گزشتہ ہفتہ کے دوران مہنگائی میں اضافے کا رجحان ہی دیکھنے میں آیا لیکن وفاقی ادارہ شماریات کے دفتری بابوئوں کو معمولی سی کمی دیکھائی دے گئی۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے ملکی خزانے سے سبسڈی پر چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز بند کرنے کا فیصلہ صادر کردیا ہے۔ وفاقی حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز کی انتظامیہ کو لین دین کے معاملات اگلے دو ہفتوں میں نمٹانے کا وقت دیتے ہوئے دستیاب اشیاء پر سبسڈی بھی فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
بظاہر یہ اقدام 16 مختلف محکموں کو تحلیل کرنے، ضروری عملہ مختلف وزارتوں میں بھیجنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے مگر کیا اخراجات کی کمی کا ہدف پورا کرنے کے لئے سبسڈی پر چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز کی بندش ازبس، ضروری تھی؟ کیا وفاقی بجٹ میں اشرافیہ کے طبقات کے لئے رکھے گئے 25سو ارب روپے سے زائد کی رقم میں کٹوتی ممکن نہیں تھی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب بہرطور پر حکومتی نمائندوں کو دینا چاہئیں۔
فی الوقت تو یہی لگ رہا ہے کہ وفاقی حکومت بااثر اداروں اور اشرافیہ کے مختلف طقات کے اللوں تللوں پر تو قابو پا نہیں سکتی لے دے کر اس کے اختیارات کی دودھاری تلوار ہر اس مد پر چلتی ہے جس سے عام شہری کو معمولی سا ریلیف مل سکتا ہو۔ اطلاعات کے مطابق یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ملازمین نے سوموار سے ملک بھر میں غیرمعینہ مدت کے لئے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ جمعہ اور ہفتے کے روز بھی سٹورز کے ملازمین نے مختلف شہروں میں احتجاج کیا۔
عوام کے لئے ریلیف، مختلف شعبوں کے بھاری بھرکم اخراجات میں کمی ان غیرضروری معاہدوں پر نظرثانی جو ایک طرف ملکی خزانے پر بوجھ ہیں اور دوسری جانب ان معاہدوں کی وجہ سے عوام کی زندگی بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، کے بارے میں کھوکھلے دعوئوں سے لوگوں کو بہلانے کو سیاسی کامیابی سمجھنے والوں کو غالباً اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ غیردانشمندانہ پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے حالات کس سمت بڑھ رہے ہیں اور ان کی بدولت ردعمل نے جنم لیا تو نتائج کیا ہوں گے۔
فی الوقت ملک میں عمومی صورتحال کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے ستائے صارفین میں سے ایک نہ ایک آئے دن خودکشی کرلیتا ہے۔ گزشتہ روز بھی دو میں سے ایک شخص نے بجلی اور گیس کے بلوں کی وجہ سے خودکشی کی اور دوسرے شخص نے اپنی کاشت کردہ زرعی اجناس کی مارکیٹ میں مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے مالی دبائو میں آکر خودکشی کرلی۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حالات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ابتر ہوتے جارہے ہیں اس پر ستم یہ ہے کہ ہر سال وفاقی اور صوبائی بجٹوں کے اعلان کے وقت جو ماہانہ کم سے کم اجرت مقرر کی جاتی ہے اس پر عملدرآمد کے لئے سرکاری طور پر کچھ بھی نہیں کیا جاتا اس طرح یہ اعلان بجٹ دستاویزات کا حصہ ہی رہتا ہے عام محنت کش کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اس پر ستم یہ ہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر توانائی نے کفن پھاڑ ارشاد کے ذریعے انکشاف کیاکہ آئی پی پیز کی وجہ سے نہیں معاشی حالات کی وجہ سے بجلی مہنگی ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر اویس لغاری کے بقول روپے کی گرتی قدر کی وجہ سے بجلی گھروں کا کرایہ بجلی کو مہنگا بنارہا ہے۔ یہ بھی کہا کہ آئی پی پیز سے معاہدے ختم نہیں کرسکتے بلکہ انہیں نئی شرائط پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
سادہ سی بات یہ ہوئی کہ کیپسٹی چارجز کے کُند خنجر سے عوام کی کھال اتارنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ آئی پی پیز سے معاہدوں کا بوجھ تو صارفین ہی اٹھاتے ہیں حکومت ان عوام دشمن معاہدوں کے مطابق آئی پی پیز کو جو ادائیگیاں کرتی ہے وہ مہنگی بجلی کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑتی ہیں یہی نہیں بلکہ صارف کی ملکیتی بجلی میٹر کا قبل ازیں بھی ماہانہ کرایہ صارف سے ہی وصول کیا جاتا تھا اب اسے ایک ہزار روپے ماہانہ کی بنیاد پر فکس کردیا گیاہے۔
ملک میں نجی و کمرشل بجلی کے کروڑوں میٹر ہیں اندازہ لگایا جانا مشکل نہیں کہ حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے اس مد میں صارفین سے کتنے ارب روپے ماہانہ بھتہ وصول کرے گی۔
سوال یہ ہے کہ جب بجلی اورسوئی گیس کے کنکشن کا ڈیمانڈ نوٹس بھرتے وقت صارف ان کنکشنوں کے میٹر کی قیمت ادا کردیتا ہے تو پھر ماہانہ کرایہ وصول کرنے کا کیا جواز تھا اور اب اسے ایک ہزارروپیہ فی کنکشن فکس کرتے وقت کسی نے بھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ عام آدمی پر یہ بوجھ کیوں ڈالا جارہا ہے؟
پچھلے دو تین ماہ سے آئی پی پیز سے ماضی میں ہوئے معاہدوں اور تجدیدات کے حوالے سے بڑھکیں مارتے حکومتی رہنمائوں کا “اصل” بہرطور پر یہی تھا کہ وہ اس معاملے میں بے بس ہیں کیونکہ ان معاہدوں کی بعض شقوں کے حوالے سے مختلف حکومتوں نے ملک اور عوام کی گردنیں آئی پی پیز مالکان کے شکنوں میں پھنساکر رکھ دی ہیں۔
ایسا صرف اس لئے ہوا کہ ان آئی پی پیز کے مالکان اور حصہ داروں میں ماضی کی کم از کم چار حکومتوں (پرویز مشرف سے پی ٹی آئی حکومت تک) کے علاوہ موجودہ حکومت کے بہت سارے بڑے بھی شامل ہیں۔ ان حالات میں ارباب اختیاراور بالخصوص اہل اقتدار سے کسی بھلائی، عوام دوستی اور حقیقت پسندی کے مظاہرے کی توقع عبث ہے۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سے موجودہ حکومت تک آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے والوں نے عوام پر تو حکومتی اخراجات کا بوجھ بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر آئی ایم ایف نے جن مدوں کے اخراجات میں کمی لانے کے لئے تجاویز دی تھیں ان پر گزشتہ اور موجودہ حکومت نے عمل نہیں کیا۔
اب یہ جو 16 محکموں کی تحلیل کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے یہ بھی دھول اڑانے کے سوا کچھ نہیں۔ موجودہ حالات میں ہر ذی فہم شخص کو ارباب حکومت سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا آئی ایم ایف نے یوٹیلٹی سٹورز بند کرنے کا کہا ہے؟
اس سوال کا جواب بذات خود پچھلے معاہدوں میں موجودہے۔ آئی ایم ایف حکام کا کہنا تھا کہ مختلف مدوں میں سبسڈی دینے کی بجائے صرف یوٹیلٹی سٹورز پر عوام کو سبسڈی دے دی جائے یہ تجاویز ریکارڈ کا حصہ ہیں یہ صرف آج کی حکومت کا معاملہ نہیں پچھلی حکومتیں بھی اسی ڈنگ ٹپائو سوچ کا شکار تھیں، نتائج عوام نے بھگتے۔
ہمارے ہاں یہ عمومی روایت ہے کہ اخراجات میں اضافے کے بوجھ کو منافع سے منہا کرنے کی بجائے یہ بوجھ براہ راست صارف پر منتقل کیا جاتا ہے۔ حکومت ہو یا سرمایہ دار، دونوں اپنی باتوں سے فریب ہی دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے جن بجلی گھروں کے کرایوں میں وفاقی ویز توانائی کے بقول اضافہ ہواہے کیا ان بجلی گھروں کے مالکان نے معاہدوں کے مطابق کیپسٹی چارجز وصول نہیں کئے؟ یقیناً کئے ہیں یہی ریکارڈ سے ثابت ہے پھر ان کرایوں کا بوجھ صارف کی گردن پر کیوں، اپنے خالص منافع اور معاہدے کے مطابق بجلی پیدا کئے بغیر کیپسٹی چارجز وصول کرنے والے اس کا بوجھ خود کیوں نہیں اٹھاتے؟
گزشتہ روز ہی وفاقی وزیر توانائی نے بجلی کے بلوں میں ریلیف کے لئے پنجاب کے علاوہ تین صوبوں کو بھاشن دیا خود وفاقی حکومت آئی پی پیز سے ہوئے ظالمانہ معاہدوں پر نظرثانی کرکے صارفین کو ریلیف کیوں نہیں دلواتی؟
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مالی مشکلات کی وجہ سے یوٹیلٹی سٹورز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس پر ہنسی سے زیادہ رونے کے لئے دل کرتا ہے۔
آخر مالی مشکلات دفاعی بجٹ میں اضافے کے وقت پیش نظر کیوں نہیں رہتیں؟ معاملہ صرف دفاعی اخراجات کا نہیں وفاق کی جانب سے پنشن کے لئے سالانہ رکھی جانے والی رقم کے حساب پر غور کرلیجئے۔ اس میں دو سو ارب روپے سے کم سول پنشن ہے اور لگ بھگ تقریباً چار سو ارب کے قریب ڈیفنس پنشن، یہ درست ہے کہ زندگی کا بڑا حصہ خدمات کے لئے وقف کرنے والے سول و دفاعی ملازمین کو پنشن ملنی چاہیے مگر دفاعی پنشن سول بجٹ کا حصہ کیوں ہے؟
آخری بات قرضوں میں جکڑے ملک کے بھاری بھرکم اخراجات بھی تو مشکلات کا باعث بن رہے ہیں تو کیا کسی دن اس ملک کو تحلیل کرنے کا اعلان کردیا جائے گا؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں