آگ اور سائے/عامر حسینی

ممبئی، وہ شہر جو کبھی نہ سوتا تھا، اپنی صبحوں میں ایک عجیب بے چینی اور مستعدی رکھتا تھا۔ یہاں وقت جیسے خوابوں اور حقیقت کے درمیان ایک مبہم سرحد پر رقص کرتا تھا، جہاں ہر شخص ایک جاگتے خواب کی گرفت میں تھا۔
دیپکا دیبوناتھ، نیشنل کالج آف آرٹس کی فائنل ائر کی طالبہ، بھی اس شہر کے خوابوں اور حقیقتوں کے بیچ کہیں کھوئی ہوئی تھی۔ لیکن اس کی دنیا اس شور و غل کے باوجود کچھ الگ تھی، ایک ایسی دنیا جہاں فن کی ننگی سچائیاں پردے کے پیچھے چھپی رہتی تھیں۔
کھڑکی کے باہر، ممبئی کا ریلوے اسٹیشن تھا جہاں لوگوں کا ہجوم اپنی اپنی منزلوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہر چہرے پر ایک ہی سوال تھا: “کیا میں وقت پر پہنچ پاؤں گا؟” یہ سوال دیپکا کے دل پر بھی دستک دیتا، مگر اس کی فکر کچھ اور تھی—ایک ایسی حقیقت جسے وہ اپنے فن کے ذریعے بے نقاب کرنا چاہتی تھی۔
ریلوے پلیٹ فارم پر لوگ ایک دوسرے سے ٹکراتے، گر پڑتے، اور پھر فوراً اٹھ کر آگے بڑھتے۔ وہ بھاگ رہے تھے، لیکن جیسے انہیں خود بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس چیز کے پیچھے ہیں۔
سڑکوں پر موٹر سائیکلیں، رکشے، کاریں اور سائیکل رکشے ایک دوسرے سے بچتے بچاتے گزر رہے تھے، جیسے وہ بھی کسی نامعلوم منزل کی تلاش میں ہوں۔ پیدل چلنے والے لوگ سڑک کے کنارے چائے کے اسٹالز پر رکتے، ڈسپوز ایبل کپوں میں چائے سڑکتے، اور ریڑھیوں سے دوسا کھاتے ہوئے اپنی دنیا میں گم رہتے۔
ہر چوراہے پر، ہر دیوار پر بڑے بڑے پینا فلیکس لگے تھے، جن پر بالی وڈ کے ستاروں کی تصاویر تھیں۔ یہ اشتہارات، عام آدمی کے خوابوں کو بیچتے ہوئے، ایک عجیب سا فریب پھیلا رہے تھے، جیسے وہ سب کچھ اس تلخ حقیقت کو چھپانے کے لیے ہو جس سے دیپکا اپنے فن کے ذریعے پردہ اٹھانا چاہتی تھی۔
دیپکا نے جب ممبئی کی جھونپڑ پٹیوں میں قدم رکھا تو وہ زندگی کی اس گہرائی میں ڈوب گئی جو اس نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔
اندو دیوی، ممبئی میونسپل کارپوریشن میں کام کرنے والی خاکروبہ، اور پکھراج یادو، ایک محنت کش سیلزمین، وہ چہرے تھے جنہیں دیپکا نے اپنے نیوڈ آرٹ کے لیے منتخب کیا تھا۔ ان کے جسم، ان کی زندگی کی کہانیاں بیان کرتے تھے—کہانیاں جو نہ صرف جسمانی محنت کی تھیں بلکہ سماجی ناہمواریوں کی بھی۔
جب دیپکا نے ان کے جسموں کو کینوس پر اتارا تو وہ جیسے زندہ ہو گئے۔ اندو دیوی کی جھریاں، پکھراج کے ہاتھوں کی سختی، سب کچھ کینوس پر اُبھر آیا۔ لیکن یہ فن محض جسمانی عکاسی نہیں تھا؛ یہ ان کی روحوں کی گہرائیوں میں جھانکنے کی ایک کوشش تھی۔
یہ فن، جو دیپکا کے لیے سچائی کا اظہار تھا، شہر کے بعض طبقات کے لیے برداشت سے باہر تھا۔ جب اس کا کام نمائش کے لیے ممبئی کی ایک معروف آرٹ گیلری میں پیش کیا گیا، تو جیسے پورا شہر اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ شیو سینا، آر ایس ایس، اور انڈین مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنان، جو خود کو ثقافت کے محافظ سمجھتے تھے، گیلری پر حملہ آور ہوئے۔ وہ دیپکا کے فن کو بے حرمتی کے طور پر دیکھتے تھے، اور ان کے لیے یہ پینٹنگز فحاشی کی علامت تھیں۔
گیلری کے اندر شعلے بلند ہونے لگے۔ پینٹنگز جلتی ہوئی راکھ میں بدلنے لگیں، اور دیپکا بے بسی سے یہ سب دیکھتی رہی۔ آگ کے شعلے آسمان کو چھونے لگے، اور گیلری کی روشنیوں میں پورا شہر جیسے جلنے لگا۔
جیسے وقت نے ایک لمحے کے لیے رک جانے کا فیصلہ کیا ہو، دیپکا نے گیلری کے سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک بڑے پیپل کے درخت کے نیچے دو عظیم شخصیات کو کھڑے دیکھا۔ مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکر، خاموش کھڑے تھے، جیسے وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں جو اس وقت ہو رہا تھا۔
گاندھی کے چہرے پر فکر کی گہری لکیریں تھیں، جبکہ امبیدکر کی آنکھوں میں ناراضی کی جھلک تھی۔ وہ جیسے کسی ایسی جنگ کا سامنا کر رہے تھے جو کبھی ختم نہ ہونے والی تھی۔ امبیڈکر نے گاندھی کی طرف مڑ کر کہا، “دیکھ لو، یہ تمہارا سوراج! تمہارے خواب کا بھارت آج کہاں کھڑا ہے؟ آزادی کے نام پر یہ جمہوریت، یہ فسادات، یہ نفرت کا بازار گرم ہے۔”
گاندھی نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر دھیرے سے بولا، “اور تمہارے نام لیوا، وہ دلت کاز کے چمپیئن سیاست دان؟ وہ بھی تو مودی سرکار کا حصہ ہیں۔ کہاں گئے تمہارے سکھائے ہوئے تربیت یافتہ سماج سیوک؟”
اسی لمحے، سبھاش چندر بوس بھی ان کے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔ وہ دونوں کے درمیان کھڑا ہو کر کہنے لگا، “اسی لیے میں کہتا تھا کہ ہندوستان کو سماج وادی ریاست بناؤ تاکہ اس ملک کے پرولتاریہ بھید بھاؤ کی راج نیتی کا خاتمہ کر سکیں۔ یہ جو آج ہو رہا ہے، یہ اسی نظام کا نتیجہ ہے جو ہم نے صحیح سے تعمیر نہیں کیا۔ دیکھو، یہ لوگ نیوڈ آرٹ سے خوفزدہ ہیں، یہ اس سچ سے خوفزدہ ہیں جو یہ آرٹ ظاہر کرتا ہے—ان کی اپنی ننگی سچائیاں۔”
دیپکا، جو ابھی تک یہ سب خاموشی سے دیکھ رہی تھی، اچانک ایک عجیب سا احساس اس پر غالب آنے لگا۔ اس نے اپنی پینٹنگز کے شعلوں میں جلنے کی آوازیں سنیں، اور اس کے اندر ایک نئی آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے سوچا، کیا یہ وہ ہندوستان ہے جس کا خواب ان عظیم رہنماؤں نے دیکھا تھا؟ کیا یہ وہ سماج ہے جو اپنی جڑوں سے اتنا کٹا ہوا ہے کہ سچائی کے ایک عکس سے بھی خوفزدہ ہو جاتا ہے؟
لیکن دیپکا کے لیے سب سے چونکا دینے والا لمحہ وہ تھا جب اس نے دیکھا کہ گاندھی، امبیڈکر، اور بوس آہستہ آہستہ ایک دھندلے سایے میں بدل گئے۔ ان کی جگہ تین نئی شخصیات ابھر آئیں: ایک دلت لیڈر، ایک انتہا پسند ہندو لیڈر، اور ایک سیاسی موقع پرست، جو سب ایک ہی راہ پر گامزن تھے—اقتدار کے لیے، سچائی کو روندنے کے لیے۔
دیپکا نے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنا چاہا، مگر اس کی آنکھوں کے سامنے وہ مناظر جیسے زندہ ہو گئے۔ دلت لیڈر، جو امبیدکر کی تعلیمات کا علمبردار تھا، اب وہی سیاست کھیل رہا تھا جس کے خلاف امبیڈکر نے اپنی زندگی بھر جنگ لڑی۔ انتہا پسند ہندو لیڈر، جو گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک کو مذاق سمجھتا تھا، اپنے ہاتھوں سے نفرت کا پرچار کر رہا تھا۔ اور سیاسی موقع پرست، جو بوس کے خوابوں کو بیچ چکا تھا، اس کے قدموں کے نشانوں پر چل کر خود کو محض طاقت کے حصول کے لیے استعمال کر رہا تھا۔
دیپکا کی آنکھوں کے سامنے یہ تینوں شخصیات آپس میں مل کر ایک خوفناک ہجوم میں تبدیل ہو گئیں۔ یہ ہجوم وہی تھا جو اس کے فن کو جلانے آیا تھا۔ وہی ہجوم جو سچائی سے خوفزدہ تھا، جو نیوڈ آرٹ کے عکس میں اپنی ننگی حقیقتیں دیکھنے سے بھاگ رہا تھا۔
آگ کے شعلے بلند ہوتے گئے، اور دیپکا کے دل میں ایک چیخ اٹھی۔ وہ چیخ جو اس نے کبھی اپنی آواز میں نہ نکالی تھی، وہی چیخ جو اس کے اندر دبی ہوئی تھی—ایک آرٹسٹ کی، جو دنیا کو بدلنے کا خواب دیکھ رہی تھی، لیکن اس خواب کو جلتا ہوا دیکھنے پر مجبور تھی۔
اچانک، وقت ایک بار پھر رک گیا۔ دیپکا نے گیلری کے دروازے کی طرف دیکھا، جہاں ایک اور شخص کھڑا تھا۔ یہ وہی خاکروبہ، اندو دیوی تھی، جس کی زندگی کی کہانی دیپکا نے اپنے فن میں اتاری تھی۔ اندو دیوی کا چہرہ اب بھی پرسکون تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک پراسرار چمک تھی، جیسے وہ جانتی ہو کہ اصل سچ کیا ہے۔
دیپکا نے اندو کی طرف دیکھااور جیسے کوئی غیر مرئی طاقت اسے اندو کی طرف کھینچنے لگی ہو۔ اس کی آنکھوں میں اندو کی آنکھوں کی گہرائی میں جھانکتے ہوئے ایک عجیب سا خوف اور کشش پیدا ہونے لگی۔ اندو دیوی آہستہ آہستہ اس کے قریب آئی اور اس کے کان کے قریب سرگوشی میں کہا، “تم نے ہماری کہانیوں کو زندہ کیا ہے، دیپکا۔ لیکن کیا تم جانتی ہو کہ اس آگ کے پیچھے کیا چھپا ہے؟”
دیپکا کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، اور جب دوبارہ کھولیں، تو وہ خود کو ایک ایسی دنیا میں پایا جو حقیقت اور فنتاسی کے درمیان معلق تھی۔ اس کے اردگرد اندو دیوی اور پکھراج یادو کے ننگے جسموں کی پرانی تصویریں تھیں، لیکن یہ تصویریں اب زندہ ہو چکی تھیں، ان میں جان آ چکی تھی۔ وہ تصویریں بولنے لگیں، چلنے لگیں، اور اپنے جسموں پر لگے ہر زخم، ہر نشان کی کہانی سنانے لگیں۔
“ہم اس آگ سے نہیں ڈرتے،” اندو دیوی کی گونج دار آواز سنائی دی۔ “ہم اس دنیا کی ننگی حقیقتیں ہیں۔ یہ لوگ ہمیں جلا سکتے ہیں، مگر ہمیں مٹا نہیں سکتے۔ ہماری کہانیاں، ہمارے جسموں پر کندہ ہیں، اور تم نے انہیں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا ہے۔”
دیپکا نے جیسے ہی یہ بات سنی، اسے احساس ہوا کہ اس نے جو جسم پینٹ کیے تھے وہ محض جسم نہیں تھے؛ وہ کہانیاں تھیں، ایک ایسے سماج کی کہانیاں جہاں ظلم، جبر، اور ناانصافی کا راج تھا۔ وہ سماج جو حقیقت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا، اور جو ہر اس سچائی کو جلا دینے کے درپے تھا جو اس کی اپنی ننگی سچائیوں کو عیاں کر سکتی تھی۔
لیکن دیپکا کو ایک اور سچائی کا بھی سامنا کرنا تھا۔ اچانک، اندو دیوی اور پکھراج یادو کی تصویریں اس کے سامنے ایک خوفناک ہجوم میں بدل گئیں۔ وہی ہجوم جو اس کے فن کو جلانے آیا تھا۔ یہ ہجوم اندو دیوی اور پکھراج یادو کے چہروں کے ساتھ، لیکن آنکھوں میں وہی نفرت اور غضب لیے ہوئے، دیپکا کی طرف بڑھ رہا تھا۔
“تم نے ہمیں زندہ کیا، لیکن اب تمہیں اس کی قیمت چکانی ہوگی،” ہجوم کی آواز گونجی۔
دیپکا پیچھے ہٹنے لگی، لیکن اس کے قدموں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وہ ہجوم اس کی طرف بڑھتا گیا، اور دیپکا کو احساس ہوا کہ وہ خود بھی اس ہجوم کا حصہ بن چکی ہے۔ وہی نفرت، وہی خوف، جسے وہ ظاہر کرنا چاہتی تھی، اب اس کی اپنی حقیقت بن چکی تھی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی، لیکن اس کی آواز دب گئی تھی۔ وہ بھاگنا چاہتی تھی، لیکن اس کے قدم جم چکے تھے۔
اچانک، وقت ایک بار پھر رک گیا۔ اندو دیوی کا چہرہ دیپکا کے سامنے آیا، اور اس نے دھیرے سے کہا، “سچائی ہمیشہ تلخ ہوتی ہے، دیپکا۔ لیکن جو اس کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتا ہے، وہی اسے بدل سکتا ہے۔”
دیپکا نے اپنی آنکھیں کھولیں، اور وہ دوبارہ اپنی گیلری کے سامنے کھڑی تھی، جہاں شعلے آسمان کو چھو رہے تھے۔ لیکن اس بار، وہ اکیلی نہیں تھی۔ گاندھی، امبیڈکر، بوس، اندو دیوی، پکھراج یادو، اور ان گنت چہرے جو اس نے اپنے فن میں قید کیے تھے، سب اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ ہجوم جو اس کے فن کو جلانے آیا تھا، اب اس کے پیچھے ہٹنے لگا تھا۔ دیپکا نے ایک گہری سانس لی اور آگے بڑھی۔
“تم مجھے جلا سکتے ہو، لیکن میرے فن کو نہیں۔ تم میری پینٹنگز کو راکھ میں بدل سکتے ہو، لیکن ان کہانیوں کو نہیں جو میں نے زندہ کی ہیں۔”
شعلے دھیرے دھیرے مدھم ہونے لگے، اور دیپکا کے اردگرد کا ہجوم بکھرنے لگا۔ وہ اب اس آگ سے نہیں ڈرتی تھی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کی کہانیاں زندہ رہیں گی۔ وہ حقیقتیں، جو اس نے اپنے کینوس پر اتاری تھیں، ان کا خاتمہ ممکن نہیں تھا۔
آخر میں، دیپکا نے گیلری کے دروازے کی طرف دیکھا، جہاں اندو دیوی ایک آخری بار مسکرائی اور پھر دھند میں غائب ہو گئی۔ دیپکا نے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں اب بھی کچھ دھواں باقی تھا، اور ایک نیا سورج ابھر رہا تھا۔ یہ سورج اس حقیقت کا گواہ تھا کہ سچائی کبھی نہیں مرتی، چاہے اسے جتنا بھی جلا دیا جائے۔
لیکن اس سے پہلے کہ دیپکا اپنے خواب کو حقیقت مان کر سکون محسوس کرتی، ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ گیلری کے دروازے کے قریب ایک سایہ نمودار ہوا، جو آہستہ آہستہ پھیلتا گیا۔ وہی ہجوم، جو ابھی بکھرا تھا، دوبارہ جمع ہونے لگا۔ لیکن اس بار، ان کے چہروں پر انسانی خدوخال کی بجائے کوئی اور خوفناک شے تھی، جیسے وہ ہجوم اپنے اندر کے شیطانوں کو ظاہر کر رہا ہو۔
وہ شیطانی سایہ اب دیپکا کی طرف بڑھنے لگا، اور اس کے اندر ایک خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اسے احساس ہوا کہ یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوگی، یہ نفرت، یہ جبر، یہ ناانصافی ہمیشہ زندہ رہے گی، اور شاید وہ کبھی اس سچائی کو مکمل طور پر فتح نہ کر پائے۔
دیپکا کی سانسیں تیز ہو گئیں، اور وہ اس بڑھتے ہوئے سایے کو دیکھنے لگی جو اس کے اردگرد پھیلتا جا رہا تھا۔ اس نے ایک آخری بار اندو دیوی کی تصویر کو دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔
اور پھر، جیسے وقت ایک بار پھر رک گیا۔ ایک دھماکے کی آواز گونجی، اور جب دیپکا نے اپنی آنکھیں کھولیں، تو وہ تنہا تھی۔ گیلری کے دروازے پر کوئی نہیں تھا، اور وہ سایہ، جو اس کی طرف بڑھ رہا تھا، غائب ہو چکا تھا۔
صرف خاموشی تھی—ایک گہری، خوفناک خاموشی، جیسے پوری دنیا نے ایک لمحے کے لیے سانس روک لی ہو۔
دیپکا نے ایک قدم آگے بڑھایا، اور گیلری کے اندر داخل ہو گئی۔ وہ راکھ کے ڈھیر پر چلتی رہی، جہاں کبھی اس کے فن کا اظہار تھا۔ اس نے ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھا، جہاں سورج ابھر رہا تھا، اور اس نے خود سے کہا، “شاید یہ سچائی کبھی نہیں مرے گی، لیکن میں بھی اس کی جنگ کبھی نہیں چھوڑوں گی۔”
اور یوں، دیپکا نے ایک نئی صبح کی طرف قدم بڑھایا، جہاں اسے ایک اور جنگ کا سامنا کرنا تھا—ایک اور سچائی کا سامنا۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply