مکے ٹھڈےگالیاں اور چیلنج

مکے ٹُھڈے، گالیاں اور چیلنج !!
یوں تو مسلمانوں کی علمی اور فکری تاریخ میں فرقوں، مسلکوں اور دھڑوں کی تعداد مختلف ادوار میں گھٹتی بڑھتی رہی اور ان کے درمیان علمی اور سیاسی محاز آرائی بھی نسل در نسل چلتی رہی، مگر مسلمانوں کی موجودہ فکری تاریخ میں دو طبقے ایسے ہیں جو ایک دوسرے سے دست و گریباں نطر آتے ہیں اور ایکدوسرے کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار بھی ہر فورم پر کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یعنی ایک مذہبی اور دوسرے ترقی پسند لبرلز. سوشلستان پر مذہبی انتہا پسندوں اور لبرل فاشسٹوں کے بیچ طعن و تشنیع، گالیاں مکے اور ٹُھڈے تک چلتے ہیں۔
طرفہ تماشہ یہ کہ دونوں طرف کے انتہا پسندوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ دونوں گروہوں میں موجود امن پسند افراد کے مابین قربت نہ ہونے پاۓ- چاہے مذہبی انتہا پسند ہوں یا لبرل انتہا پسند، دونوں ہی پوری کوشش کرتے ہیں کہ طرفین میں فکری تفریق پھیلائی جائے- مذہبی انتہا پسند اپنی ہزارسال کی تقلیدی فقہ کو لے کر اپنی بوسیدہ سوچ کو کسی نہ کسی طرح منوانے کے درپے رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف لبرل سوچ کے حامی جدید افکارو نظریات سے لیس ہو کر ان کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں- اس سارے معاملے میں ایک تیسرا طبقہ “ملحد” (ایتھیسٹ) بھی ہے جو ترقی پسند لبرل سوچ کے حامل افراد کو لبھانے کی کوشش میں رہتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جواھلِ مغرب کی چکاچاند تہذیب کے دلدادہ ہیں اور ہر شے کو سائنسی تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر پرکھتے ہیں، یہ مذہب اور رسم و رواج کی قید سے یکسر آزاد ہو کر بے لاگ تبصرے کرتے ہیں، یہ لبرلز اور مذہبی انتہا پسندوں میں چھڑی لفظی جنگ کو مزید ہوا دینے میں کوشاں رہتے ہیں ۔
یہ سارا تماشا امن پسند معتدل سوچ رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہیں اپنی فکری گہرائی اور مصلح پسند سوچ کے لئے اپنے تعصبات سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑتا ہے، یہ لوگ کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور کسی مبہم معاملے کی حقیقت آشکار ہونے پر اپنی رائے میں مسلسل تبدیلی کے لئے تیار رہتے ہیں جو کہ یقیناً آسان کام نہیں- یہ معتدل مزاج لوگ مسلمانوں کے زوال اور مغرب کےعروج کی حقیقی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو اپنےعصر سے کچھ اس طرح سے ہم آہنگ ہونا چاہئے کہ دین بھی رہ جاۓ اور دنیا بھی نہ چھوٹے، کیونکہ دنیا میں وہ اقوام جو وقت کی رفتار کے ساتھ چلی ہیں وقت نے بھی انکا ساتھ دیا ہے مگر وہ جنہوں نے اپنی فکر میں جدّت پیدا نہیں کی وہ ہمیشہ سے مغلوب رہی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ انسان بیک وقت روشن خیال اور مذہبی رہ سکتا ہے اگر میانہ روی اختیار کی جائے،
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تشدد اور انتہاپسندی سے بچ کر رہیں، محب وطن پاکستانی ہونے کا یہی تقاضا ہے کہ ہم تحمل اور بردباری کے ساتھ آگے بڑھیں- لبرل ازم ہو، اسلام ازم ہو یا کوئی اور ازم، سوچ کسی مقام پہ رک نہیں سکتی۔ یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔ مگر بہترین حل تب نکلے گا جب ہم طرفین کے انتہاپسندوں سے دامن چھڑا لیں گے، پھر منزل دور نہیں ہو گی انشااللہ !

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply