ڈائمنڈ جم رئیس انسان تھا۔ وہ اپنے مہمانوں کی مہنگی دعوتیں کرتا اور رخصتی پر انہیں مہنگی گھڑیاں اور جوہرات کے تحائف دیتا۔ اپنے دوستوں کو شراب پلاتا تھا لیکن خود نہیں پیتا۔ اس کا وزن 130 کلو سے اوپر تھا۔ وہ کھانے کا شوقین تھا۔ ہر رات 15 قسم کے کھانے پکتے۔ اس کے بعد آدھا کلو چاکلیٹ کھاتا۔ کھانے سے پہلے مالٹے کے رس کے چار گلاس پیتا۔ ایک دفعہ وہ کھانے میں چھ مرغ کھا گیا۔ بڑھاپے میں جب آپریشن ہوا تو ڈاکٹر نے دیکھا کہ اسکا معدہ عام انسانی معدے سے 6 گنا بڑا تھا۔
اس کی قمیض میں 250 سے زیادہ ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ جب وہ کسی کی دعوت کرتا تو اپنے فارم میں گائے اور بھینسوں سے دودھ دھونے کے لئے سونے کے برتن استعمال کرتا۔ اس کی تاش والی میز پر ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ ہر سال نیا فرنیچر خریدتا اور پرانا احباب کو تحفے میں دے دیتا۔ ایک ایکٹریس کو ایک سائیکل تحفے میں دی جس کے پہیے سونے کے تھے۔ سائیکل جوہرات سے مزین تھی۔
اس نے زندگی میں شادی نہیں کی۔ اس نے یہ سب دولت موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حاصل کی۔ جب ریل گاڑی کے ڈبے لکڑی کے ہوا کرتے تھے تب لوہے کے ڈبوں کا سوچا جانے لگا۔ اس نے لوہے کی ڈبے بنانے شروع کر دیئے۔ اسے امریکہ میں بہت بڑا کنٹریکٹ ملا۔ یوں لوہے کے ڈبے مشہور ہوگئے اور سب گاڑیوں میں استعمال ہونے لگے۔ اس کی دولت عین وقت میں جینیئس فیصلے کا نتیجہ تھی۔ اگر وہ اپنے وقت سے تیس چالیس سال بعد پیدا ہوتا تو اسے یہ موقع نہ ملتا۔)
یہ پیراگراف پڑھ کے آپ نے کیا سوچا؟؟؟
ہر کسی نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق سوچا ہوگا۔ اگر میں ان کو کلاسز میں تقسیم کروں تو کچھ اس طرح کی کلاسز ہوں گی۔
کلاس 1- اس کلاس کے لوگوں نے 2 3 لائنز پڑھ کے چھوڑ دیا ہوگا اور سوچا ہوگا یہ صرف پیسے کے بارے میں ہے۔ اس کو رہنے دیں۔
کلاس 2-اس کلاس کے لوگ یہ سوچ رہے ہونگے کہ اگر یہ دولت ہمارے پاس ہوتی تو زندگی کا مزہ آجاتا۔ ساری خواہشیں پوری ہوجاتی۔
کلاس 3-انہوں نے کہا ہوگا کہ یہ غیر مسلم کی مثال دے رہا ہے. ہم غیر مسلم سے کیوں سیکھیں۔ ہمارے پاس تو اسلام میں بھی مثالیں موجود ہیں۔
کلاس 4-اس پیراگراف میں تو ہر طرف پیسے کا ذکر ہے۔ پیسہ تو برائی کی جڑ ہے۔ اتنا کما کے بھی وہ مر گیا نا۔ ہم نے بھی مر جانا ہے۔
کلاس 5- کاش میں اس وقت ہوتا اور اس کا مہمان بنتا۔ وہ مجھے بھی بغیر محنت کے بہت سے تحائف دے دیتا۔
کلاس 6-اس نے پیسہ ہونے کے باوجود شادی نہیں کی، ضرور خواہشات کے لیے غلط کام کرتا ہوگا۔ لعنت ایسی زندگی پر اور ایسے پیسے پر۔
کلاس 7- ہاں وہ امریکہ میں تھا اس لئے ترقی کر گیا۔ ہم تو پاکستان میں ہیں۔ ادھر تو سفارش اور رشوت پھیلی ہوئی ہے۔ وہ پاکستان میں ہوتا تو میں دیکھتا کہ کیسے ترقی کرتا۔
کلاس 8- وہ اتنا کھانا کھاتا کیسے ہوگا؟؟
کلاس 9- اگر میرے پاس اتنا پیسہ ہوتا تو میں والدین کو حج کرواتا, غریبوں میں تقسیم کرتا اور صدقہ خیرات کے انبار لگا دیتا۔
کلاس 10- اس پیرا گراف میں آدھی اردو اور انگریزی لکھی ہوئی ہے۔ لکھنے والے نے ایکٹریس انگریزی کا لفظ لکھ دیا ہے۔ اردو میں اس کو اداکارہ کہتے ہیں. اس کو اردو کی الف ب کا نہیں پتا اور یہ کالم لکھ رہا ہے۔
کلاس 11-اس نے موقع کا فائدہ اٹھایا۔ اپنے وقت کے مطابق اس نے صحیح فیصلہ کیا۔ اور بہت کچھ حاصل کیا۔ اس لئے مجھے بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ میرے دور میں کیا کیا مواقع آرہے ہیں۔ مجھے بھی موقع کی مناسبت سے درست فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
کلاس 12-اس کلاس کے لوگوں کا ذہن لچک دار ہوگا۔ وہ ہر کلاس کی تفصیل کو دلچسپی سے پڑھ رہے ہوں گے۔ وہ اپنے ذہن کو اوپن کر رہے ہوں گے۔ انہیں حالات کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کے نئے طریقے پتہ چل رہے ہوں گے۔ وہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ پوسٹ لکھنے والا بہت کام کی باتیں بتاتا ہے۔ اس کو فالو کرنا چاہیے اور کہیں ملاقات بھی کرنی چاہیے۔
کلاس 13۔ ان کے مطابق یہ سب باتیں فضول ہیں۔ مختلف زاویے سے دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ حالات جیسے ہوتے ہیں ویسے ہی رہتے ہیں۔
کلاس 14۔ کچھ لوگ ایک کلاس کے مطابق سوچ رہے ہوں گے۔ لیکن کمنٹ کرتے ہوئے ڈر رہے ہوں گے کہ لوگ ان کے بارے میں کچھ غلط نہ سمجھنا شروع کر دیں۔
اس کی تفصیل اگلی پوسٹ میں آئے گی۔ کمبخت ذہنی صحت قسط 8 کا انتظار کریں۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں