سر گنگارام نے ١۰ جولائی ١۹۲٧ء کو لندن میں وفات پائی۔ بی پی ایل بیدی, گنگارام کی آخری رسومات کے متعلق لکھتے ہیں”ان کے انتقال کی خبر لاہور بذریعہ تار پہنچی۔ ١۲جولائی ١۹۲٧ء کو بروز جمعہ گنگانواس لاہور میں ان کی “کریا” کی رسم ادا کی گئی۔ اس روز غرباء میں کپڑے اور نقدی تقسیم کی گئی۔ لالہ سیوک رام نے والد کی راکھ کو گنگا میں بہانے کی رسومات ادا کیں۔ جس میں دس ہزار افراد نے شرکت کی۔ تقریب میں یوں نعرے لگائے گئے، دھان ویر کی جے, غریبوں کے ولی کی جے, ودھواؤں کے سہارے کی جے اور پنجابی حاتم طائی کی جے۔ ١٥ اگست کو گنگارام کی وصیت کے مطابق ان کی بچی راکھ لاہور لائی گئی۔ جہاں بیوہ گھر اور اپاہج آشرم کے قریب واقع سمادھی میں اسے رکھ دیا گیا۔ گنگاپور کے لوگ درشن کے لیے آئے۔ آخری تقریب میں ٹاؤن ہال گارڈن بھرا ہوا تھا۔”
ڈولا کا جلوس” ہزاروں افراد پر مشتمل تھا۔ لوگوں نے دکانیں بند رکھیں۔ جلوس کے شرکاء میں دودھ تقسیم کیا گیا۔ گھروں کی بالکونیوں سے خواتین “ڈولے” پر پھول برساتی رہیں۔ جلوس سمادھی کی جگہ پر پہنچا جہاں راکھ کو ماربل کے مقبرے میں دفن کردیا گیا۔ اس روز شہر بھر کے غرباء کو کھانا کھلایا گیا۔”
سر گنگارام کی سمادھی لاہور میں کچا راوی روڈ پر ہے۔ یہاں پہنچنا نہ ہی دشوار ہے نہ ہی سہل۔ اگر رہنمائی لینی ہے تو آپ دو مرتبہ بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی درسگاہ “سن رائز بلائنڈ اسکول” کا پوچھ سکتے ہیں۔ یہ اسکول خاصا معروف ہے اور سمادھ اس سے پہلے آتی ہے۔ کافی دیر خوار ہونے کے بعد ہم نے آخر کار سمادھی تلاش کرلی۔ لوہے کے دروازے سے داخل ہوئے تو ایک وسیع میدان میں موجود سمادھ کا دروازہ بند تھا اور ایک عجب سی ویرانی تھی۔ باہر ایک صاحب جو کہ روزنامہ پاکستان کے رپوٹر تھے ان سے معلوام ہوا کہ نگران صاحب تو غائب ہیں و ہ کچھ دیر میں آئیں گے۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد وہ تشریف لائے۔ انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ اندر داخل ہوئے تو سخت شرمندگی ہوئی۔ لاہور کے محسن کی سمادھی نا صرف ویران، سنسان تھی بلکہ معلوم ہوتا تھا کہ یہاں صفائی بھی کافی عرصہ بعد کی جاتی ہے۔
سن ٤٨ء میں منٹو نے لکھا تھا “ہجوم نے رخ بدلا اور سرگنگارام کے بُت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ان کا ہار بنا کر بُت کے گلے میں ڈالنے کے لیے آگے بڑھا۔ مگر پولیس آگئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔ جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہوگیا۔ چنانچہ مرہم پٹی کے لیے اسے سرگنگا رام ہسپتال بھیج دیا گیا”۔ لیکن اس سے بھی ہماری تسلی نہیں ہوئی اور ١۹۹۲ء میں بابری مسجد کے تنازعہ کے بعد سمادھی کی چاردیواری میں جو برجیاں موجود تھیں گرا دی گئیں, سنگ مرمر کے بنچ, فرش پر موجود سنگ مرمر اور سمادھی تک سے سنگ مرمر اتار کر بازار میں بیچ دیا گیا۔
سمادھی پر موجود ایک تختی کے مطابق گزشتہ حکومت نے سمادھی کی تزئین و آرائش کروائی تھی۔ راقم کو ٢٠١٨ء میں جب سمادھی پر جانے کا اتفاق ہوا تھا تو تب بھی یہاں مرمتی کام جاری تھا۔ برسا ہا برس سے جاری اسی کام کی تکمیل پر ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب نے سمادھی کا افتتاح ٣ جولائی ٢٠٢١ء کو کیا۔ خیر پینٹ و فلیکس کی تبدیلی کے علاوہ غالباً جہاں جہاں سے ماربل اکھڑا ہوا تھا اسے بھی مرمت کر دیا گیا ہے۔ نور الحق صاحب نے افتتاح پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ “یہ کام ہماری وسیع القلبی کی مثال ہے۔” بلاشبہ یہ ہماری کشادہ دلی و فیاضی ہی ہے، ہاں البتہ اصل منصوبے میں ایک ڈسپنسری کی تعمیر بھی شامل تھی۔ جو ہم نے اس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنانا تھی جس نے اس شہر کو ایک وسیع و عریض ہسپتال عطیہ کیا۔ معلوم نہیں کہ یہ ڈسپنسری فعال ہے یا نہیں، لیکن گنگارام کا ہسپتال آج بھی اہلیان لاہور کے لیے متحرک و سرگرم موجود ہے۔ نیز سمادھ میں بحالی کے بعد گنگارام سے متعلقہ بعض عمارات کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ مگر تحقیق کا عالم یہ ہے کہ تصاویر میں موجود کچھ عمارات کا گنگارام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ خیر پھر بھی جو بھی جتنا بھی کام کیا گیا وہ لائق تحسین ہے۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا جنہوں نے پہلے یہاں سے یہ سب چوری یا برباد کیا تھا وہ واقف ہو چکے کہ گنگارام کون تھا؟
سو کون ہے گنگارام؟ وہ گنگارام جس نے لاہور کے لیے ایک وسیع ہسپتال بنایا, جس نے آشرم تعمیر کروائے, جس نے گنگارام ٹرسٹ بنایا, جس نے گنگارام ہائی سکول بنوایا, جس نے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے, جس نے بزنس بیورو اور لائبریری بنوائی, جس نے بیوہ خواتین کے لیے ٹرپل پرجیکٹ شروع کیا, جس نے لڑکیوں کے لیے سکول کھولے, جس نے اپاہج آشرم کھولا, جس نے غریب رلیف فنڈ قائم کیا, وہ گنگا رام جس نے گورنر کو کامرس کالج قائم کرنے کا مشورہ دیا تو کہا گیا جگہ نہیں ہے کوئی مناسب عمارت میسر آجائے تو کالج کی ابتدا کی جاسکتی ہے, تو گنگارام نے گورنر کی میز پر اپنی رہائش گاہ کی چابیاں رکھ دیں اور اگلی سویرے گنگارام کے گھر میں ہیلی کالج آف کامرس کی کلاسیں شروع ہوگئیں۔ وہ شخص جس کے متعلق کہا گیا کہ اس نے ہیرو کی طرح کمایا اور درویش کی طرح خرچ کیا۔
ہمیں سوچنا نہیں چاہیے کہ ہم نے آج تک گنگارام کے لیے کیا کام کیا؟ آیا فقط سمادھی کی مرمت کافی ہے؟ شاید ہمیں گنگارام کی یاد میں کوئی عمارت تعمیر کرنی چاہیے تھی۔ لیکن یہ کیا ہم تو اس کی بنائی ہوئی عمارتوں کے بھی نام تبدیل کرنے کے درپے ہیں۔ اپنی ہی مادر علمی کو دیکھوں تو جس نے اس جامعہ کو شعبہ کیمیاء بنا کر دیا جو اس کالج کے اولین طلباء میں سے ایک ہے، آج اس کے نام پہ یہاں کوئی چیز نہیں۔ حتیٰ کہ یہاں کے بیشتر طلباء اس کو جانتے تک نہیں۔ جس شخص کے متعلق لاہور کے بچے بچے کو معلوم ہونا چاہیے, جس کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے, آج اس کی سمادھ کے گرد بسنے والے لوگ تک اس سے پوری طرح واقف نہیں۔ بلکہ عالم یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر سمادھی گنگارام کو کوئی مندر سمجھتے ہیں۔ خیر ہم بے حس ہیں۔ ہم وہ ہیں جو چوروں کا استقبال کرتے ہیں۔ ہم لوگ لوٹنے والوں کو تاج پہناتے ہیں۔ ہمیں کیا لگے محسنوں سے۔ ہم لوگ تو اپنے جیسوں کو ہی عزت دیتے ہیں۔ سوالیہ نشان ہے کہ کیا ہم لوگ زندہ دل ہیں، کیا زندہ دل ایسے ہوتے ہیں, یہ ہے ہماری زندہ دلی؟
میری دانست میں تو گنگا رام کی سمادھ کی بوڑھی عمارت ہماری زندہ دلی کے لیے ایک سوال ہے۔
ایک مرتبہ راقم جب یہاں حاضر ہوا تو سمادھ پر کونسلر صاحب کے ہمراہ کچھ اوباش لڑکے تاش کھیل رہے تھے۔ آج کے بیشتر بے فکر نوجوان گنگارام جیسی عظیم شخصیات سے ناواقف ہیں۔ ویسے بھی ہمیں نصاب میں ہندو دشمنی کا زہر پلایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل حالات مختلف تھے۔ گنگارام کی سمادھ پر ہر سال میلہ لگتا تھا یہاں آشرم بھی ہوتا تھا مگر اب یہاں ایسا کچھ بھی نہیں۔ ڈاکٹر محمد علی صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ “مذہب کی بنیاد پَر جدید لاہور کے اِس مؤجد سے نفرت کرنے والوں کی نسلیں آج بھی سَر گنگا رام ہسپتال سے طبی امداد لیتی ہوں گی۔ مذہبی شدت پسندی ایسا زہریلہ سُرمہ ہے جو آنکھ میں پڑتے ہی انسان، انسانیت اور انسانی خدمات کے عکس کو دیکھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔” پھر کہا جاتا ہے کہ تقسیم میں بہت سا خون بہا تھا اور شاید اسی میں ہماری انسانیت کا بھی خون ہو گیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں