سفرِ حیات-دوسری شادی کا قصّہ (9)-خالد قیوم تنولی

ایک دن انھیں لیڈی گائناکالوجسٹ طلعت وائیں کے کلینک پہ روٹین کے طبی معائنے کے لیے لے گئے۔ ڈاکٹر نے اتنی پرہیز اور ہدایات سے نوازا کہ ہماری بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ ڈاکٹر بڑی حیرت اور طنز لطیف سے مسکرائیں: ”کچھ غلط کہہ دیا کیا؟“
ہم نے کہا : ”ہمارا پسِ منظر دیہی ہے ، وہاں عورتیں رات کو بچہ جنتی اور صبح ٹہاکے سو من بھر   گھاس کا گٹھا اٹھا کر لاتی ہیں۔ حمل کے باوجود گھر باہر کے تمام امور سرانجام دیتی ہیں۔ کوئی فوڈ سپلیمنٹ اور وٹامنز کا استعمال تو کیا ، کبھی خریدنے کی ان میں سکت ہی نہیں ہوتی۔ رورل ایریاز کی جفاکشی کا آپ نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔“

اس دن کلینک کی قسمت میں ہمارے علاوہ شاید کوئی اور ملاقاتی نہیں تھا تو ڈاکٹر کو بھی گفتگو کا بہانہ چاہیے ہو گا ، ہماری بیگم کی طرف دیکھتے ہوۓ بولیں : ”ان کے مطابق   یہ لاہور کی جم پل ہیں، تو شہری لڑکیوں کا ورک سٹیمنا گاؤں میں رہنے والی لڑکیوں جیسا نہیں ہوتا لہذا حمل کی صورت میں ان کو زیادہ احتیاط اور کچھ مخصوص ورزشوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وجود میں لچک رہے جو ڈیلیوری کے دوران زچہ کے لیے معاون ٹھہرتی ہے ، میرے پاس جو دیہی ماحول کی مریضہ  آتی ہیں ، ان کے لیے میں بھی کوئی غیرضروری دوا ء یا مشق تجویز نہیں کرتی۔ ابھی ان کو ڈیڑھ ماہ ہوا ہے ، مزید چار ماہ انھیں بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ پریگنینسی لاس کا احتمال رہتا ہے۔ انھیں دوستانہ ماحول دیجیے ، پیار کیجیے اور حوصلہ بھی بڑھاتے رہیے۔ ویسے میری آبزرویشن کے مطابق آپ دونوں میں آؤٹ کلاس ہم آہنگی ہے۔ بہت اچھے جارہے ہیں۔ کیپ اٹ اپ مور ویل۔ کاوئنٹر سے آج کی میری فیس واپس لے لیجیے گا ۔ میں صرف فرسٹ وزٹ کی فیس لیتی ہوں۔“

باہر آندھی چل رہی تھی جب کلینک سے نکلے ۔ اسی اثناء میں ایک دیرینہ شناسا عذرا یکدم سامنے آ گئیں (ان کے متعلق ایک مفصل مضمون ہم لکھ چکے ہیں)۔
علیک سلیک ہوئی۔ بیگم سے بہت دُلار سے ملیں۔ یوں ظاہر کیا گویا برسوں کی شناسائی ہو۔ ہم نے بغور دیکھا تو سونے کا دانت ندارد‛ سنہری مسکان اور وہ بالائی ہونٹ کے خفیف سے کھنچاؤ سے ہویدا ہوتا جان نثارانہ غمزہ اور دونوں ابروؤں کے سنگم اور ناک کے شروعاتی خط سے پھوٹتا منفرد سا عشوہ بھی مفقود تھا‛ وہ گٹھا ہوا جسم اور جسمانی نشیب و فراز کا طلسم جس میں ان گنت فسوں خیزیاں مضمر تھیں ‛ اب ان کی جگہ ایک پنجر تھا جس کے کاندھے پر بے شمار ان کہی کہانیوں کی صلیب دھری تھی۔ لباس شکن آلود اور روح پیوند زدہ لگی۔ وہ پرانی بے باکی ناپید تھی۔ ہمیں جانے کیوں لگا کہ کشتی بھنور کی زد پر ہے۔ آخری بار جب وہ بیگم سے گلے ملیں تو اچانک کچھ سوچ کر ہماری طرف مڑیں اور کہا : “اوۓ تُو نے شادی بھی کر لی اور مجھے بتایا ہی نہیں  ۔ کیوں؟”
ہم نے مختصراً شادی کا احوال بیان کر دیا۔

جیسے ہمارے کہے پر ایمان لے آئی  ہوں، مسکرائیں اور اپنی کلائی سے سونے کی اکلوتی چُوڑی اتار کر بیگم کو پہنانے لگیں۔ ۔ “معلوم ہے سب ، اسی لیے تو کب سے یہ تحفہ اٹھائے پھر رہی ہوں۔ تم کیا سمجھے کہ دنیا بہت بڑی ہے   اور عذرا کبھی نہیں ملے گی؟”

اب سر راہگزر ہم دونوں انکار پہ انکار کیے جائیں اور وہ گویا واقعی قسم اٹھائے ہوئے ہوں۔ آخر کار وہی کامیاب ٹھہریں۔ بیگم نے اس عنایت کی جزا کے طور پر اپنی سواتی اُون سے بُنی موٹی چَھیل (شال) انھیں اوڑھا دی۔

جاتے جاتے ہماری بیگم کی طرف مُڑیں مگر مخاطب ہم ہی تھے ، کہا : “دعوت تم لوگوں پر قرض ہے‛ بلاؤ گے تو ضرور آؤں گی۔”

لیکن ہوا یہ کہ نہ انھوں نے اپنے ٹھکانے کا بتایا اور نہ ہم ہی اپنے گھر کا محل وقوع سمجھا سکے۔ وہ جس طرح ہوا کے جھونکے کی طرح ملیں ‛ ہمارے ذہن و دل میں ایک بگولہ سا چھوڑ کر ہجوم میں اوجھل ہو گئیں۔

ہم ، عذرا سے اپنی یاد اللہ کی وضاحت کرنے لگے تو بیگم بولیں : ”میں سمجھ گئی  ، آپ کی ‘الف لیلیٰ و لیلیٰ’ میں ایک ہزار ایک کہانیاں ہیں ، جس کی یہ دوسری ایپیسوڈ ہے۔“

ہم نے فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے ایک زور دار قہقہہ  اچھالا ، اور کہا : ”چلو پھر تمھیں بمباٹ سا سموسہ چاٹ کھلائیں۔“

لاہور سے بڑے برادر نسبتی کسی کام سے گاؤں آۓ۔ واپسی میں ہمارے ہاں ٹھہرے اور اگلے دن انھوں نے ہم سے اپنی بہن کو ہمراہ لے جانے کی اجازت چاہی۔
وہ میکے جانے کے خیال سے سرشار تھیں اور ہم متوقع تنہائی  کے خیال سے لرزاں۔

خیر وقت رخصت انھوں نے کافی نصیحتوں اور ہدایات سے نوازا۔ سالے صاحب نیچے سٹارٹ گاڑی میں منتظر تھے۔ بیگم باہر نکلیں تو ہم نے خدا حافظ کہتے ہوۓ دروازہ بند کیا اور کنڈی لگا کر سیڑھیاں چڑھنے لگے کہ دستک سن کر مڑے ، دروازہ کھولا تو بولیں : ”وہ موبائل (نوکیا تینتیس دس) تو بھول ہی گئی ۔“ ہم دوڑ کر گئے  اور موبائل لا کے اُنھیں تھمایا۔
”اچھا تو پھر خدا حافظ !“

ہم نے دروازہ بند کیا اور ابھی دو تین قدم ہی اٹھے ہونگے کہ پھر دستک ہوئی ۔ پلٹے ، دروازہ کھولا تو کہنے لگیں : ”آبِ زم زم کی بوتل بھی رہ گئی ۔“ ہم دوڑ کر گئے اور بوتل بھی لے آۓ۔
”اچھا تو چلتی ہوں ۔۔۔ ایں!!!“
”فی امان اللہ“ ہم واپس سیڑھیاں چڑھنے لگے لیکن پھر دستک ۔ مڑے ، اترے ، دروازہ کھولا تو ہنستے ہوۓ فرمایا : ”کچھ پیسے کچن کارنس پر گلابی جگ کے اندر پڑے ہیں ، ضرورت ہو تو لے لیجیے گا۔“

ہم نے جواب میں کہا ”بہت بہتر ، شکریہ !“ اور کنڈی لگا کر بمشکل اوپر پہنچے ہی تھے کہ ایک بار پھر دستک۔

اب ہمارا ناریل باقاعدہ چٹخ گیا۔ ایک کی بجاۓ تین تین سیڑھیاں اترے ، دروازہ کھولا ۔ انھوں نے ہمیں کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ ہم برف سے پانی ہو گئے۔ ”اب کیا یاد آ گیا؟“
ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔ بولیں : ”بندہ جھوٹے منہ ہی روک لیتا ہے۔ دل رکھنے کو کہہ دیتے کہ مت جاؤ  لیکن آپ تو یہی چاہتے ہیں کہ میں بس چلی ہی جاؤں ۔۔۔ ایں؟“

julia rana solicitors london

سچ بتائیں تو ہم خود بالکل بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ جائیں۔ وہ ہمارے لیے آکسیجن کی مانند ناگزیر ہو چکی تھیں لیکن ایک دعویٰ ہم کر چکے تھے تو اب خود کو بظاہر کمزور ظاہر کیسے کر پاتے۔ پھر بھی ان کا دل رکھنے کو کہا : ”چلو مان جائیں گے اگر آج نہ جاؤ۔“
سنتے ہی گاڑی سے باہر نکلنے لگیں اور اپنے بھائی  سے بولیں : ”میں نہیں جا رہی۔“
موقع محل مناسب نہیں تھا ورنہ ہم مارے تفاخر کے ان کی منور پیشانی چوم لیتے۔
گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوۓ ہم نے چھیڑا : ”اداکار کہیں کی۔“
ان کے جانے کے بعد لگا گھر میں آکسیجن کی ماترا صفر ہو گئی  ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply