار کی صبحوں کو ٹینس کھیلوں گا کیونکہ ہر کوئی چرچ گیا ہوگا !‘ کانٹ کے اس معیار پر بہت اختلاف رائے اور دلیل بازی ہوئی جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے کا مسئلہ کانٹ کے خیال سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھا۔ شاید اس نے یہاں اپنی لوتھری اخلاقیات ( جس میں وہ پروان چڑھا تھا ) کو داخل کر کے سارا کام خراب کر لیا۔

کانٹ خود بھی ایک دلچسپ کردار تھا ۔ اسے موسیقی سے کوئی لگاؤ نہ تھا اور نہ ہی آرٹ میں کوئی دلچسپی تھی ۔ دوسری جانب اسے ادب سے محبت تھی ، اور اس نے بالخصوص انگلش شاعر الیگزینڈر پوپ کو پسند کیا ۔ وہ Konigsberg میں ایک زین ساز کے گھر پیدا ہوا اور ساری عمر و ہیں گزاردی۔ لیکن وہ عزلت نشین نہیں تھا: اسے محفل پسند تھی لیکن اپنی بات سے اختلاف کیا جانا نہیں ) اور اس کے دو انگریز دوست تھے جو کاروبار کی غرض سے اس کے قصبے میں رہتے تھے۔ وہ تقریباً روزانہ ان دوستوں سے ملنے جایا کرتا تھا۔ یونیورسٹی میں اس نے دینیات ، طبیعیات، اور فلسفے کے ساتھ ساتھ ریاضی کا بھی مطالعہ کیا۔ ابتداء میں وہ لیبنز کا پیروکار بن گیا۔ اس نے شادی نہ کی اور یقیناً   اگر ہم برٹرنیڈرسل کی بات پر یقین کر لیں۔ کئی مرتبہ اپنے ہی وضع کردہ اصول کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہوگا (یعنی خود لذتی کی ہوگی کیونکہ یہ سوچنا مشکل ہے کہ وہ مقامی قحبہ خانوں میں جاتا ہوگا۔ تقریباً 1780ء کے بعد وہ اتنا مشہور ہو چکا تھا اور اس قدر وقت کا پابند تھا کہ لوگ اسے گلیوں میں دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کرتے تھے۔ لہذا اگر وہ قحبہ خانوں میں جاتا تو یقیناً سب کو معلوم ہو جاتا۔

تا ہم ، ایک موقع ایسا بھی آیا جب وہ جوش میں آکر وقت کی پابندی بھول گیا ۔ یہ وہ موقع تھا جب وہ روسو کا ناول Emile پڑھ رہا تھا۔ روسو کے پر جوش مطالعہ کی وجہ سے ہی کانٹ امریکی اور فرانسیسی انقلاب کا حامی بنا۔ تاہم، اس کی بنائی ہوئی کسوٹی اسے برسراقتدار حکومت کے قوانین توڑنے سے منع کرتی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کانٹ ایک فلسفی کی نیکیوں اور حدود کی عمدہ مثال مہیا کرتا ہے۔ اسے ایک شاعر ہونا چاہیے تھا ( اور غالباً وہ ایسا چاہتا بھی تھا لیکن اپنی مہیب دانش نے اسے جکڑے رکھا۔ وہ خدا کو مردہ قرار دینے والی جدید الہیاتی تحریک کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ تاہم ، دنیا کے بارے میں ہمارے علم پر اس کی عائد کردہ حدود نے کانٹ پسند مارٹن Buber کو جدید دور کی ایک نہایت مفید مذہبی کتاب لکھنے پر اکسایا۔ ایک فلسفی کی حیثیت سے کانٹ کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ معدودے چند کانٹ پسند ہی کانٹ کے ساتھ متفق ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply