ہمارے ہاں ابھی جوانی بعد میں قدم رکھتی ہے شادی کے خواب پہلے جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔ معلوم نہیں اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں البتہ ہماری نوجوان نسل شادی کے معاملات سے اتنی ہی ناواقف ہے کہ جتنیے مذہبی شدت پسند لوگ مذہب سے ۔ کچھ اطلاعات کے مطابق ہمارے ملک خدا داد میں شادی کے بعد فوری علیحدگی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں بھی زیادہ شرح ان لوگوں کی ہے جو محبت کے دامن سے خود کو باندھ کر پھر شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک کچھ معاملات ہیں جو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
۱- ہمارے ہاں نوجوان نسل شادی کو محض اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کا نام سمجھتی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ شادی میں جنسی تعلقات کے ساتھ ساتھ تمام تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ ایک انسان کے ساتھ آپ نئی زندگی کی ابتدا کرنے جا رہے ہیں۔ اس کی نفسیات، اس کی خواہشات، اسکی زندگی کے مطابق آپ کو خود کو ڈھالنا پڑتا ہے۔ جیسے ہی نومولود بچے جنسی خواہشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے شادی کا لڈو کھاتے ہیں تو بعد میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ بات علیحدگی پر ختم ہو ۔ اس لیے شادی کو سمجھیے کہ شادی کیا چیز ہے۔ کسی انسان کے ساتھ تعلق قائم کرنا اور رہنا کیسا ہے۔آپ اس کے اہل ہیں یا نہیں۔ خود پر کام کریں گئے تو شادی کا رشتہ زندگی کا خوبصورت رشتہ بن جاے گا۔
۲- ہمارے ہاں دو طرفہ رویہ دکھانا معمول کا کام سمجھا جاتا ہے۔ ہم ہر جگہ پر منافقانہ طرز عمل اپنائے ہوتے ہیں۔ اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ہم محبت جیسے رشتے کو بھی اس سے محفوظ نہ رکھ پائے۔ شادی سے پہلے دو لوگ حتی المکان کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ محبت بھری باتیں کی جائیں۔ حقیقت سے پرے تخیلاتی دنیا میں گھر بسایا جائے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دونوں کے ذہن میں ایک خیالی تصویر بن جاتی ہے کہ یہ شخص اچھا ہے ۔ شادی کے فوراً بعد جب وہ دونوں ایک دوسرے کا اصل چہرہ دیکھتے ہیں کہ جس میں اچھائی کے ساتھ بُرائی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے تو پھر محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ شخص نہیں جس سے میں محبت کرتی/کرتا تھا۔ یوں رشتوں میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ محبت کے شیدائی ہونے کے ساتھ ساتھ تصویر کا ہر رخ اپنے ساتھ رکھیں ، تا کہ آپ بہتر فیصلہ کر سکیں کہ آیا آپ آگے چل سکیں گے یا ابھی ہی ہجر کی تکالیف کو برداشت کر لینا چاہیے۔
۳- ہمارے ہاں شادی کے دوران کھانے سے لے کر کیا پہننا ہے ‘ تک کی تیاری ہوتی ہے۔ اگر کسی چیز کی طرف دھیان نہیں جاتا تو وہ دولہا/ دلہن کی تربیت کی طرف۔ انہیں اس چیز سے واقف نہیں کروایا جاتا کہ اب وہ کس بندھن میں بندھنے جا رہے ہیں۔ نہ اس تربیت کا اہتمام گھر میں ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرے کے کسی ادارے میں۔ ہمارے ہاں دیواروں پر مردانہ کمزوری کے علاج تو آویزاں ہوتے ہیں مگر اس رشتے کو کیسے لے کر چلنا ہے،اس کے لیے کچھ اہتمام نہیں ہوتا۔اس سلسلے میں ورکشاپس کا اہتمام نہائیت ضروری ہے۔
۴- انسانوں کے ہاں ایک مسئلہ دوسرے کے ساتھ موازنہ کرنا ہے۔ اپنے ترازو میں دوسروں کی چیزیں رکھ کر تولنا معمول کا کام ہے۔ ہم اس چیز کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہر انسان اپنے اندر مخصوص قسم کی نفسیات اور احساسات کا مالک ہے۔ مگر ہمارے ہاں موازنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کہ دوسرے کا مرد/بیوی ایسی ہے اور تم ایسے ہو۔ یہ بات طنزو تشنیع سے شروع ہو کر علیحدگی پر ختم ہوتی ہے ۔ انسانوں کی انفرادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
۵۔ہمارے ہاں مشترکہ خاندانی نظام کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے اسلام کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اس مذہبی سوچ کو بدلنا ہو گا کہ یہ کام اسلام نے متعارف نہیں کروایا اور پھر ساس اور بہو دونوں کو یہ سمجھانا ہو گا کہ یہ علیحدہ رہنے سے مراد قطع تعلق نہیں ہوتا۔
۶۔ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ جو دیکھتا ہے اس سے زیادہ سیکھتا ہے۔ ایک نومولود بچے کو لے لیجیے وہ جیسے جیسے اپنے قریبی لوگوں کو کرتا دیکھے گا وہ ان چیزوں کو کرنے کی کوشش کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ یونہی سوچ بھی پروان چڑھتی ہے ۔ جدید دور میں ڈراموں اور فلموں نے کافی حد تک معاشرے کی سوچ پر اثر ڈالا ہے۔ ہمارے ہاں تمام کے تمام ڈراموں میں یا تو آپ کو ساس بہو کی لڑائی ملے گی یا پھر محبت کے قصے ۔ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ان افسانوی کرداروں کی کوئی حیشیت نہیں۔ یہ صرف آپ کے حظ اٹھانے کا سامان ہے۔
۷۔ کسی بات کو جس سے لڑائی جھگڑا بڑھ سکتا ہو؛کو نظر انداز کرنا گناہِ کبیرہ خیال کیا جاتا ہے۔ اور یہ عادت اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ بات گھر توٹنے تک پہنچ جاتی ہے۔ مرد عورت دونوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ آخرکار ہم انسان ہیں۔ ہمارے اندر سیکھنے کا عمل بتدریج ہوتا ہے نہ کہ پلک جھپکنے سے۔
۸۔ اناپرستی اس رشتے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ اس رشتے میں انا سے نہیں بلکہ گردن جھکا کر محبت پیدا کی جاتی ہے۔ دوسرے کے سامنے گردن اونچی کرنے سے نہیں بلکہ اسے اہمیت دینے سے زندگی بہتر ہوتی ہے۔
۹۔ ہمارے ہاں مرد کو بچپن سے ایک چیز بتائی جاتی ہے کہ وہ حاکم ہے۔ اسی حاکمیت کی سوچ سے جب وہ کسی عورت کو شادی کر کے اپنے ساتھ لاتا ہے تو اسے غلاموں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ نکاح کے فوراً بعد ہی لڑکی کی انفرادی حیشیت ختم ہو گئی۔ اسکی خواہشات کا گلا دبوچ دیا گیا۔ وہ زندگی کا ہر کام اور ہر قدم اپنے حاکم سے پوچھ کر چلنا شروع کرے گی۔
ایسا کرنے سے انسان گھٹن سی محسوس کرتا ہے۔ اور جیسے ہی پنجرے میں قید پنچھی کو آزادی کا موقع ملتا ہے وہ اڑ جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔ اس چیز کو معاشرے میں عام کرنا ہو گا کہ عورت اپنا ایک علیحدہ وجود رکھتی ہے۔ وہ ایک علیحدہ شخصیت ہے اسکی اپنی خواہشات ہیں۔ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کی ان خواہشات کو پایہ تکیمل تک پہنچانے میں ساتھ دینا مرد کی ذمہ داری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں