حامد یزدانی صاحب شاعر تو اچھے ہیں ہی، کچھ عرصے سے محفلوں میں ان کی وہ سنجیدہ تحریریں بھی سننے کو مل رہی ہیں جن میں نمکین ذائقہ جا بجا ہوتا ہے۔ یہ تحریریں ان کی سنجیدگی کے پیچھے چھپی شرارت کا دلچسپ اظہاریہ ہیں۔ پھر ’’مکالمہ‘‘ میں جو قسط وار خودنوشت چھپ رہی ہے، ان کی اچھی یادداشت کا ثبوت ہے۔ یادیں اور خودنوشت، یہ دو عناصر ان کے اس مجموعۂ کلام میں بھی نمایاں ہیں جس کا عنوان ہے ’’ہم ابھی رستے میں ہیں‘‘۔ خود نوشت کی طرح اس میں وارداتیں ہیں، مشاہدے ہیں اور یادیں اور یادوں کے دھندلائے ہوئے عکس ہیں۔ کتاب کے سرورق کے ہلکے رنگ ان کی شاعری کے رنگوں سے ہم آہنگ ہیں۔ مجھے یہ رنگ ہمیشہ سے بہت پسند ہیں بلکہ اسی وجہ سے مجھے اکثر بچپن میں یہ سننا پڑتا تھا کہ میرے اندر بڈھی روح ہے۔ ایک بات تو اس کتاب کو اور اس کے سرورق کو بخوشی دیکھ کر پتہ چل گئی، اور وہ یہ کہ بچپن میں جیسے بھی روح تھی، وہ ابھی تک ویسی ہی ہے، بڈھی ہی سہی۔ مگر یہ بات حامد بھائی کے لیے نہیں کہ سکتے اور اس کا ثبوت ان کی تحریروں میں لطافت کے وہ رنگ ہیں جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ وہ استعاروں میں رنگوں سے بہت کام لیتے ہیں۔ ان کی شخصیت کی طرح شاعری کے لہجے میں بھی ایک دھیما پن ہے جس سے رومانی فضا بن جاتی ہے اور وہ اس رومانی فضا میں گزرے وقت کے سائے لمحہ لمحہ رقم کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک خلا اور کسی چیز کی کمی کی کیفیت کو نظموں میں سمویا گیا ہے جیسے روح کھو گئی ہو، اور یہی کیفیت ان کی نظموں کی روح بن گئی ہے۔ ان کے ہاں کھویا ہوا انسان نظر آتا ہے۔ ہجرت در ہجرت، موسموں، مہینوں اور بدلتی رتوں میں زندگی کی تلاش اور تنہائی کا شدید احساس ہے۔ ایک بے چینی ہے جیسے کسی جواب کی کھوج ہو۔ وہ تشبیہات میں نیا پن لاتے ہی مثلاً ’’پچھڑی ہوئی رات‘‘۔ ان کی نظم ’’ایک فنڈریزنگ سے واپسی پر‘‘ دیکھیے، دکھاوے کی زندگی پر خوب طنز کیا ہے۔
اس کتاب میں نظمیں بھی ہیں، غزلیں بھی اور مترّقات بھی۔ بعض نسبتاً طویل نظمیں ہیں اور ان میں دوستوں اور بزرگ ہم عصروں کے نام کئی نظمیں بھی شامل ہیں۔ دو شعر آپ کے ذوق کی نذر۔
وہ میری آخری خواہش ہے حامؔد
اسے یہ جان کر چھوڑا ہوا تھا
یہ لہر کہ ساگر سے نکلتی ہی نہیں ہے
دنیا مرے اندر سے نکلتی ہی نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں