محبت کے تالوں کا بندھن اور کولون/محمود اصغر چوہدری

محبت میں انسان جس جذبے کاسب سے زیادہ متمنی ہوتا ہے وہ ہے بندھن ۔محب اپنے محبوب سے اسی بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ان کا بننے والا تعلق دائمی بندھن بن جائے ۔ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا اسی بندھن کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ محبت کرنے والے جنگلوں میں درختوں کے تنوں پر ایک دوسرے کا نام کھرچ کر لکھ دیتے ہیں ۔ خواہش یہی ہوتی ہے کہ یہ تعلق دائمی ہوجائے اور ایک دوسرے سے نام جڑ جائے ۔ لیکن کسی بھی بندھن میں سب سے ناپائیدار لفظ ”دائمی” ہے ۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مضبوط سے مضبوط بندھن میں بھی محبت کی مٹھاس ختم ہونے میں محض 3سال کا عرصہ لگتا ہے ۔ بلکہ کچھ دانشوروں کا تو خیال ہے کہ اگر کسی جوڑے میں محبت ختم نہ ہو رہی ہو تو ان کی شادی کروادیں ۔ محبت خود بخود ختم ہوجائے گی ۔ ایک دوسرے سے بیزاری کا عنصر غالب آجائے گا اور محبت بجلی کے بل ، سودا سلف لانے یا پھر بچوں کے پیمپر خریدنے میں تیل لینے چلی جائے گی۔

اگر آپ جرمنی کے شہر کولون پہنچیں تو آپ کو محبت کرنے والوں کی اس دائمی بندھن کی نشانی تاریخی کیتھڈرل کے قریب اس پل پر مل جائے گی جو دریائے رائن کے اوپر بنا ہوا ہے ۔ یہ پل اتنابڑا ہے کہ اس کے اوپر سے ہر روز 1200ٹرینیں گزرتی ہیں اور انہیں ٹرینوں والے پل کے ساتھ پیدل چلنے والوں کا راستہ ہے ۔ ٹرینوں کی پٹری اور پیدل چلنے والے راستے کے بیچ میں لوہے کے جنگلے ہیں ۔ان جنگلوں کے اوپر محبت کرنے والی کی نشانی کی صورت میں لا تعداد تالے لٹکے ہوئے ہیں ۔ آج سے 9سال پہلے یعنی 2015ء میں ایک اندازے کے مطابق اس پل پر کم وبیش 2 لاکھ تالے لٹک چکے تھے ۔ یعنی اگر اس تناسب سے آج کی تاریخ میں ان کا حساب لگانا چاہیں تو ان کی تعداد ملینز میں تو ہوگی ۔ یہ تالے نشانی ہیں محبت میں بندھن بنانے والوں کی ۔ جوڑے اس پل پر آتے ہیں ۔ اپنی محبت کا بندھن مضبوط بنانے کا عزم اس طرح کرتے ہیں کہ ایک تالہ خریدتے ہیں اس پر دونوں اپنے نام کا پہلا حرف لکھتے ہیں ۔ اس تالے کو پل کے اوپر بنے جنگلے پر لگاتے ہیں اور پھر اس کی چابی دریائے رائن میں پھینک دیتے ہیں ۔ یہ اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ ان کا بندھن اٹوٹ ہوگیا ہے ۔ یہ اتنا مضبوط ہوگیا ہے کہ اس تالے میں قید ہوگیاہے اور اس کی چابی دریا میں پھینک دی گئی ہے اب ان کا تعلق کبھی ٹوٹ نہیں سکتا کیونکہ چابی تو دریا کے حوالے ہوگئی ہے ۔

مجھے تو ویسے ہی رنگوں سے بہت محبت ہے اور رنگوں سے بھر پور کوئی بھی نظارہ آنکھوں کو بھاتا ہے ۔ لیکن پل کے اوپر لگا یہ جنگلہ اور اس کے اوپر لگے یہ تالے اتنے زیادہ رنگوں میں ہیں کہ خالی ان تالوں کو دیکھ کر ہی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں ۔ ان تالوں پر دل کی طرز کے ڈئزائین بناکر عاشقوں نے اسی طرح اپنے نام کے پہلے حرف کندہ کئے ہوئے جیسے ہمارے باغات اور جنگلات میں من چلے درختوں کے تنے پر اپنےاور اپنے محبوب کا نام کھرچ کر لکھ دیتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اگر ان تالوں کو غور سے دیکھیں تو یہ صرف عاشقوں کی محبت کی نشانی نہیں ہیں ۔ بلکہ ماں اور بیٹے کی محبت یا دوستوں کے آپسی تعلقات کی نشانی بھی نظر آتے ہیں ۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ جرمن لوگ محبت میں صرف لڑکا اور لڑکی کی محبت کو ہی شامل نہیں سمجھتے بلکہ کسی بھی قسم کی محبت کے بندھن کی مضبوطی کے لئے اس رسم کو اپناتے ہیں ۔ یہ تالے اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ اب جنگلے پر تالے لگانے کی جگہ ملنا نا ممکن ہے ۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اب لوگوں نے پہلے سے لگے ہوئے تالوں کے اوپر تالے لگانا شروع کر دئیے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق ان تالوں کاوزن 45ٹن سے عبور کر چکا ہے لیکن جرمن حکومت کو اس بات کی فی الحال تشویش نظر نہیں آتی کہ کہیں ریلنگ گر نہ جائے کیونکہ محبت اور بندھن کے تالے اب پل کی دوسری جانب والی ریلنگ پر بھی لگنا شروع ہو چکے ہیں ۔

محبت کا بندھن مضبوط بنانے کے لئے تالے لگاکر چابی پھینکنے کی رسم دوسری جنگ عظیم کے دوران شروع ہوئی تھی جب جنگ پر جانے والے فوجی اپنے پارٹنر کی محبت میں ایک تالہ لگاتے اور چابی دریا میں پھینک دیتے یہ اس بات کی نشانی ہوتی کہ میں لوٹ کر آؤں گا اور ہماری محبت ، ہمار ا بندھن ، ہمارا تعلق اب دائمی ہوگیا ہے ۔ کولون کے پل پر تالے لگانے کی یہ رسم زیادہ پرانی نہیں ہے ۔ یہ 2008 ء میں شروع ہوئی ہے ۔ اور اس کو شروع کروانے میں ایک اطالوی ناول نگار فیدیریکو موچا کے ناول ” مجھے تیری چاہت ہے ”کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ اس ناو ل میں ایک محبت کرنے والا جوڑا روم کے دریائے تیور ے پر جاتا ہے اور اس پل پر لگے روشنی کے کھمبے پر اپنے بندھن کا تالہ لگا کر چابی دریا میں پھینک دیتا ہے ۔ اس ناول کے اس منظر پر یورپ بھر میں عاشقوں نے وہ جنون پکڑا کہ وہ روم سے لیکر پیرس تک اور لندن سے لیکر لیڈز تک ،پراگ سے لیکر وینس تک الغرض جہاں بھی پل نظر آتا اس پر کوئی جنگلہ یا کھمبہ نظر آتا فوراً تالے لگانا شروع کر دیتے ۔ 2014ء میں پیرس کے ایک پل کا جنگلہ توباقاعدہ تالوں کے وزن سے گر گیا ۔ اس کے بعد حکومتوں نے ان حرکتوں پر جرمانے کرنا شروع کر دئیے اور لگے ہوئے تالوں کو کاٹنا شروع کر دیا ۔ اس وقت اگر آپ وینس کے ریالٹو بریج پر ایسے کسی بندھن کی پریکٹس کرنا چاہیں یعنی ایسا کوئی تالہ لگا کر چابی دریا میں پھینکنا چاہیں تو آپ کو تین ہزار یورو تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے ۔

کولون میں البتہ ابھی تالوں کو کاٹنے کی ایسی صفائی نظر نہیں آئی ہے ۔ اس لئے اگر آپ کسی سے محبت کرنا چاہتے ہیں اور اپنے محبوب کو اپنی محبت کا یقین دلانا چاہتے ہیں تو اسے ساتھ لیں اور کولون پہنچ جائیں ۔ ٹرین اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی سنٹر میں ایستادہ اس تاریخی کیتھڈرل کا نظارہ کریں جو ورلڈ ہیریٹج سائیٹ ہے 1248ء سے بنے اس خوبصورت چرچ کو بھی آپ کبھی بھول نہیں پائیں گے ۔ اس کا جو فرنٹ دروازہ ہے۔ اس کی اونچائی دیکھتے وقت اگر آ پ نے ٹوپی پہنی ہوئی تو اسے سنھبالئے وہ نیچے گر سکتی ہے ۔ اس کے گرد بنے دو مینار اونچائی میں دنیا میں بنے کسی بھی چرچ میں سب سے اونچے ہیں ۔ اس کے فرنٹ کی اونچائی 515فٹ ہے کولون میں صرف ٹیلی کمیونیکشن کی اونچائی ہے اس سے زیادہ ہے اور کسی ٹاور کی نہیں ۔ آپ اس خوبصورت نظارہ اور تاریخی عمارت کے ساتھ سیلفی لیں اور پھر اپنے محبوب کو ساتھ لیکر اس کی پچھلی جانب دریا ئے رائن کی طرف چلے جائیں جو صرف چند قدم کے فاصلے پر ہے ۔ اس پر بنے ہوئے اس تاریخی پل پر پہنچ جائیں گے ۔ تالہ نکالیں اور اسے لگانے کے لئے جگہ تلاش شروع کر دیں ۔ یہاں تک کا معاملہ تو طے ہوگیا لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ تالہ لگانے کے لئے آپ کو جگہ دستیاب نہیں ہو گی کیونکہ اس جنگلے کے ایک ایک انچ پر ایک ایک سینٹی میٹر کوئی نہ کوئی تالہ کسی نہ کسی جوڑے کی یاد میں لگا وہاں موجود ہے ۔

کولون کے اس سفر پر میرے میزبان دیونہ برادران تھے ۔ جس میں جرمنی میں عملی سیاست میں حصہ لینے والے عرفان مجید دیونہ تھے جو جرمنی کی ایک کونسل میں باقاعدہ 66فیصد ووٹ لیکر کونسلر منتخب ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ علی رضا ممتاز تھے جو پاکستان میں عملی سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور امیدوار برائے پنجاب اسمبلی رہے ہیں ان کے ساتھ انجم اقبال تھے ۔ دریائے رائن پر محبتوں کی اس نشانی یعنی تالوں سے نظر ہٹا کر دریا کی طر ف دیکھا جائے تو دریا اپنی پوری آپ و تاب اور حسین نظارے کے ساتھ آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ اس دریا کنار ے پھیلے ہوئے ریستوران اور پب اس کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں ۔ لوگ سائیکلوں پر اور پیدل یہاں سے وہاں رواں دواں ہیں ۔ دریا میں مختلف کروز شپ آپ کو دریا کی سیر بھی کراتے ہیں ۔ کولون کیتھڈرل اور اسی دریا سے ملحقہ رومن طرز تعمیر کا پرانا کولون بازار آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتاہے اور آپ خود کو کسی قرون اولی کے دور میں بنی گلیوں میں گھومتے محسوس کرتے ہیں ۔جن گولیوں پر تارکول نہیں ہے بلکہ رومن طرز کے پتھر اور اینٹیں ہیں جو کئی صدیوں بعد بھی اتنی ہی مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست ہیں ۔ اس دریا کنارے ہم لوگوں نے ایک ایرانی ریستوران ”یاس ” میں بیٹھ کر شام کا کھانا کھایا۔زعفرانی چاول اور کباب سے زیادہ ہمیں وہ سنہری طشتری اچھی لگی جس میں وہ پیش کیا گیا ۔ بچپن میں ہمارے گھر میں وہ طشتریاں اور پراتیں ہوتی تھیں ۔ گرمیوں کے موسم میں گاؤں کی عورتیں ان طشتریوں کو باہر صحن میں نکالتی اور انہیں قلعی کرتی ۔ ہمارا دن وہ سال کا سب سے خوبصورت دن ہوتا جب روشن اور تپتی دھوپ میں ہم ان پراتوں کو سنہری رنگ میں جگمگاتے دیکھتے ۔ اب سرامیکس نے ہم سے بچپن کی وہ خوشی چھین لی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر آپ کولون جائیں تو کولون کا کیتھڈرل اس سے ملحقہ پرانا بازار اور دریائے رائن پر بنے اس پل کو دیکھنے ضرور جائیں جہاں محبتوں کے یہ تالے ایک مضبوط بندھن کے وعدوں پر لگے آپ کی آنکھوں کو خیرہ کر دیں گے۔ویسے فیدیریکو موچیا کا وہ ناول جس میں تالہ لگا کر دریا میں چابی پھینکے کا منظر ہے وہ سن 2006ء میں آیاتھا اور اس پر فلم” او وولیا دی تے یعنی آئی وانٹ یو”سن 2007ء میں بنی لیکن انڈیا کے ایک شاعر نے اس تالے والی کہانی پر گانا 1981ء میں لکھ دیا تھا اور فلم آس پاس میں کشور کمار اور لتا منگیشکر نے گا دیا تھا کہ تمہیں دل میں بند کر کے دریا میں پھینک دوں چابی ۔ حیرت ہے ایسا تالہ لگانے کا خیال کسی پاکستانی یا انڈین عاشق کے ذہن میں کیوں نہیں آیا ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply