سماعت سے محروم اپنے والدین کے ساتھ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے عظیمہ داھنجی کی آنکھوں میں چمک تھی۔ آپ ڈیف لوگوں کی بہبود کے لیے قائم ادارے کنیکٹ ہیئر کی فاؤنڈر ہیں۔ ان کے آفس میں ہوئی ملاقات کے دوران بتانے لگیں کہ چونکہ ان کے والدین سماعت سے محروم تھے اس لیے سب سے پہلی زبان جو انہوں نے سیکھی وہ سائن لینگویج تھی۔ اپنی والدہ کو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے پورے ڈرامے سائن لینگویج میں سمجھا دیتی تھیں۔ ایک شخص جو پیدائشی طور پر کسی ڈس ایبیلٹی کا شکار ہو، کیا وہ زندگی میں ایک نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے؟
تقریباً چار ہزار سال پیچھے چلتے ہیں۔ مصر کے طاقتور فرعونوں میں سے ایک طوطن اخمون نامی بادشاہ تخت پر براجمان ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ تقریباً تین ہزار سالوں تک جن لوگوں نے مصر پر حکمرانی کی ان سب کو فرعون کہا جاتا ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں موجود فرعون بھی شامل تھا۔ ہم جس فرعون کی بات کر رہے ہیں یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام والا فرعون نہیں ہے۔ یہ فرعون کی اٹھارویں پشت میں سے تھا اور اس کے باپ کا نام اخنتون تھا۔ یہ اتنا طاقتور بادشاہ تھا کہ اس کی زندگی میں ہی اس کی عبادت شروع ہو گئی تھی۔ اس کا انتقال 1340 قبل مسیح میں ہوا۔
وقت گزرتا رہا اور آج سے 202 سال پہلے 1822 عیسوی میں مصر میں اس کا مقبرہ دریافت ہوا۔ اس وقت مصر پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ جس ٹیم نے یہ مقبرہ دریافت کیا اس کا مالک لارڈ کاروانرون Lord Carvanronتھا۔
اس کے حکم پر مقبرے میں موجود طوطن اخمون کی ممی سمیت تمام اشیاء کو انگلینڈ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ فرعون کے مقبرے سے ٹوٹل 5398 چیزیں برآمد ہوئیں۔ جس میں خالص سونے کا تابوت، فیس ماسک، تخت و تاج، تیر کمان، آلات موسیقی، اعلیٰ درجے کی شراب، جوتے اور کپڑے وغیرہ شامل تھے۔ سامان کی شناخت اور فہرست سازی میں ٹیم کو 10 سال لگ گئے۔
وقت گزرتا رہا اور 2019 آگیا۔ آج سے پانچ سال پہلے لندن کے مشہور کرسٹی نامی نیلام گھر میں طوطن اخمون کے چہرے پر موجود ماسک کو نیلام کرنے کا فیصلہ ہوا اور وہ ماسک 45 لاکھ پاؤنڈ میں ایک شخص نے خرید لیا اور پاکستانی روپوں میں بات کریں تو آج اگست 2024 میں اس ماسک کی قیمت ایک ارب چونسٹھ کروڑ روپے بنتی ہے۔ اور یاد رہے کہ مقبرے میں موجود 5398 چیزوں میں سے یہ صرف ایک چیز کی قیمت ہے یعنی اپنی موت کے چار ہزار سال بعد بھی اس کی چھوڑی ہوئی دولت کی مالیت اربوں ڈالرز میں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طوطن اخمون صرف 18 سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا۔ پوری دنیا کا بادشاہ، اربوں ڈالرز کا مالک اتنی کم عمری میں کیسے انتقال کر گیا؟ اس کی لاش پر تحقیقات ہوئیں اور یہ دلچسپ انکشاف ہوا کہ اس کا انتقال ملیریا بخار کی وجہ سے ہوا تھا۔ کیونکہ اس دور میں ملیریا بخار کا علاج دریافت نہیں ہوا تھا تو وقت کا بادشاہ اربوں ڈالرز کا مالک اس معمولی بیماری کا مقابلہ نہیں کر سکا اور موت کے گھاٹ اتر گیا۔
مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر ٹی۔بی کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ دنیا کو اپنے گھوڑوں کی تیز رفتاری سے حیران کرنے والے ہلاکو خان کے پاس موٹر سائیکل بھی نہیں تھا۔ داستانوں میں ایران کے ایک بادشاہ جمشید کا تذکرہ آتا ہے جس کے پاس ایک ایسا طلسماتی پیالہ تھا کہ وہ اس پیالے میں دنیا کے کسی بھی شخص کو دیکھ لیتا تھا کہ وہ اس وقت کیا کر رہا ہے۔
میرے دوستو! دنیا کا بادشاہ فرعون ملیریا سے ہار گیا جس کو آج ہم معمولی بیماری سمجھتے ہیں۔ ایران کے بادشاہ جمشید کا طلسماتی پیالہ آج موبائل ویڈیو کال کی صورت میں دنیا کے اربوں لوگوں کی دسترس میں ہے۔ بجلی کی ایجاد، گاڑیاں اور ہوائی جہاز تو پچھلے ڈیڑھ سو سالوں میں حاصل ہوئی سائنس کی برکات میں شامل ہیں۔
اس ڈسکشن کا مقصد آپ لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ ہم ان بادشاہوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں کیونکہ ہم دنیا کے بہترین دور میں زندہ ہیں۔ پرسن ود ڈس ایبیلٹی کے لیے آج بے شمار مواقع موجود ہیں۔ فائیور، اپ ورک اور دوسرے فری لانسنگ پلیٹ فارمز آج کے دور کی نعمتیں ہیں۔ عظیمہ داھنجی سے کی گئی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں ان کے ادارے کو نیکٹ ہیئر نے ایک ایسی ایپ بنائی ہے جس کو استعمال کر کے ڈیف لوگ ان کے کال سینٹر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ڈیف شخص ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ڈاکٹر کو سائن لینگویج نہیں آتی تو وہ شخص اس ایپ کو استعمال کر کے کال سینٹر میں موجود شخص سے رابطہ کرے گا، سائن لینگویج میں اپنی بیماری کے بارے میں اسے بتائے گا اور کال سینٹر پر موجود شخص اس کی بیماری کی تفصیلات ڈاکٹر کو سمجھائے گا۔
پاکستان میں موجود تمام ڈیف لوگ شاپنگ کرتے ہوئے، وکیل سے بات کرتے ہوئے، سکول انتظامیہ سے بات کرتے ہوئے اور دیگر معاملات میں مدد کے لیے اس ایپ کی سروس سے فائدہ اٹھائیں۔ ایڈریس یہاں موجود ہے۔
App Name
“ConnectHear”
عظیمہ داھنجی نے آئی۔بی۔اے سے بی۔بی۔اے کی ڈگری حاصل کی، اسکالرشپ پر امریکہ بھی گئیں اور 11 سال کی عمر سے ہی ڈیف لوگوں کے لیے کام کر رہی ہیں۔
اپنے گھر کے بارے میں بتایا کہ جب ڈور بیل بجتی تھی تو اس کے ساتھ ہی گھر میں لائٹ جلنا شروع ہو جاتی تھی اور ان کے والدین سمجھ جاتے تھے کہ باہر کوئی آیا ہے۔ ان کے والد ویژنری انسان تھے۔ سماعت سے محروم ہونے کے باوجود دہائیوں تک ایک بڑے ادارے میں ایڈمنسٹریشن کا کام بہترین طریقے سے کرتے رہے۔ ان کی والدہ بھی تقریباً 30 سال تک ایک بڑے بینک کا حصہ رہیں۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں میاں محمد بخش نے کہا
ڈھونڈن والا رہیا نہ خالی
ڈھونڈ کیتی جس سچی
ڈھونڈ کریندا جو مڑ آیا
ڈھونڈ اوہدی اے کچی
ہمیں نئے منظر کو پانے کے لیے پرانے منظر سے آنکھیں ہٹانی پڑتی ہیں۔ نئی منزل پر قدم جمانے سے پہلے پرانی جگہ چھوڑنا ضروری ہے۔ نئے سمندروں اور جزیروں کی دریافت کے عمل میں ساحل کے سکون اور تحفظ کو خدا حافظ کہنا اولین شرط ہے۔
ڈیف اور نارمل لوگوں کو نیکٹ ہیئر کے پلیٹ فارم سے سائن لینگویج سیکھ کر ایک ٹرینر کے طور پر ایک شاندار کیریئر شروع کر سکتے ہیں۔ میں نے پوچھا اس میں کتنا وقت لگتا ہے؟ عظیمہ داھنجی نے جواب دیا کہ چار سے دس مہینے میں آپ سائن لینگویج کے ماہر بن سکتے ہیں۔ آنلائن کلاسز کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔
پرسن ود ڈس ایبیلٹی ان لنکس کو استعمال کر کے جاب کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں۔
https: //pwds-network.net/node/13
پرسن ود ڈس ایبیلٹی کے لیے
جاب سرچنگ کے حوالے سے کچھ کیس اسٹڈیز آپ کو یہاں ملیں گی
https://askearn.org/page/hiring-in-action-case-studies
گفتگو کے دوران پی۔ٹی۔وی پر نشر ہونے والے خوبصورت پروگرام “بولتے ہاتھ” کا تذکرہ ہوا۔ کمال کا پروگرام تھا۔ پاکستان کے ہر چینل پر اس طرح کے پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ لوگ کچھ کوالٹی کے پروگرام کنٹیکٹ ہیٹر کے یوٹیوب چینل پر دیکھ سکتے ہیں۔
https://www.youtube.com/@ConnectHear
عظیمہ داھنجی نے معاشرے میں شعور اجاگر کرنے پر زور دیا کہ وہ بچے جو ڈس ایبل ہیں انہیں چھپایا نہ جائے معاشرے کا کار آمد حصہ بنایا جائے۔ پاکستان کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ان کے لیے جابز کا کوٹا مخصوص ہے۔ سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک ہی حادثہ تو ہے
اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی
بات نہیں سنی گئی
عظیمہ کے ساتھ ان کے کو فاؤنڈر (co-founder) کمپیوٹر سائنس گریجویٹ ارہم سے ملاقات ہوئی۔ بے پناہ انرجی اور ویژنری اپروچ۔ پورے ادارے کا وزٹ کیا اور ان کی ٹیم سے مل کر میری اپنی انرجی کئی گنا بڑھ گئی۔ اب تک اس ادارے کے کام سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ڈیف لوگوں کے لیے میوزیکل کنسرٹ اور واک کا اہتمام کیا گیا۔ دوران گفتگو عظیمہ داھنجی نے ابتدائی عمر میں ہی بچے کی شخصیت میں کسی مسئلے کی نشاندہی کی صورت میں فوری میڈیکل ٹیسٹ کروانے کی اہمیت پر زور دیا۔ عظیمہ کی آنکھوں میں بے شمار خواب ہیں اور خوابوں کی تعبیر کا یہ سفر جاری ہے۔ اور ان کا پیغام ہے
سہارا کوئی بھی ہو
ہمت خودی کو کرنا ہے
اور آخر میں مستنصر حسین تارڑ کی کہی ہوئی خوبصورت بات
“ایک اپاہج ہو چکا فقیر، سانس لیتا ہوا، ایک مردہ ہو چکے شہنشاہ سے برتر ہوتا ہے کیونکہ وہ زندہ ہوتا ہے”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں