کیا یہ غور طلب نہیں ؟-شیخ خالد زاہد

اس مضمون کو پڑھتے ہوئے  عنوان کو لازمی ذہن نشین رکھیں اور جہاں ضرورت پڑے اس عنوان کو دہرا لیں تاکہ ذہن میں یہ سوال پیدا نہ  ہو کہ کیا یہ مضمون آپ کو گھسیٹ کر ماضی میں لے جارہا ہے، پھر فیصلہ کیجئے گا کہ کیا واقعی یہ معلومات کے ایک زوائیے کی طر ف بطور نشاندہی کیلئے لکھا گیا ہے۔ آج دنیا میں جتنی معلومات کی فراوانی ہے یقیناً آنے والے کل پرسوں میں اس سے کہیں زیادہ ہوجائیگی، معلومات کا یہ سمندر ناصرف موجودہ، آنے والے بلکہ گزرے ہوئے واقعات و حقائق پر سے بھی بُری طرح سے پردہ اٹھاتا چلا جا رہا ہے۔  اس سے بھی بڑھ کر یہ   کہ تقریباً ساری معلومات انتہائی آسانی سے دنیا جہان کو دستیاب ہے،  گوگل جیسی لاتعداد ویب سائٹس ہیں جو معلومات کو پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار اداکر  رہی ہیں۔ دوسری طرف وٹس ایپ گروپس کی بھرمار نے مزید آسانی فراہم کر رکھی ہے   جوکہ ذہنی دباؤ یا دماغی امراض میں اضافے کا بھی باعث بن رہا ہے۔کیا یہ کسی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے یا پھر ترقی کی راہ پریا پھر زیادہ سے زیادہ کھوجنے کی صلاحیتوں پر عبور  حاصل  کرنے کا نتیجہ ہے  دماغی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اچھی بات ہے لیکن حدود کا تعین کرنا یا رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔

ہمارے لئے یہ جاننا بھی آج دشوار نہیں کہ دنیا کی آبادی کہاں پہنچ چکی ہے،  دنیا میں کون سے مذہب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، دنیا میں کہاں کہاں مختلف اقسام کی تحریکیں چل رہی ہیں، کون سے ممالک معاشی صورتحال کی وجہ سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں،ایٹم بم  کن ممالک کے پاس ہیں اور کتنے ہیں، کتنے ایسے ممالک ہیں جو اس مہلک ہتھیار سے آراستہ تو ہیں لیکن وہ دنیا کو باقاعدہ آگاہ نہیں کرنا چاہتے یعنی دنیا کو کسی حیرت میں مبتلاکرنے کی تیاری کئے بیٹھے ہیں، کتنے ممالک کے پاس اسلحے کی کیا صورتحال ہے اور یہ ممالک کس کس ملک کے ساتھ اسلحہ کی تجارت کس پیمانے پر کر رہے ہیں۔ناصرف دنیا میں رائج مذاہب کے بارے میں ہر قسم کی معلومات دستیاب ہے بلکہ جو مذاہب اب عملی طور پر موجود نہیں ہیں انکے بارے میں بھی معلومات کا خزانہ آسانی سے دستیاب ہے اور یہ بھی جاننا ناممکن نہیں کہ وہ مذاہب قابل عمل کیوں نہیں رہے۔کہاں روزانہ کتنا کھانا ضائع کیا جارہا ہے اور کہاں بھوک و افلاس کی وجہ سے اموات ہور ہی ہیں۔ آپ جو چاہتے بھی نہیں وہ بھی دماغ میں ٹھونسا جا رہا ہے۔شاید یوں لکھنا بہتر ہوگا کہ ایک عام انسان معلومات کا ایٹمی بم بنا پھر رہا ہے کوئی کسی سے کچھ پوچھ تو لے  بس پھر جان چھڑانا مشکل ہوجاتی ہے۔

ریڈیو پر ایک پروگرام پیش کرنے والی خاتون بہت چہک چہک کر یہ بتا رہی تھیں کے فلاں ملک میں روبوٹ انسانوں کی جگہ فیکٹریوں میں کام کرنا شروع کر رہے ہیں انہوں نے مزید آگاہ کیا کہ ایک روبوٹ لگ بھگ ہزار لوگوں کی جگہ پُر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، دوسری طرف مصنوعی ذہانت انسان کی ذہنی صلاحیت کو محدود کرنے میں اہم کردار کرنے جا رہی ہے۔ایک طرف ممالک اپنی سرحدوں کے دفاع کی صلاحیتیں بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور یہاں بھی ڈرون نامی ایک ایجاد جو بغیر انسان کے کہیں بھی جا کر تباہی مچانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور اسے بطور جاسوس کے بھی استعمال کیا جا رہاہے، اس کا عملی مظاہرہ دکھانے والے دکھا رہے ہیں اور ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ گھر بیٹھے خریداری کا رجحان بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے غرض یہ کہ دنیا میں کتنی تیزی سے ہوشربا ترقی ہو رہی ہے۔ترقی یافتہ ممالک سے لے کر تیسری دنیا کے ممالک تک کے افراد سماجی ابلاغ کے استعمال کے بُری طرح سے عادی ہوچکے ہیں خصوصی طور پر نئی نسل اور طبعی ملاقات کا رجحان محدود اور مخصوص ہوتا جا رہا ہے۔مختلف قدرتی آفات کی پیشگی آگاہی بھی دی جاتی ہے گوکہ تباہی کو نہیں روکا جاسکتا لیکن کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

اب اس ترقی کو پَر لگانے والی اصلاحات کو کھول کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روبوٹ کی بات کرتے ہیں، دنیا کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، جامعات ہزاروں کی تعداد میں طالبعلموں کو تیار کر کے معاشرے کے حوالے کر رہی ہے جس پر خطیر رقم بھی خرچ ہوتی ہے، جو عملی زندگی میں قدم رکھنے کیلئے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں دوسری طرف روزگار کے مواقع روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک سے تعلق رکھنے والے نوجوان ترقی یافتہ ممالک یا ترقی پذیر ممالک کی طرف روزگار کے مواقع تلاش کرنے کی غرض سے ہجرت کررہے ہیں، جہاں روزگار کا حصول جان جوکھم سے کم نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مایوسی بڑھ رہی ہے، ارباب اختیار اس مایوسی کا سدباب کرنے سے قاصر ہیں لیکن اپنی سیاست کی دکان چلانے کیلئے زبانی کلامی بلند و بانگ دعوے کرتے سنائی دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بنگلا دیش میں نوجوانوں نے ملک کی طاقتورترین حکمران کو ناصرف اقتدار سے محروم کردیا بلکہ ملک بدر  بھی کردیا    ۔ان نوجوانوں نے درحقیقت دنیا کے نوجوانوں کواپنی اہمیت اور طاقت سے آگاہ کر دیا ہے اب یہ سرکار میں بیٹھ کر نظام میں یقینا بہترین اصطلاحات کرینگے اور ملک کی ترقی کو چار چاند لگائیں گے۔ اب اگر روبوٹ اور مصنوعی ذہانت کی بات کی جائے تو عملی زندگی کی کارگردگی صفر دکھائی دیتی ہے جوکہ شروع میں آہستہ آہستہ اور پھر بہت تیزی سے انسانی زندگی کو کم سے کم کر کے رکھ دے گی، جسمانی معذوری بھی بڑھ سکتی ہے اورعام انسان جو پہلے ہی دماغ کے استعمال سے کتراتا رہا ہے رہی سہی ذہنی صلاحیت سے بھی محروم ہوجائے گا۔ترقی یافتہ ملک برطانیہ میں ہونے والے تازہ ترین واقع کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کریں کہ اس سارے واقع کا باعث ایک نوجوان بنا، جو مفلوج ذہن کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آسان لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وسائل کی فراوانی انسان کے ذہن کو مفلوج کرنے کا سب سے بہترین ہتھیار ہے اور کسی بھی قسم کی تحریک کو اٹھنے سے پہلے ہی دفن کرنے کیلئے خوب کارگر ثابت ہورہا ہے۔

جب ہم پر کسی بھی عمل کو کسی بھی سوچ کو یا پھر کسی نئے طریقہ کار کو مسلط کیا جاتا ہے تو اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے درحقیقت یہ وقت سوچنے اور سمجھنے کیلئے ہوتا ہے۔ اس درکار وقت میں رہتے ہوئے آگے بڑھنا، ہمیں عبور حاصل کرنے سے روک لیتا ہے یعنی سوچنے، سمجھنے اور تحقیق کے لئے آپ کو وقت باقاعدہ طور پر نہیں دیا جاتا کیوں کہ آپ میں پیچھے رہ جانے کے خوف کو بھی زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے اور پیچھے رہ جانے کہ نقصان کا ایسا پہاڑ دیکھایا جاتا ہے کہ انسان خودکشی کی راہ دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم نے اپنی تحقیق کا کام بھی دوسرے کے ذمہ لگا رکھا ہے وہ تحقیق تو کرتا ہے لیکن اس میں سے نکال کر وہ دیتا ہے جو اسے آپ سے لینا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم نے اپنی نسلوں کے ہاتھوں میں مختلف قسم کی مصنوعات تھما دی ہیں اور ہم انکی اعلی معاشرتی اقدار پر پرورش کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں، ہم ان سے سب اچھے کا تقاضا  بھی کر تے ہیں لیکن زور زبردستی نہیں کر سکتے۔ اس زور زبردستی میں پہلے ایک بیچ کا راستہ ہوا کرتا تھا جوکہ اب یا تو نہیں پھر بھرپور بغاوات کی طرف چلا گیا ہے۔ وہ روبوٹ جو انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بیروزگار کرنے جارہی ہے اور مزید بیروزگاری کو بڑھاوا بھی دے گی تو کیا یہ لوگ بیروزگار ہوکر ان روبوٹ کو کام کرتا دیکھیں گے یا پھر اپنی مایوسی اور ذہنی کیفیت کے خراب ہونے کا کسی نا کسی طرح سے بدلا لیں گے۔ اب بتائیں یہ جو کچھ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے بہت قلیل ہے لیکن کیا غور طلب نہیں ہے۔

Facebook Comments

شیخ خالد زاہد
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔ ان کے منتخب مضامین کا پہلا مجموعہ بعنوان قلم سے قلب تک بھی شائع ہوچکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply