لائبریری باغ لانگے خان ملتان
ملتان کے علاقے قادرآباد میں واقع باغ لانگے خان کو شہر کا قدیم باغ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر مغل اور انگریز اس خطے میں نہ آتے تو نجانے ہمیں عالی شان اور خوبصورت باغ دیکھنا نصیب بھی ہوتے کہ نہیں ۔کیونکہ ہماری قوم تو جس شہر میں باغ دیکھتی ہے اس پہ قبضہ جما کر کاروبار شروع کر دیتی ہے پھر وہ لاہور کے باغات ہوں یا ملتان کے۔ لانگے خاں اور عام خاص باغ، ملتان شہر کے قدیم اور خوبصورت باغات ہوا کرتے تھے جو قبضہ گیروں کی عنایت سے سکڑ کر قابلِ رحم حالت میں موجود ہیں۔ باغ لانگے خان کی کافی ساری زمین پر اب چناب کلب اور ایک ویمن کلب بنا دیا گیا ہےجو شاذو نادر ہی کھلتا ہے۔ باقی ماندہ باغ پھولوں اور پھلوں سے خالی ہے۔
لیکن اس باغ کے کنارے پر واقع ایک قدیم کتب خانہ اور ریڈنگ روم آج بھی علم کی شمع روشن کیے ہوئے ہے۔
پاکستان کے موجودہ کتب خانوں یعنی لائبریریز کو دیکھیں تو ان میں میونسپل لائبریری راولپنڈی سب سے قدیم ہے جو 1873 میں قائم کی گئی تھی جبکہ باغ لانگے خان لائبریری 1860 میں قائم ہوئی، یوں اسے پاکستان اور پنجاب دونوں کا قدیم ترین کتب خانہ کہا جا سکتا ہے۔
ملک کی دیگر قدیم لائبریریز میں جامعہ پنجاب لائبریری (1873)، پنجاب پبلک لائبریری (1884) اور مسعود جھنڈیر لائبریری میلسی (1899) شامل ہیں۔
ملتان کے گورنر اور مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے شہزادے، مُراد بخش کو ادب اور تعمیرات سے کافی دلچسپی تھی سو اس نے اپنے عہدِ گورنری، 1641 میں عام خاص باغ اور ایک بارہ دری تعمیر کروائی۔ مغلوں کے بعد ملتان میں افغان اور پھر سکھ آئے جنہیں انگریز افواج نے شکست دی اور ملتان کا قبضہ حاصل کیا۔
1860 کو ایک انگریز افسر، کیپٹن ایڈورڈ ہربرٹ کی سرپرستی میں نہر کنارے، مراد بخش کی تعیر کردہ بارہ دری میں ”مولتان بک سوسائٹی” کا قیام عمل میں لایا گیا (لائبریری کی تختی پر سال 1850 درج ہے)۔ بارہ دری میں مختلف کتب اور رسائل رکھے جاتے جس سے اہلیانِ ملتان اپنی پیاس بجھاتے۔ بارہ دری کے ایک طرف باغ لانگے خان تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد سال 1886 میں اس سوسائٹی کو حکومت نے رجسٹر کر لیا اور ایک پبلک لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا جسے اِس قدیمی باغ کے نام پر ”باغ لانگے خان پبلک لائبریری” کا نام دیا گیا۔
اس عوامی کتب خانے کی ترقی میں ہندو اور مسلمان دونوں نے اپنا بھرپورحصہ ڈالا۔ لائبریری کے شروع کے تمام صدور اور جنرل سیکرٹریز (سوائے شہزادہ نیاز محمد خان سدوزئی) بھی ہندو ہی تھے۔
وقت گزرتا گیا اور کتب خانے میں کتابیں بڑھتی رہیں لیکن یہ کتب خانہ فنڈز کی کمی کا شکار ہونے لگا۔ نئی عمارت کی ضرورت ییش آئی تو گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان نے صدر لائبریری کی درخواست پر تین کنال زمین کا ٹکڑا لائبریری کے لیئے دیا جس پر نٸی عمارت کا سنگ بنیاد صدر جنرل ضیا الحق نے رکھا ۔ عمر کمال خان ایڈووکیٹ کی جستجو سے نظامت ملتان کے بجٹ سے فنڈز منظور ہوئے اور جنرل مشرف کے دور میں نئی عمارت کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔
جنوری 2008 میں کور کمانڈر ملتان، جنرل سکندر افضل خان نے اس عمارت کا افتتاح کیا۔
بارہ دری سے تمام کتب کی نئی عمارت میں منتقلی کے بعد اس قدیم ڈھانچے کو ریڈنگ روم بنا دیا گیا جو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
لانگے خان لائبریری میں اس وقت ایک لاکھ سے زائد کتب اور دو سو سے زائد قلمی نسخہ جات ہیں جو اردو، عربی، فارسی، انگریزی، سرائیکی، پنجابی، ہندی، گرمکھی اور سنسکرت زبانوں میں ہیں۔ جبکہ تین سو سے زائد ایسی انگریزی کتب بھی موجود ہیں جو 1850 سے 1860 کے دوران لندن میں چھاپی گئی تھیں۔
اس وقت پاکستان کا یہ ایک سو چونسٹھ سالہ قدیم ترین کتب خانہ کسی بھی سرکاری امداد کے بغیر، ممبران اور شہریوں کی امداد سے چل رہا ہے۔
قیامِ پاکستان سے پہلے لائبریری کے صدور ؛
1۔ لالہ ہری چند ایم ایل سی (1913 تا 1920)
2۔ مہتہ ٹیک چند ایڈووکیٹ (1921 تا 1928)
3۔ لالہ چیتن آنند ایڈووکیٹ ایم ایل اے (1929 تا 1935)
4۔ رائے بہادر دیوان کھلندا رام، وکیل سرکار (1936 تا 1941)
5۔ لالہ بالکشن بترہ ایکڈووکیٹ (1942 تا 1947)
قیامِ پاکستان کے بعد؛
خواجہ عبدالحکیم صدیقی، سید سعید احمد بخاری، خواجہ عبدالحکیم صدیقی، خواجہ محمد سیم صدیقی، سردار اللہ نواز خان ترین، عالمگیر خان ترین (موجودہ)۔
شعبہ جات لائبریری ؛
کلام پاک، فقہ، احادیث، تفسیر،تحریک پاکستان، قائد اعظمؒ، اقبالیات، الہیات، امیر خسرو، مرزا غالب، قلمی کتب، عربی، فارسی، سرائیکی، سندھی، پنجابی، انگریزی، بلوچی، پشتو، ترک زبان، جرمن، ہندی، سنسکرت، گورمکھی، لغات، انسائیکلوپیڈیا، کمپیوٹر سیکشن، بچوں کا ادب، میڈٰکل سائنس و دیگر کورس کی کتب کے شعبہ جات۔
پاکستان کی اس قدیم ترین لائبریری کو آپ کی ضرورت ہے۔ علمی و ادبی حوالے سے اس ادارے کی سرپرستی کریں۔ ہو سکے تو اضافی کتب اس لائبریری کو بھجوائیں۔ اگر آپ خود صاحبِ کتاب ہیں تو اپنی کتاب کی ایک کاپی یہاں ضرور رکھوائیں۔ زیادہ کچھ نہیں تو ایک بار اس کتب خانے کا دورہ ہی کر لیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں