ماری کلیر کی مہک/مسلم انصاری

جب میں نے یہ کتاب پڑھنی شروع کی تب میں بیس صفحات کے بعد قصداً سو گیا، میں نے خواب میں اپنے ہاتھوں سے ایک لڑکی بُنی اور اس سے کہا :
“میں زندگی میں پہلی بار ایک ایسی کتاب پڑھ رہا ہوں جو اکیلے پڑھنے والی نہیں ہے، میں تمہیں اس کا ہر ورق ہر سطر سنانا چاہتا ہوں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ناول جسمانی، دلی اور جنسی ہر تین اعتبار سے مکمل بلوغت کو پا چکے فرد کے ساتھ خاص ہے!”
وہ لڑکی پھول جیسی اور مہک بھری تھی، اس نے میری بات سن کر ہنسی بھری اور لب کھولے، ایسے جیسے کلیاں سورج کی پہلی روشنی پر اپنی پنکھڑیاں کھولتی ہیں، میں ہر شب دس صفحات پڑھتا اور سو جاتا، خواب میں، میں پہاڑوں کی جانب سفر کرتا اور میری بنائی لڑکی لکڑیوں سے بنے گھر کے دالان میں سفیدے کے درختوں کے بیچ پتھر کی سلوں سے بنے بینچ پر ملتی، میں اسے کہانی سناتا اور اسے بتاتا کہ :
“حبیب سالمی تیونس کا باشندہ ہے، اس کا جو ناول تم مجھ سے سن رہی ہو “ماری کلیر کی مہک” کا عنوان رکھتا ہے”
میں اس لڑکی کو یہ ناول اپنی مقامی زبان میں سناتا تو وہ کہتی :
“اتنی سلیس اردو کے قالب میں اسے کس نے ڈھالا ہے؟ کیا تم نے؟”
میں اسے بتاتا :
“یہ کام ندیم اقبال کا ہے، وہ مشفق اور انسان دوست قلم کار ہیں، پیشے کے اعتبار سے ذھنی معالج اور قلم کے لحاظ سے کیفیات کے طبیب ہیں!”
جو لڑکی میں نے یہ کتاب سنانے کے لئے کشید کی تھی وہ دودھیاہی رنگت کی تھی، ناول جنسی اور جذباتی رشتے کی تختیوں پر گھڑا گیا تھا، جب جب ناول میں جنسی باتیں آتیں، اس لڑکی کے گال برف باری میں اُگ آئے انتہائی سرخ سیبوں کی مانند سرخ ہو جاتے، وہ تھوڑا شرماتی پھر جب میں اسے بتاتا کہ ناول کی کردار لڑکی “ماری کلیر” کس طرح اپنی جانب رغبت دینے والی اور جنسی بھڑکاؤ کو ہوا دیتی ہے، کیسے وہ اپنی جسمانی ساخت کو اپنے محبوب کے گرد منڈلاتی ہے، تب میری سامع لڑکی کے ہونٹ چیریوں کی مانند بھر جاتے، وہ دانتوں سے اپنے ہونٹ پیستی، نوچتی اور مجھے بس اتنا ہی کہتی کہ :
“آگے پڑھو، کاش یہ ناول ایسے ہی چلتا رہے اور کبھی ختم نہ ہو، کاش تم، حبیب سالمی اور ندیم اقبال ایسے جذبات، ایسی کیفیات، روایتی اور تہذیبی خصوصیات، عورت مرد کے ملاپ، عشق و غیرت، رکھ رکھاؤ اور جوڑ بڑھاؤ کے رقص کناں جملوں کو لکھتے، بولتے اور پڑھتے رہیں!”
آدھی کتاب کے بعد میں نے اسے کہانی سنانی چھوڑ دی، ہم بس خواب میں پہاڑوں پر ٹہلتے، سورج کو اگتا ڈوبتا دیکھتے، چاند کا چھوٹا بڑا ہونا ہم نے ایک ساتھ پہاڑوں کے بیچ بہتی آبشار کے کنارے دیکھا
وہ روز کہتی : “ناول میں آگے کیا ہوا؟”
میں اسے بتاتا کہ اب ماری کلیر اور اس کے محبوب کے مابین جھجھک، تناؤ اور خاموشی آرہی ہے، اتنی محبت کی وارفتگی بڑی دوری کا دکھ ساتھ لاتی ہے، وہ میری بات سمجھ گئی، ماری کلیر کی مہک نے اسے سنجیدہ کردیا، اس کے اصرار پر میں نے اسے کتاب سپرد کردی، اس نے ناول کے اگلے 70 صفحات مجھے پڑھ کر سنائے، ایسی جنسی رغبت اور جسمانی تعلق میں 360 ڈگری کا برتاؤ اسے بھی کربناک کرگیا، وہ گم سم رہتی اور ناول ایسے سناتی جیسے بڑبڑا رہی ہو، ہم دونوں کو حبیب سالمی سے گلہ ہوگیا، وہ بھی چاہتی تھی کہ ایسے پیارے ناول کا اختتام ایسا کرنا برا عمل ہے، کاش مترجم ہی اس میں بدلاؤ لے آتا، میں نے اسے بتایا کہ مترجم کی جانب سے ایسا عمل بد دیانتی ہے، ندیم اقبال نے بھی ترجمہ کرتے ہوئے یہ دکھ جھیلا ہوگا، پر وہ بے بس تھا، جیسے ہم ہیں!
جب آخری بیس صفحات رہ گئے تو اس نے کہا :
“اختتام الگ الگ پڑھیں گے، نا تم مجھے سناؤ گے نہ میں!”
ہم نے ایسا ہی کیا، ناول کے اختتام کی جانب جاتے جاتے وہ لڑکی (میری بنائی لڑکی) اور میں (اس لڑکی کا تخلیق کار) ہم دونوں مرجھا کر رہ گئے، آخر کو ہر کتاب اپنا اثر رکھتی ہے، جو طے تھا وہی ہوا، حبیب سالمی منجھا لکھاری تھا، اس نے معاشرے کی جنسی اور جدید بُنت میں اپنے اثرات آڑے نہیں آنے دئے، اس نے ماری کلیر اور اس عربی دان استاد کے کردار کو آزاد چھوڑ دیا
آخری رات، جب ناول ختم ہونے ہی والا تھا، اس لڑکی کی آنکھیں ایسے بہ رہی تھیں جیسے پہاڑوں پر برف پگھلنے کا موسم آگیا ہو، اس نے مجھ سے کہا : “یہ کتاب اور اس میں لکھی باتیں تمہارے تبصرے کی وجہ سے لوگ جاننا چاہیں گے، کیا تم انہیں کہانی بھی تبصرے میں لکھ دوگے؟”
میں نے کہا : “نہیں! اس ناول کی کہانی کو جاننے کے لئے انہیں کتاب خریدنی ہوگی، ان کے کتب خانے میں ایک تو ایسی کتاب ہو جو جنسیت کی ایسی کیفیات پر پوری اترتی ہو!”
اس نے کہا : “اس کتاب کا ناشر ادارہ کون ہے؟ لکھ دو تاکہ قاری باآسانی رسائی پا سکے!”
میں نے کہا : “آج”
پھر وہ غنودگی کی سی کیفیت میں، جیسے بچے روتے روتے سونے لگ جاتے ہیں، بولی : “تم کتابیں کیوں پڑھتے ہو؟”
میں نے اسے کہا : “میرے جیسے کے لئے کتاب ہی واحد بے ضرر دوست ہے، اس صدی میں ایسی مخلص شے اور کچھ نہیں ہو سکتی!
جب میں اپنی بات مکمل کرکے اس کی طرف متوجہ ہوا، وہ سو چکی تھی اور میری آنکھ خواب سے کھل گئی!
تبصرہ : مسلم انصاری
کتاب : ماری کلیر کی مہک
مصنف : حبیب سالمی تیونسی
مترجم : ڈاکٹر ندیم اقبال
ایک اقتباس :
ماری کلیر کی میرے گھر میں مستقل موجودگی نے شروع کے چند مہینوں میں مجھے اس قدر خوش رکھا تھا کہ مجھے ڈر لگنے لگا کہ کہیں یہ خوشی شدید غم میں نہ بدل جائے، مجھے تمام عمر کسی عورت نے ایسا پیار نہ دیا تھا جیسا ماری کلیر نے دیا، یہ بھی میری زندگی کا پہلا اتفاق تھا کہ میں اس طرح سے کسی عورت کے ساتھ رہ رہا تھا، میں روزانہ اس سے ملاقات کر سکتا تھا، میں اس کے بدن کو چھو سکتا تھا، میں اس کی کنگھیوں، بالوں کے کلپوں اور خوشبو کی بوتلوں کا معائنہ کر سکتا تھا، میں اس کے جوتوں، دستی بیگ اور سامان کو اتھل پتھل کر سکتا تھا، میں اسے نہاتے اور واشروم جاتے دیکھ سکتا تھا، میں اس کے ہاتھوں کی حرکات کا معائنہ کر سکتا تھا، میں اسے جمائی لیتے دیکھ سکتا تھا، میں اسے بستر پر دراز ہوتے اور پھر ہر صبح بستر سے اٹھتے دیکھ سکتا تھا، میں اسے آئی لائنر اور لپ اسٹک لگاتے اور بھنووں کے بال نوچتے دیکھ سکتا تھا، میں یہ سب کچھ کر سکتا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور وہ بھی جب اور جہاں میرا دل چاہے، مجھے یقین نہ آتا تھا کہ یہ غیر معمولی اور حسین مخلوق صرف میری ہے، اپنی تمام تر نزاکت، طاقت، دل کشی، پیچیدگی، انفرادیت، تضادات، کیفیات، انہونے خبط، ان سب کے ساتھ صرف اور صرف میری ہے۔

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply