اسی ہفتے غیر ملکی اخبارات میں فرانسیسی و عرب مستشرق جیک برک Jack Burke کے انتقال کا تذکرہ چل رہا ہے، یہ ان چند غیر مسلم مستشرقین میں سے ایک تھا، جس نے عربوں کے ساتھ اپنی تحریروں میں انصاف کیا اور اسلام کی تعریف بھی کی۔ عجیب بات ہے کہ اس کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے اس وقت ہوا، جب وہ سینٹ جولین کے گاؤں یارن میں تھا۔ جہاں وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ پہلوؤں کا ترجمہ کرنے میں مصروف تھا- جیک برک سنہء 1910 میں الجزائر کی ریاست “اوران” کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد فرانسیسی انتظامیہ میں ایک معروف سرکاری ملازم تھے, جو الجزائر کی انتظامیہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن اس عہدے نے اور عرب معاشرے کی خصوصیات نے باپ اور بیٹے کو یکساں طور پر متاثر کیا، جیک بارک الجزائر کے اسکول سے اپنی ابتدائی گریجویشن کے بعد مراکش چلا گیا۔ مراکش میں بھی اعلیٰ عہدے دار ملازمت میں رہا۔ وہ ہمارے معاشرے کی معاشرت کو جاننے میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اس کے علاوہ بھی انہوں نے یورپ کے کئی مسلم سکالرز کے ساتھ وقت گزارا، وہاں سے اسلامی فقہ کا مطالعہ کیا۔
جیک برک نے جدید مراکش کی سماجی اور سیاسی تاریخ میں خاصی دلچسپی دکھائی، اور اسی طرح نوآبادیاتی نظام کے خلاف ان کی مشہور کتاب “The Arabs from Yesterday to Tomorrow” بھی عرب حلقوں میں بہت مقبول ہوئی۔ جیک برک نے بطور فرانسیسی شخص مغرب اور مصر میں اسلام کی تہذیب اور عربوں کی زندگی کا مطالعہ کیا، اور اس پر دو مشہور کتابیں لکھیں۔ چونکہ جیک برک استعمار اور مغربیت کے خلاف نظریاتی رجحان رکھتا تھا، اس لیے اس کا ذاتی موقف یہی سامنے آیا، کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے، اس میں زیادہ تر اس کا اپنا ذاتی رحجان تھا۔ جیک برک کا یہ موقف اس بنیاد پر تھا کہ وہ مشرق یا عرب معاشرے کی خصوصیات کے عین مطابق سمجھا تھا جس میں وہ پیدا ہوا تھا، جیک برک ادبی محافل میں موجود رہتا تھا، اور اس کی تحریروں میں ادبی چاشنی بھی نظر آتی ہے ، اس کی تحریروں میں منظر اور آواز، خوشبو اور ذوق ملتے ہیں۔ وہ صرف اپنی تحریر میں یہ تصدیق نہیں کرتا تھا کہ وہ ایک ایسا شخص ہے جو فیز (مراکش) کی تنگ گلیوں میں پیدل چلتا ہے، اس کے اردگرد کی دنیا، پرانے شہروں میں رہنے والے لوگوں کی طرح کے اعصاب، پرانے درباریوں کی طرح اس کی چالیں، اس کا استعمال شدہ قالینوں سے لگاؤ، شاندار گھروں کی سجاوٹ اور مٹی کی خوشبو، یہ اسے ایک تہذیب یافتہ ہیرو بنا دیتا ہے۔ وہ تہذیب جس کا اظہار خیال وہ وہاں کی برتنے والی اشیاء اور وہاں کے کھانے کی لذت تک سے آشنائی سے محسوس کرواتا ہے۔
جیک برک کی ایک کتاب “عربیات” یہ ایک خود نوشت ہے اس میں اس نے اپنے گزرے بچپن میں الجزائر کا تذکرہ کیا ہے، جس میں اس نے اپنا بچپن، وہاں کے نظاروں اور موسموں میں وقت گزارنے کا تذکرہ کیا ہے، چمکتی دوپہر کی روشنی، چکنائی سے بھرپور پنیر کی مہک، ایوکاڈو کی خوشبو، اور پھر مراکش کی شاہی ڈش، کبوتر اور بادام کے ساتھ پائی، اس کی تحریروں میں اس طرح کے ٹھوس نقوش جو آج مغرب کی فطرت کی علامت سمجھے جاتے ہیں، اصلا ًوہ انہیں مشرقی تہذیب سے دیکھتا ہے، جیک برک کہتا ہے، کہ انسانی سچائی جس کا اس نے مطالعہ کیا ہے، وہ اسے عرب ملکوں میں لے جاتا ہے کیونکہ وہ وہاں خوشی محسوس کرتا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ جیک برک کا مسلم معاشرے کے ساتھ میل جول اور اس کے خدشات، مسائل اور فکر کے مطالعہ میں اضافہ ہوا، بلکہ اس نے گزشتہ بیس سالوں میں قرآن کریم کا ایک وسیع اور بہترین ترجمہ لکھنے پر بھی کام کیا، اور بالآخر مکمل بھی کیا, اس نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں تمام عربوں کی فکر، تہذیب اور مذہب سے گہری جذباتی اور ذہنی وابستگی کو بھی سمجھا۔ فرانس میں قریب عہد کے جتنے نئے مستشرقین ہیں، حال ہی میں عرب دنیا کی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کو سمجھا، ان میں گیلس کیپل، ریان یاشار، اور اولیور رائے شامل ہیں، انہوں نے سیاسی تجزیئے یا سائنسی فکر پر اپنے مطالعات پیش کیے، جبکہ ان کے مقابل جیک برک وہ ہیں، جس نے مستشرقین یا عربیت کے مطالعے کے روایتی تصور کو نئے افق تک پہنچایا، جب فکری اور ادبی رجحان اس کی سماجی جڑوں سے جڑا ہوا تھا۔ بطور ماہر عمرانیات کے طور پر اس نے “بیسویں صدی میں ایک مصری گاؤں کی سماجی تاریخ” کا مطالعہ کیا یہ تحقیق جیک برگ کی مشہور کتاب “نوآبادیاتی مصر اور انقلاب” کے نام سے معروف ہوئی۔
جیک برک نے ستر کی دہائی میں ریاض سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا جہاں مطالعے کے مختلف علمی حلقوں سے متعارف ہوا، جیک برک ان چند غیر ملکیوں میں سے ایک تھا، جنہوں نے مشرقیت کے ساتھ انصاف کیا, جیک برک کی موت بہت سارے عجیب سے سوالات چھوڑ کر جا رہی ہے، جیک برک نے حقیقی اسلامی مذہب کے ماخذ (قرآن پاک اور سنت نبوی)کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ جیک برک نے یہ سفارش کیوں کی کہ ان کے قرآن پاک کے ترجمے کا ایک نسخہ ان کے ساتھ ان کی قبر میں دفن کیا جائے، حالانکہ کچھ مسلم اسکالرز کی طرف سے ان کے لکھے اس ترجمے کے خلاف شدید مہم بھی چلی تھی۔ جن دنوں سنہء 1995 میں جیک برک سنت نبوی کا مطالعہ کر رہے تھے۔ جیک برک نے یہ بھی وصیت کی تھی کہ ان کی بڑی لائبریری کو پیرس میں واقع ان کے گھر سے الجزائر کے شہر فریندا میں ان کی جائے پیدائش منتقل کر دیا جائے جہاں وہ 1910ء میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ سارے سوال بہرحال ان کی موت کے بعد ایک معمہ بن گئے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں