قبالہ ‘بارھویں صدی عیسوی/مبشر حسن

ہسپانوی زبان میں Kabbalah کی مختلف صورتیں ملتی ہیں: Cabbla Cabala اور Quabala اسے کتاب قرار دینا بھی مشکل ہے۔ تاہم، اس سے متاثر ہونے والے لوگوں کی اکثریت کے خیال میں یہ ایک کتاب ہی ہے۔ چنانچہ میں بھی ان کی ہی پیروی کروں گا ۔ اگر میں اس مجموعہ تحریر کوکوئی اور نام دیتا تو کسی کو بمشکل ہی سمجھ آسکتا۔ در حقیقت قبالہ نے ہم سب پر ایک بے اندازہ اور خصوصی اثر ڈالا ہے، کیونکہ اسی قسم کی مرتکز سوچ اور احساس دنیا میں کی گئی متعدد کوششوں کی بنیاد ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کی بہت سی اچھائی میں خرابی قبالہ کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی۔ تاہم، یہ دعویٰ ثابت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ دعویٰ کرنے والے کو ثبوت میں کوئی دلچسپی ہوگی۔

قبالہ کا لفظی مطلب ” وصول کیا گیا ہے ۔ ہم اس کا ترجمہ روایت بھی کر سکتے ہیں۔ بارہویں صدی کے اختتام پر جنوبی فرانس میں ایک مبہم اور پیچیدہ یہودی باطنی روایت پیدا ہوئی جو خمسہ موسیٰ یعنی تحریری یہودی شریعت سے باہر تھی۔ یہ یقین کرنے کی ہر وجہ موجود ہے کہ عیسائی اور یہودی مفکرین میں تعلقات موجود تھے، لیکن اب اس کا بہت کم ثبوت ملتا ہے۔ چھوٹے اور بڑے تمام مذاہب کی اپنی اپنی باطنی یا صوفیانہ صورت بھی ہے۔ لفظ تصوف کے بھی دو اطلاقی پہلو ہیں: پہلا الوہی ہستی کو داخلی طور پر جاننا اور اس کا علم حاصل کرنا، ذاتی تجربہ کی سطح پر اس کی معرفت پانا خدا کو براہ راست طور پر جاننا ؛
اور دوسرا اس طرح حاصل کی ہوئی معلومات کو صرف مبتدیوں تک پہنچانا۔

اس نہایت پیچیدہ اور بظاہر مرموز مظہر کے بارے میں ہماری موجودہ تفہیم کا سہرا صرف ایک اسرائیلی شخص گر شوم شولیم (1897 ء تا 1982 ء) کے سر ہے۔ اس نے تقریباً تن تنہا یہودی باطنیت کے اکیڈمک مطالعہ کا جدید شعبہ تعمیر کیا اور ایسا کرنے کے ذریعہ اس نے یہودیت کے جوہر کے بارے میں ہماری تفہیم کو بدل کر رکھ دیا۔ انیسویں صدی میں یہودیت کے رہنما اسے ایک عقلیت پسند اور legalistic مذہب سمجھتے تھے۔ تاہم ، شولیم نے خود ایک صوفی نہ ہونے کے با وجود دکھایا کہ یہودی تاریخ میں تصوف ایک زور دار قوت رہا تھا اور اب بھی تھا۔ اسے یقین تھا کہ جھوٹے مسیحا قبالہ کے لیے چیلنج بنے۔ شولیم نے مزید وضاحت کی کہ قبالہ کی کتب باہر (Bahir) اور سیفر (Sefer) قدیم دور کی لکھی ہوئی نہیں تھیں بلکہ انہیں بہت بعد میں لکھا گیا۔ اس نے ثبوت پیش کیا کہ باہر (یعنی چمکدار) یقیناً بارہویں صدی میں لکھی گئی اور اس میں غناسطیت سے براہ راست آنے والے قدیم اور مشرقی خیالات شامل نہیں تھے ۔ ”باہر میں ہی ہمیں تناسخ ارواح کے عقیدے کا اولین یہودی ریفرنس ملتا ہے۔ Sephirot کے اہم ترین نظریہ ( جو قبالہ ازم کی جان ہے ) کا ایک شائبہ بھی موجود ہے ۔ شولیم نے اپنی کتاب ” یہودی تصوف کے اہم رجحانات (1941 ء ) میں نشاندہی کی کہ قبالہ ازم کے دروازے پچھلی صدی کے عقلیت پسند یہودیوں پر بند تھے جبکہ مختلف عیسائیوں نے اس کی درست طور پر تعبیر کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کی بصیرتوں کی راہ میں تاریخی مواد کے تنقیدی مفہوم کی کمی حائل تھی۔ چنانچہ جب انہوں نے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی تو بری طرح ناکام ہوئے ۔ تاہم، ان کی کتا ہیں اب بھی شائع ہو رہی ہیں اور بہت سے قاری اب بھی انہیں مستند مانتے ہیں۔

وہ شولیم کی تصنیف کے متعلق جانتے تک نہیں ۔ چنانچہ قبالہ کے اصل معنی کے متعلق بھی بہت زیادہ اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ کچھ کے نزدیک یہ ایک قسم کا رسوماتی سحر ہے ، صرف ایک چھوٹی سی اقلیت ہی اسے باطنی تجربے کے لیے ایک نہایت پیچیدہ مگر خوبصورت حل سمجھتی ہے۔ اس کی اپنی جدا گا نہ تکوینیات (Cosmology) بھی ہے۔

قبالہ غناسطیت کی یہودی صورت ہے جس کی نمائندگی یہاں ”سچائی کی انجیل کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اور زیادہ تر مظلوم عوام کے داخلی وجدانی سفر کی رہنمائی کرنے والے قبالہ نے غناسطیت کی جدید صورتوں کو کافی کچھ دیا ہے ( مثلاً سارتری وجودیت ) ۔ قبالہ میں اہم ترین کتاب ظهر ( شان و شوکت ( ہے۔ ایک دور میں اسے بائبل اور تالمود کے ساتھ شمار کیا جاتا تھا۔ شولیم نے دو باتیں ثابت کیں: اول یہ ایک ہسپانوی قبالہ پسند موسس ڈی لیون (1250ء تا 1305 ء) نے لکھی تھی ؛ اور دوم یہ کہ اس میں کوئی قدیم تحریر میں شامل نہیں تھیں ۔ در حقیقت قبالہ ازم کی جڑیں نہ صرف حقیقی معنوں میں قدیم یہودی تحریروں کے صوفیانہ رنگ، بلکہ موسس ڈی لیون سے قبل کی صدی میں پر اونس میں یہودی بود و باش میں بھی تھیں ۔ “ظہر” کو محض ایک قسم کے صوفیانہ ادب کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے جس کا مقصد بائبل کی شرح کرنا ہے۔ اس میں ربی سائمیون بن یوہائی اور اس کے بیٹے ایلیا زار کے درمیان موت وحیات کے مفہوم پر بحث کا ریکارڈ موجود ہے۔

قبالہ سے متعلقہ تمام فکر میں Sefiroth (اعداد ) کا نظریہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تخلیق کے بارے میں قبالہ کا بیان ہے؛ تاہم ، خدا کا نا قابل معرفت ہونے کا امر اس کا لازمی جزو ہے۔ بہت سے قارئین نے Sefiroth کا ایک شجرہ نسب جیسا علامتی درخت دیکھا ہوگا جو خدا کے مخفی چہرے دکھاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ انسان کے اندر الوہی ذات موجود ہے۔فلسطینی قبالہ پسند آئزک لوریا ( 1534ء تا 1572ء) کے مطابق تخلیق تبھی ممکن ہوئی جب ایک نا قابل بیان خالق اپنے آپ سے پیچھے ہٹا اور ایک آفت آئی جسے برتنوں کا ٹوٹنا کہتے ہیں، اس طرح تخلیق کا نور بہہ نکلا اور زیریں اقلیموں میں چھپکنے لگا۔ پھر شر اور زندگی کی تخلیق ہوئی ۔ کافی سابقہ دور کے مانوی کفر میں بھی ہمیں تقریباً یہی بیان ملتا ہے۔ اوریا کے قبالہ ازم میں ہستی کا مقصد tikkun ( بحالی) ہے : تمام گری ہوئی چنگاریوں، یعنی روحوں کو لوٹ کر اپنی اصل جگہ پر واپس جانا ہے۔ اس طرح gilgul یعنی تناسخ ارواح کا نظریہ پیدا ہوا …. اور حتیٰ کہ ہمیں مشرقی نظریہ کرم سے دلچسپ طور پر مشابہت رکھنے والا ایک نظریہ بھی ملتا ہے ۔ قبالہ ازم کے ابہام اور پیچیدگیاں ابتدا میں بہت گھمبیر لگتی ہیں، لیکن جذباتی اور دانشورانہ سطح پر اور متعدد دیگر عقائد کی روشنی میں دیکھنے پر وہ سہل ہو جاتی ہیں ۔ انیسویں صدی کے ایک محقق نے درست طور پر نشاندہی کی تھی کہ خدا کے پیچھے ہٹنے (Tzimtzum) کا نظریہ لاشئے سے کچھ تخلیق ہونے کی واحد سنجیدہ کوشش ہے۔ عیسائی فلسفیوں نے بھی اس موضوع سے دامن بچایا۔ بلا شبہ یہ ایک عمیق النظر تصور ہے۔

آپ قبالہ کے بارے میں جتنا کچھ چاہیں لکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ کتابوں کا ایک سلسلہ ہے مگر بہت سے محققین نے اسے بجاطور پر ایک کتاب قرار دیا کیونکہ غیر یہودی لوگ اس کی تفسیروں کا مطالعہ کیے بغیر اسے سمجھ نہیں سکتے ۔ ابھی مختصراً یہ بیان کرنا باقی ہے کہ یہ اپنی موجودہ صورت میں ہمیں کیا کچھ بتا سکتی ہے۔

Sefiroth
اور لوریا کے Tzimtzum کی تشبیہات جدید فزکس کی تمام دریافتوں کی پیش بینی کرتی ہیں۔ تاہم، یہاں یہ کام ایک جذباتی انداز میں کیا گیا ہے۔ جبکہ جدید ملحد سائنسدان تخلیق حیات یا قوانین فطرت جیسے معاملات کو اس طرح لیتے ہیں کہ جیسے انہیں صرف ایک عقلی انداز میں ہی سمجھا جا سکتا ہو۔ یقیناً عقل بھی ہماری تفہیم میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔لیکن صرف اور صرف منطق کا طریقہ اپنانے سے اپنی ہستی کے متعلق ہمارا نکتہ نظر ناقص اور کمزور ہو جاتا ہے۔ خود عظیم مذاہب کی تہہ میں موجود تحریکات اور امنگیں بے کا رو بے اثر ہوگئی ہیں: انہوں نے اپنا عین متضاد روپ دھار لیا ہے۔ مثلاً عیسائیوں نے عقیدے کے نام پر لوگوں کو آگ میں ڈالا اور مسلمان بھی مذہب کے نام پر مذہب ہی کی اقدار کو پامال کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ رویہ یہودیوں کے ہاں بھی معلوم ہے ۔ شولیم عربوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک سے ناخوش تھا۔ قبالہ کے پیروکار بھی خطا کار ہوئے : وہ حد سے زیادہ دانشور اذیت دینے والے اور مغرور بن گئے ۔ لیکن خود قبالہ ازم زندہ اور پائیدار ہے۔ یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو کامل بنا سکتا ہے یا کم از کم کاملیت حاصل کرنے کی ایک راہ موجود ہے ۔ کائنات بحیثیت مجموعی اور اس کے تمام حصوں میں خالق نے ازل سے ہی توانائی بھر دی ہے، لیکن ہم عام انسان حقیقت میں بس وہی کچھ جانتے ہیں جو ہمارے ری ایکشن ہمیں بتاتے ہیں ۔ ہم خود حقیقت کا علم نہیں رکھتے ۔ ہم اشیاء یا ہستیوں …. مثلاً محبت کے جوہر کو نہیں جانتے بلکہ ان کی جانب ہمارا رد عمل ہی ان کے متعلق ہمارے علم کا ماخذ ہے ۔ بدھ مت کی مختلف صورتوں کے ساتھ اس کی مشابہت عیاں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جدید قبالہ پسند ایک مثالی قصہ بیان کرتے ہیں۔ ایک اچھا آدمی بدبختی کا شکار ہو جاتا ہے اس کی بیوی اور بچے مر جاتے ہیں، ساری جائیداد چھن جاتی اور وہ خود بھی دکھ کے باعث مر جاتا ہے۔ اس کا مقدمہ اعلیٰ ترین عدالت میں ہے : طویل دکھ سہنے والی اس قسم کی روح کو کیا دیا جا سکتا ہے؟ عدالت اسے یہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے : زندہ ہونے اور اپنی ہر چیز سے لطف اٹھانے کا احساس ۔ پر جوش اور ہوشیار پیشوا جو ہمیں اذیت دیتے ہیں، غیر منصفانہ وکلاء سخت گیر بیورو کریٹس، مذہب کا غلط استعمال کرنے والے مذہبی لوگ لوگوں کو کچلنے اور دبانے والے ….. یہ سب کے سب خود کو زندہ اور تخلیق کا ایک حصہ محسوس نہیں کرتے، اور اپنی ہستی کے لیے شکر گزار نہیں ہیں۔ تاہم، قبالہ پسند محسوس کرتا / کرتی ہے کہ وہ ان چیزوں سے بالاتر ہو کر پرے دیکھ سکتا سکتی ہے۔ البتہ اسے سب سے بڑھ کر انکساری اور صداقت کے لیے ذوق و شوق کا حامل ہونا چاہیے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply