لویا تھن “Leviathan ” تھامس ہوبز (ایک مختصر تعارف)-مبشر حسن

لویا تھن “Leviathan ” تھامس ہوبز (ایک مختصر تعارف)انگلش سیاسی اور اخلاقی ) فلسفے کے بانی تھامس ہوبز (1588ء تا 1679ء) نے تقریباً ہر موضوع پر قلم اٹھایا۔ نا  صرف فلسفہ ، بلکہ مذہب ، ریاضی ، منطق ، نفسیات، زبان اور بصریات بھی اس کے موضوعات میں شامل ہیں ۔ اس نے دولت مشترکہ سے جلا وطنی کے زمانے میں پیرس میں مستقبل کے چارلس دوم کو پڑھایا۔ وہ اپنے دور کے تقریباً ہر عظیم ذہن کا علم رکھتا تھا: گلیلیو ، ڈیکارٹ ، بیکن، لیبنز کسی بھی قوم کا کوئی بھی فلسفی نثر نگاری میں اس پر برتری حاصل نہ کر سکا ( چند ایک ہی ، مثلاً شو پنہاور ، اس کی ہمسری کر پائے ) اس میں شاعر والے کچھ اوصاف موجود تھے اور زندگی کے بارے میں اس کی تفہیم صرف ایک فلسفی اور فزیالوجسٹ والی ہی نہیں بلکہ ایک طنزیہ شاعر والی بھی تھی ۔

لویاتھن اس کی مشہور ترین تصنیف اور دنیائے ادب میں ایک کلاسیک شمار ہوتی ہے، مگر اسے بہت غلط طور پر لیا گیا ۔ ہوبز ڈرپوک مزاج تھا کیونکہ وہ وقت سے پہلے ہی پیدا ہو گیا تھا۔ اس کی ماں ہسپانوی فوج کی پیش قدمی سے ڈر گئی تھی۔ مگر اس کی تحریریں حقیقی معنوں میں نہایت بے باک اور حوصلہ مندانہ ہیں . یہاں تک کہ وہ مالمسبری کا درندہ“ کے نام سے مشہور ہوا، اور ملحد قرار پایا (1666ء کے بعد اس کی مخصوص تصانیف کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی ) ۔ وہ ہمیشہ جانتا تھا کہ وہ کس وقت ناراضی اور خفگی کا باعث بن رہا ہے … درباری حلقہ اس پر خفا ہوا کیونکہ اس نے بادشاہ کے الوہی حق کو مستر د کیا؟ اس کے علاوہ پیوریطانی، رومن کیتھولکس اور ہر قسم کے تمام اخلاقیت پسند اس سے ناراض رہے۔ بہت سے لوگ اس کی تصانیف کے ساتھ ساتھ اسے بھی نذر آتش کرنے کے خواہش مند تھے۔ ہوبز کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ وہ ایک طنز نگار تھا جسے اپنی غصہ دلانے کی قابلیت کا پورا وقوف تھا۔

ہوبز گلوسیسٹر شائر کی مغربی کاؤنٹیز اور ولٹ شائر کی درمیانی سرحد پر واقع قصبے مالمسبری میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ جاہل، جواری اور ظالم پادری تھا جو ایک ساتھی پادری کی پٹائی کرنے کے بعد گمنامی کی دھند میں کھو گیا ۔ آکسفورڈ میں ایک شاندار کیریئر کے بعد اس نے زندگی کا زیادہ تر حصہ Devonshire خاندان کی خدمت میں گزارا۔ ایک ساتھی اتالیق کی حیثیت میں براعظم پر آنے جانے کے ذریعہ وہ میکیا ویلی اور جدیدترین یورپی فکر کے متعلق جاننے کے قابل ہوا ۔ اگر چہ ہوبز نے فرانس بیکن کا استقرائی طریقہ مستر د کیا ، لیکن معمر بیکن کے ساتھ ذاتی دوستی نے اسے ارسطوئی علم الکلام اور اس کے نہایت مجرد طریقہ استدلال کی فیصلہ کن تردید میں مدد دی۔ یقیناً بیکن کے منڈی کے معبودوں (Idols of Market Place) کے نظریہ نے بھی اسے متاثر کیا: یعنی الفاظ کے استعمال میں مجرد بے احتیاطی ۔ یہ خیال قائم کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں کہ ہوبز نے مذہب کو نا پسند کیا ، مگر اس نے مذہب کے مروج استعمالات پر زبردست ناگواری ضرور ظاہر کی۔ اس نے موت کو تاریکی میں ایک بڑی چھلانگ قرار دیا۔ جب ہو بز نے لکھا:

Put thousands together
Less bad,
But the cage is less gay

یا Leviathan میں

“انسان کی مخفی سوچیں تمام پاک، ناپاک، صاف، گندی، تاریک اور روشن چیز کا کسی شرم یا جھجک کے بغیر احاطہ کرتی ہیں”

تو وہ ایک فلسفی سے زیادہ ایک شاعر کی حیثیت میں بات کر رہا تھا۔ لیکن اس کا تجزیہ ہمیشہ ایک فلسفی یا سیاسی نظریہ دان کی حیثیت سے کیا گیا ۔ کبھی بھی یہ تفہیم نہ کی گئی کہ وہ دنیا کے بارے میں ہر ممکن حد تک قطعی سائنسی حوالہ پیش کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے صرف اس لیے بہت کچھ پر اسرار سوچوں کے کھاتے میں ڈال دیا کیونکہ وہ قطعی سائنسی تحقیق کے زمرے میں نہیں آتی تھیں ۔ اس نے اپنے عہد میں مروج مذہب کو صداقت نہیں بلکہ قانون کے ایک نظام کے طور پر دیکھا ۔ لیکن وہ حضرت ایوب سے خدا کے ایک سوال کو بہت پسند کرتا تھا: ” تو اس وقت کہاں تھا جب میں نے زمین کی بنیادیں قائم کیں ؟“

اگر چہ ہوبز کا موازنہ بی ایف سکنر سے کیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت وہ اس جیسا نہیں تھا: وہ ان سب باتوں کو انسانی غور و فکر سے منفی کرنے کا مشتاق نہیں تھا جو اس کے لیے باعث تکلیف تھیں کیونکہ وہ مایوس ہو گیا تھا۔ لیکن وہ کرداریت پسندانہ (behaviorist ) طریقہ کار کے موجدوں میں سے ایک نہیں جس کے تحت سائنسی لحاظ سے قابل بیان چیزوں کو بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ ولیم جیمز سے زیادہ ماہر کرداریت (behaviorist) نہیں تھا ۔ ہوبز کی نشر کا جاہ و جلال اور بازگشت اس کا خاطر خواہ مظاہرہ کرتی ہے: ” جو شخص بھی اپنے اندر دیکھتا اور اپنے اعمال پر غور کرتا ہے وہ سوچتا ، رائے دیتا، استدلال کرتا، امید رکھتا اور خوف کھاتا ہے ۔ تب اسے پتہ چلتا ہے کہ باقی تمام انسانوں کی سوچیں اور جذبات اسی قسم کے مواقع پر کیا تھیں ۔“

ہوبز نے ”لویاتھن کے علاوہ لاطینی زبان میں تین کتاب پر مشتمل فلسفیانہ تصنیف بھی لکھی ۔ اس نے لاطینی اور انگریزی زبان میں سوانحات بھی لکھی تھیں۔ اس نے 1628 ء میں تھیوسی ڈائیڈز اور بڑھاپے میں ہومر کے ایلیڈ اور اڈویسے کا ترجمہ بھی کیا۔ انگریزی میں اس کی تصنیفات گیارہ جلدوں اور لاطینی تصنیفات پانچ جلدوں پر مشتمل ہیں ۔

لویاتھن“ کا مقصد انفرادی انسانی تسہیل ، تحفظ اور امن کی قیمت بیان کرنا ہے، طبعی کائنات کی تفتیش کے لیے گلیلیو کے استخراجی (Deductive) طریقہ کار سے تحریک یافتہ ہوبز انسانی طرز عمل کا تجزیہ بھی طے شدہ قوانین کے مطابق کرنے کی خواہش کرتا ہے۔ (یاد رہے کہ استخراجی طریقہ کار میں درست مفروضوں سے ناقابل تردید نتائج اخذ کیے جاتے ہیں، جبکہ استقرائی یا Inductive طریقے میں صرف ممکنات کو لیا جاتا ہے ) ۔ ہوبز یقین رکھتا تھا کہ ہر چیز کی وضاحت حرکت کرتے ہوئے مادے کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔ اس نے لکھا: ” صرف ایک چیز حقیقی ہے۔ لیکن یہ ان چیزوں کی بنیاد ہے جنہیں ہم غلطی سے کچھ اور قرار دیتے ہیں۔ واحد داخلی حقیقت ۔۔ حرکت ہے ۔“

سپینوزا کی طرح ہوبز کی کائنات بھی مادی ہے۔ ہمارے تمام خیالات اور جذبات حرکت کرتا ہوا مادہ ہے۔ ”لویاتھن کے باب 6 کا عنوان یہ ہے:

“Of the interior Beginnings of Voluntary Motions; Commonly called the PASSIONS.”

( خودروحرکت کی داخلی ابتدا کے بارے میں جسے عام طور پر جذبات“ کہتے ہیں )

ہوبز ایک حقیقی بنیادی مفروضہ بیان کرتا اور پھر اس سے ریاست یعنی Leviathan کا تصور اخذ کرتا ہے جسے لاگو کرنا لازمی ہے تا کہ انسان امن کے ساتھ اکٹھے رہ سکیں ۔ وہ ہرگز ربط باہم (Harmony) کا ذکر نہیں کرتا ، کیونکہ وہ دل کی گہرائی میں ایک شاعر ہے جس کے ہاں یوٹوپیائی نظریات برائی کے لیے ایک نوسٹلجیا “ کو تحریک دلاتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ انسان آپس میں تعاون کرنے والی چیونٹیوں یا شہد کی مکھیوں جیسے نہیں : وہ مقابلہ آرائی اور دلیل بازی کرتے ہیں ۔ ( کیا وہ طنز کر رہا ہے؟ چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں فطری طور پر باہم رضا مند ہیں: انسان محض ” مصنوعی طور پر رضا مند ہو سکتے ہیں۔ میثاق (Covenant) لوگوں اور حاکم کے درمیان نہیں ( جیسا کہ روسو یا جان لاک کے ہاں ملتا ہے ) بلکہ خود لوگوں کے مابین ہے۔ اسے اس حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی فطرت میں موجود خود غرضی سے مجبور ہو کر غلام بننے پر رضا مند ہیں۔ ہوبز کا حاکم ایک مصنوعی خدا ہے ، اور وہ ہمیں ایک خوف ناک خدا کے بارے میں بتاتا ہے۔ کیا یہ سیاسی نظریہ ہے یا سیاسی بیان؟

لیکن سنجیدہ اور سادہ سیاسی نظریے کے نکتہ نظر سے ہوبز خود کو مشکلات سے دو چار کرتا ہے۔ متعلقہ سوالات کے بارے میں اس کے پیش کردہ جوابات غیر تسلی بخش ہیں ( یہ سوالات کہ : اگر حاکم استبدادی فرمانروا ہو تو اس صورت میں کیا ہوگا ؟ اگر حاکم ضرورت سے کہیں زیادہ آزادی لے لے تو کیا ہوگا ؟ اگر وہ لالچی ہو یا لالچی بن جائے تو کیا ہو گا وغیرہ ) یہ بات درست ہے کہ وہ اپنے دور کے بارے میں لکھ رہا تھا۔ لیکن ہوبز بس یہی کہے گا کہ بدترین استبدایت بھی طوائف الملوکی (یعنی مکمل انتشار ) سے بہتر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاہم ، میرے خیال میں یہاں ہوبز طنزیہ اور یاسیت پسند ہے۔ دنیا میں مسرور ترین حالتوں میں سے ایک حالت وہ ہے جس میں یاسیت پسند اپنی یاسیت کا پیغام دیتا ہے ۔ ہوبز اپنی ریاست کی تصویر کشی کرنے میں مسرت محسوس کرتا ہے جس میں انسان ایک حاکم کو قطعی و مطلق اختیار دینے پر راضی ہیں کیونکہ وہ موت سے خوف زدہ اور تحفظ کے خواہش مند ہیں۔ غالباً وہ اپنے طنزیہ انداز میں انسانی فطرت کی خود غرضی پر تنقید کر رہا تھا۔ وہ یقیناً انسانوں کی خود کو سمجھنے کی صلاحیت کے بارے میں نا خوش ہوگا ۔ شاید وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ اس کے بادشاہ نے امن اور امان کو تحفظ دیا ہے۔ فلسفی عموماً لویاتھن کو ایک غیر معمولی کتاب تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی نثر ایک ایسا مسحور کن عنصر رکھتی ہے جو لاک اور روسو کے ہاں نہیں ملتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply