یہ سوال ایک دوست(شہزاد احمد) نے کیا ہے
عہد حاضر میں ہم جس سیکولر ازم کی بات کرتے ہیں اس سے مراد ’’ایسا سیاسی و سماجی نظام ہے جسکی بنیادیں مذہب او ر مابعد الطبیعیاتی نظریات کے بجائے عقل اور سائنسی اصولوں پر رکھی گئی ہو ں ‘‘۔یعنی ایسی ریاست جو مذہبی حدودو قیود سے آزاد ہو ۔سیکولر ریاست کا بذات خو د کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ وہ کسی مذہبی نظام اور منثور کے تحت کام کرتی ہے ۔اسکے شہری جو مختلف مذہبوں،مسلکوں اور نظریوں میں بٹے ہوتے ہیں وہ انکی ترقی،تنظیم اور حفاظت کے لیے کام کرتی ہے ۔ سیکولرریاست کی ترجیحات میں شہریوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا اور انکی سماجی زندگی کی بہتری کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہے ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر وجاہت مسعود اپنے مضمون ’’ سیکولراز ام کیا ہے ‘‘میں لکھتے ہیں ’’ معیار زندگی محض گارے چونے کی عمارتیں کھڑی کرنے کا نام نہیں ،انسانی ترقی ایک پیچیدہ ،نازک اور پہلودارتصور ہے جو اپنی بلند ترین شکل میں اعلیٰ ترین انسانی امکانات کی کھوج اور بہترین انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا نام ہے ۔اس میں علم کا فروغ،ہنر مندی ،پیداواری صلاحیت ،فکری آزادی،بلند نگاہی ،تخلیقی رجحان اور جمالیاتی لطف سب شامل ہے ۔یہ ایک سیا ل اور باہم مربوط عمل ہے‘‘ ۔ لہذا سیکولر ریاست کا پہلا مقصد شہریوں کے معیار زندگی کی بہتری ہے ۔
سیکولر ریاست کا بنیادی محور معاشی بہتری ہے ۔معاشی بہتری کے ساتھ سیکولر ریاست طے شدہ ضابطوں ،لائحۂ عمل اور معین طریقہ ٔ کار کی پابند ہوتی ہے ۔اسکا مقصد کسی ایک خاص مذہب و ذات والوں کی ترقی اور تحفظ کی فراہمی نہیں ہے ۔اس ریاست کا بنیاد تصور انسانی حقوق کی بحالی،مساوات،فکری آزادی ،قانون کا غیر جانبدارانہ نفاذ،تمام شعبوں میں شہریوں کی ترقی کے لیے ممکن کوشش،انتہا پسندی،عدام برداشت اور مفسدانہ افکار کی توبیخ اور مختلف علوم کی ترویج و ترقی اسکا بنیادی ہدف ہے ۔سیکولر ریاست مذہبی آئین کی پابند نہیں ہوتی بلکہ وہ عقل و منطق کی روشنی میں اپنے آئین مرتب کرتی ہے اور ہر شہری کو انہی آئین کا پابند ہونا لازمی ہے۔
سیکو لرازم کے بنیادی عقائد
جس سیکولر ریاست کے تصور کی بات کی جاتی ہے اسکے مبادیات اور نظریات سے باخبر ہونا بھی ضروری ہے ۔امتداد وقت کے ساتھ سیکولر ازم کے مبادیات میں تبدیلی کی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تبدیلی آج بھی اکثر مفکرین کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے ۔سیکولر مفکرین آج بھی انہی نظریات و خیالات کے حامی ہیں جو سترہویں اور اٹھارویں صدی کے مفکرین کے منظورنظر تھے۔یعنی خدا کا کوئی وجود نہیں ہے ۔یہ کائنات خدا کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ ایٹم کی ایجاد ہے ۔سیکولر ریاست کا تصور خدا کے وجود کے ساتھ ممکن ہی نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام ایسی سیکولر ریاست کے تصور کو باطل سمجھتاہے ۔مگر اس تصور سے الگ جن انتظام و انصرام کا تصور سیکولر ریاست پیش کرتی ہے وہ اسلامی قوانین میں پہلے سے موجود ہیں ۔یعنی تمام شہریوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر کام کرنا ۔
انسائیکلو پیڈیا امریکانا سیکولر نظریہ کی وضاحت میں لکھتا ہے ’’سیکولرازم ایک اخلاقی نظام ہے جو قدرتی اخلاق کے اصولوں پر مبنی ہے جو الہامی مذہب یا مابعدالطبعیات سے جداہے ۔اسکا پہلا کلیہ فکر کی آزادی ہے ۔یعنی ہر شخص کو اپنے لیے کچھ سوچنے کا حق۔دوسرے تمام فکری امور کے بارے میں اختلاف رائے کا حق ۔
ڈاکٹر عبدالحق نے اردو انگریزی ڈکشنری میں سیکولر کی تعریف میں لکھاہے ’’سیکولر ازم اس معاشرتی اور اور تعلیمی نظام کو کہتے ہیں جسکی اساس مذہب کے بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہبی مداخلت کی گنجائش نہ ہو ‘‘۔( نوید فکر صفحہ ۷۰مصنف سبط حسن )
یعنی سیکولر آئین کے مطابق دنیاوی امور سے مذہبی آئین و تصورات کا اخراج لازمی ہے۔آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق سیکولرازم سے مراد ایسا عقیدہ ہے جس میں مذہب اور مذہبی خیالات و تصورات کو اراداتا دنیاوی امور سے حذف کردیا جائے ۔
اسلامی ریاست کا تصور بھی اسی نظریہ پر مبنی ہے جہاں کافروں اور مشرکوں کے حقوق کا تحفظ بھی حکومت کے لیے لازم ہے ۔سیکولر ریاست تسلیم کرتی ہے کہ مذہب اور عقیدہ ہر انسان کا نجی معاملہ ہے لہذا ایسے معاملات میں ریاست کا مداخلت کرنا انسان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنے جیسا ہے جو جائز نہیں ہے ۔اسلام بھی لوگوں کے نجی معاملات میں مداخلت کو جائز نہیں سمجھتا ۔ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی امور کو انجام دے ۔آزادی کے ساتھ خدا کی عبادت کرے اور اپنے عقائد کے مطابق اپنی زندگی گزارے مگرانسان کے نجی عقائد و خیالات کاعام معاشرتی زندگی میں کوئ اثر نہ ہو۔یعنی معاشرہ کو ذاتی نظریات و عقائد کی ترویج و اشاعت کا اکھاڑہ نہ بنائے کیونکہ اسلام مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ نہیں سمجھتا ۔کیونکہ اسلام میں کسی بھی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کوئ ایسا کام انجام دے جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو ۔مثال کے طور پر اگر سیکولر ریاست زنا باالرضا کو جائز سمجھتی ہے تو ایسی توجیہ غلط ہے اسلام ایسے کسی بھی تعلق کی اجازت نہیں دیتا۔
موجودہ عہد میں سیکولرازم کی ضرورت :
کیا موجودہ عہد میں سیکولر نظریات کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔جی ہاں مگر یہ نظریات ایک مخصوص طرز فکر یعنی لادینیت اور لا مذہبیت کا فروغ نہ ہو ۔اس وقت پوری دنیا میں اگر انسان امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گذار سکتا ہے تو وہ ایک ہی نظام حیات اور ایک طرز فکر ہے ۔سیکولر نظام کی حمایت کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اسلامی آئین اور اسکی آفاقیت کے منکر ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا اسلامی آئین کی تابع نہیں ہوسکتی ،یہ ممکن بھی نہیں ہے لہذا ایک ایسے نظام کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے جو ہر ملک کی مقتدر جماعتوں اور شہریوں کے لیے قابل قبول ہو ۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں