سیمپل جمع کرانے کے ایک گھنٹے بعد رپورٹ مل گئی ، پازیٹو تھی۔
لیکن نجانے کیوں اس نوید سے ہمیں وہ مسرت نہ ہوئی جو کہ فطری طور پر ہر جوڑے کو ہوا کرتی ہے۔ بس Casual سے جذبات تھے۔ وہ بھی اس اولین انوکھے تجربے سے کافی فرسٹریشن میں چلی گئیں۔ ہم نے منع بھی کیا کہ ابھی اس ڈیویلپمنٹ کا دونوں خاندانوں کی بزرگ خواتین سے ذکر نہ کرے مگر وہ عورت ہی کیا جو راز پر تادیر پہرہ دے سکے۔
جگے ماریا لائلپور ڈاکا
تے تاراں کھڑک پیاں
نتیجہ یہ کہ لاہور تا کراچی سے نت نئی نصیحتوں ، احتیاطی تجاویز اور تراکیب کے تانتے بندھ گئے ۔ ہمارے پڑوس میں بنوں کے چچا قاسم طوری کی بیوی صاحب جان (جو نورستانی افغان ہیں) نے ہماری بیگم کو اپنی منہ بولی بیٹی بنا رکھا تھا ، سُن کر تشریف لائیں اور اک لحاظ سے طبی مارشل لاء نافذ کر دیا۔ کہنے لگیں پہلوٹھی کے بچے یا بچی نے دنیا میں آنا ہے تو ماں کے لیے قوت بخش غذا ضروری ہے۔ بعد میں وہ دیسی گھی ، پنیر اور مکھن کے ساتھ ساتھ ڈھیر سارا ڈرائی ی فروٹ بھی چھوڑ گئیں۔ ان کی بیٹیاں عظمیٰ اور نجمہ صبح و شام مزے مزے کی خوراکیں بنا بنا کے لاتیں اور زور دے دے کر کھلاتیں۔ صاحب جان چچی بڑی اللہ لوک انسان ہیں ، وہ آج بھی منہ بولے تعلق کو سگی ماں کی طرح نبھاۓ جا رہی ہیں۔ ہم دونوں بھی انھیں ماں کے برابر ہی تعظیم دیتے ہیں۔ اب تو ان کی پوری برادری ہمیں اپنے عزیزوں میں شمار کرنے لگی ہے۔
رہتی کسر کراچی اور لاہور سے پوری ہونے لگی۔ ایک دن بیٹھی اخروٹ کی گری ، کاجو اور بادام چُگ رہی تھیں تو ہم نے کہا : ”زنانیاں دے مزے نیں ، واہ وا موجاں لگیاں نیں بھئی۔“
ہماری بات کو جانے دیا اور پرس کھول کر بیٹھ گئیں۔ کچھ رقم نکال کر ہماری طرف بڑھائی تو ہم نے استہفامیہ نگاہ کی ۔۔۔ بتایا : ”کمیٹی ڈالی تھی ، نمبر تو ہمارا تیرہواں ہے مگر بلقیس خالہ (مالک مکان حاجی صفدر کی بیگم ، اب دونوں رفتگاں میں شامل ہیں) ایڈوانس میں دے گئیں کہ تم لوگوں کو ضرورت پڑے گی۔“
ہم نے کہا : ”فی الحال ان پیسوں کو پاس ہی رکھو ، ہمارے پاس رہے تو دو تین دن میں تِھنر کی طرح اڑ جائیں گے۔“
کہنے لگیں : ”یہ اڑانے کے لیے نہیں ، بلکہ فریج ، واشنگ مشین ، ڈرائیر اور سٹینڈ فین کے لیے ہیں۔ تیس کمیٹی کے اور جھبیس میری بچت کے ، کتنے ہوۓ ٹوٹل ؟“
ہم اچھے شاگرد کی طرح انگشت شہادت بلند کر کے بولے : ”پورے چھتیس میم !“
”فیل ہو آپ ، نالائق ۔۔۔ پورے ففٹی سکس تھاؤزنڈ ہیں۔“
ہم نے رقم لی اور باہر نکل گئے ۔ اگلے دو گھنٹے میں فیصل شہید روڈ (ٹیکسلا ) سے چچا قاسم کی معیت میں ان کے محکمے (PTCL) کی ڈبل کیبن ڈاٹسن پر پیل کی بارہ کیوبک فریج ، واشنگ مشین مع ڈرائیر اور پنکھا لے کر گھر پہنچ گئے۔ بقایا رقم مبلغ انیس ہزار دو سو تیس روپے فرمانبردار شوہر کی طرح بیگم کے ہاتھ پہ رکھ دی ، ساتھ آئسکریم کا فیملی پیک بھی۔
چچا قاسم کے خاندان سے روحانی ہمسائیگی کی بدولت ہماری بیگم ، چچی صاحب جان اور ان کی بیٹیوں سے اچھی خاصی پشتو اور فارسی سیکھنے لگ گئی تھیں۔ ایک شب ہم اپنی ادبی تخلیقت میں غرق تھے کہ ناشناس کی آواز میں حضرت اقبال کی فارسی غزل سنائی دی۔ ہم اٹھ کر خواب گاہ میں گئے تو موصوفہ اپنی منجی پہ گاؤ تکیے سے ٹیک لگاۓ سی ڈی پلیئر پہ غزل سنتے ہوۓ جھوم رہی ہیں ۔
فرزانہ بہ گفتارم ، دیوانہ بہ کردارم
از بادہء شوقِ تُو ہشیارم و مستم من
ہم نے پہلے کھنکار کر ان کی محویت کا ستیا ناس کیا ۔۔۔ اور کہا : ”کیا مست ماحول بنا رکھا ہے بھئی ۔۔۔ کچھ پلے بھی پڑ رہا ہے یا فیض کی نظم کو بابا فرید کی کافی پر قیاس کرنے والا معاملہ ہے؟“
لیٹے لیٹے جواب دیا : ” عالیجاہ ! اب ایسے بھی حالات نہیں ، شاعر کہہ رہا ہے کہ۔۔
میری گفتار میں فرزانگی ہے تو کردار میں دیوانگی۔ تری چاہت کی شراب سے ہُشیاری بھی ہے اور مستی بھی۔“
ہم ترجمانی کی مہارت پر پھڑک ہی تو گئے : ”ہاۓ صدقے تھی ونجاں ۔۔۔ یہ وہی کلام ہے جس کے آغاز میں ایک الحاقی مصرع بھی ہے کہ۔۔ تراشیدم ، پرستیدم ، شکستم
یعنی میں نے بُت تراشے ، پُوجے اور توڑ دیے۔“
ناشناس کی فارسی گائیکی کا وہ البم چچی صاحب جان کی بیٹی نجمہ نے ان کے لیے جمرود سے منگوایا تھا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں