جن دنوں میں جنسی تعلقات سے پھیلنے والی بیماریوں پر لکھ رہا تھا اس وقت متعدد بار ہم جنس پرستی پر لکھنے کا سوچتا رہا لیکن یہ معاملہ کبھی تکمیل کو نہیں پہنچا ان دنوں برزخ ڈرامہ کافی زیر بحث ہے تو اس موقع پر اس موضوع پر کھل کر بات کرتے ہیں اس کے تاریخی پہلو سمیت میڈیکل اور سائنسی لحاظ سے بھی اس پر تفصیل میں بات کرتے ہیں۔۔
چلیں پہلے ان کو ذرا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔
Lesbian
یہ ایسی بیمار عورتیں ہوتی ہیں جو مردوں کے بجائے عورتوں میں دلچسپی لیتی ہوں یعنی عورت کا عورت کی طرف میلان۔
Gay
ایسے بیمار مرد جو عورتوں کی بجائے مردوں میں دلچسپی لیں۔
Bisexual
ایسے بیمار لوگ جو عورت اور مرد دونوں میں دلچسپی لیں۔
Transgender
ٹرانسجینڈر ایک ایسی اصطلاح ہے جو اِن لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جن کی جنسیت (gender identity) یا جنس کا اظہار (gender expression) اس جنس سے مختلف ہوتا ہے جو انہیں پیدائش کے وقت دیا گیا ہوتا ہے۔یہ پیدائشی طور پر یا مرد ہوتے ہیں یا عورت لیکن ان کی جنسی خواہشات میں بھی ردوبدل واقع ہوتا ہے یعنی کہ پیدائشی طور پر اگر مرد پیدا ہوا ہے تو احساسات ان میں خواتین کے ہوسکتے ہیں یا اگر پیدائشی طور پر عورت پیدا ہوئی ہے لیکن خواص مردوں کے ہوسکتے ہیں۔
دیکھیں ہم جنس پرستی کی ایک طویل تاریخ ہے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے قدیم زمانے سے ہم جنس پرست موجود رہے ہیں حضرت لوط ؑ کے قوم کے بعد چائنا، روم، مصر، جاپان وغیرہ میں یہ لوگ موجود رہے ہیں جو کہ ہم جنس پرستی کی خواہش رکھتے تھے بلکہ بعض جگہوں پر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ قوم لوط سے پہلے بھی یہ بیماری اور یہ بیمار موجود تھے بعض سلطنتوں میں باقاعدہ ان لوگوں کو سزائیں دی جاتی تھیں حتیٰ کہ ان کو جلا دیا جاتا تھا اور بعض سلطنتوں میں خاموشی اختیار کرلی جاتی لیکن زیادہ تر حکومتوں میں ان سے نفرت کی جاتی تھیں اور پھر آہستہ آہستہ کئی ممالک میں ان کے لئے مہم سازی شروع ہوئی اور ایسے بیمار لوگوں کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے خاص طور پر 19ویں اور 20ویں صدی میں ان بیمار لوگوں کی مہم سازیاں زور پکڑنے لگیں اور عدالتوں سے رجوع کیا گیا کہ ان ب لوگوں کو غیر فطری جنسی تعلق یا شادی کی اجازت دی جائے اور بلآخر ان کو کامیابی ہوئی اور آج دنیا کے کئی ممالک جیسے کہ آسٹریلیا،بیلجیئم، برازیل، نیوزی لینڈ، نیدرلینڈ، ارجینٹینا، میکسیکو، ناروے اور اس کے علاوہ کئی دیگر ممالک نے ان بیمار لوگوں کو قانونی طور پر شادی کرنے کی اجازت دی ہے۔
اب جیسے میں نے تحریر میں لفظ “بیمار”ان لوگوں کیلئے استعمال کیا ہے تو درحقیقت یہ لوگ بیمار ہی ہوتے ہیں چلیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں دیکھیں جن لوگوں میں ہم جنس پرستی کی خواہش ہوتی ہے درحقیقت ان لوگوں میں یہ مسئلہ موروثی (Genetical Data) کی خرابی کے باعث ہوتا ہے یعنی کہ پیدائش سے پہلے جب بچے میں ٹیسٹوسٹیرون (Testosterone) زیادہ بننا شروع ہوجائے تو اس کا جسم مرد کی طرح بننا شروع ہوجاتا ہے اور مرد کے خواص پیدا ہوجاتے ہیں اور جہاں پر ایسٹروجن (Estrogen) زیادہ بننا شروع ہوجائے تو وہاں پر لڑکی کا پیدا ہونا مقرر ہوجاتا ہے اور اس ہارمون کے زیر اثر ایسے بچوں میں عورتوں کے خواص پیدا ہوجاتے ہیں اب چونکہ یہ ہارمون موروثی اعداد وشمار (Genetical Data) کے تابع ہوتے ہیں اگر تو والدین میں سے کسی ایک کا بھی موروثی اعداد وشمار (Genetical Data) میں خرابی ہوگی تو اس خرابی کے زیر اثر بچے میں ہارمون کی تال میل خرابی کا شکار ہوسکتی ہے اور اس طرح جب یہ ہارمون خرابی کے شکار ہوجائیں گے تو پھر ہمارے پاس خواجہ سراء (Intersex/Transgender) یا ایسے کئی دیگر بیمار بچے پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں اور اسی خرابی کے زیر اثر پیدا ہونے والے بچوں میں جنسی خواہشات بھی مختلف ہوسکتی ہیں جیسے کہ LGBTQ والوں میں ہوتی ہیں۔
اب جہاں پر کوئی خاص سینڈروم (Syndrome)موجود نہیں ہے لیکن ہارمون کی تھوڑی بہت خرابی کی وجہ سے بچے میں جنسی تبدیلیاں واقع ہیں تو اس طرح کی خرابیوں کو ہارمون تھراپی (Hormone Therapy) یا دیگر علاج کے ساتھ ساتھ مریض کو نفسیاتی طور پر مضبوط کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور وہ کسی حد تک نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے لیکن اگر آپ معاشرے کے اندر ایسے بیمار لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دیں گے اور باقاعدہ انہیں ماحول مہیا کریں گے یہ کہہ کر کہ ایسے لوگوں کو بھی اپنی غیر فطری خواہشات پوری کرلینی چاہیے تو اس کی مثال بالکل اسی طرح ہیں کہ آپ ایڈز (AIDS) کے مریضوں کے ساتھ ہمدردی محسوس کرتے ہوئے اسے جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیں بے شک ایک مریض کی وجہ سے کئی لوگ شکار ہوجائیں یہ کہاں کی عقل مندی ہے اور سب سے بڑی بات کہ یہ سب کسی بھی معاشرے کی تباہی کا سامان بن سکتا ہے اور بحیثیت مسلمان ہم تو شریعت کے احکامات اور قرآن سے منہ نہیں موڑ سکتے اور سائنسی طور پر بھی ہم جنس پرستی مختلف خطرناک جنسی بیماریوں کو عام کرسکتی ہے جن میں ایڈز (AIDS) عام ہے اور اس کے علاوہ دیگر کئی بیماریاں جن کا میں پہلے ہی جنسی تعلق سے پھیلنے والی بیماریوں کے آرٹیکلز میں ذکر کرچکا ہوں۔
اب چونکہ کچھ ایسے ممالک ہیں جہاں پر ان لوگوں کو مخالفت کا سامنا ہے جہاں پر ان لوگوں کو قانونی حیثیت نہیں ملی ان میں پاکستان، افغانستان، ایران، یمن، سعودی عرب، سوڈان اور اسی طرح کچھ دیگر اسلامی ممالک شامل ہیں لیکن یہاں بھی ایک خاص طبقہ ان کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کررہا ہے اگر ہم پڑوسی ملک ہندوستان کو دیکھے تو وہ بھی ہم جنس پرستی کے مواد کی تشہیر کرتے دکھائی دیتے ہیں اب یہاں پر ہمیں ایک چیز سمجھنے کی ضرورت ہے جیسے کہ برزخ ڈرامے کے مصنف نے شکوہ بھی کیا کہ مصنف کا کام معاشرے کو آئینہ دکھانا ہوتا ہے نا کہ اصلاح تو دیکھیں میں اس بات کو مانتا ہوں کہ ہمارے ہاں بھی یہ بیمار لوگ موجود ہیں ہمیں ان پر بات بھی کرنی چاہیے بالکل کرنی چاہیے لیکن ہم ان لوگوں کو یا ہم جنس پرستی کو معمول (Normalize) نہیں کرسکتے جو کہ برزخ ڈرامے میں کیا گیا اور اسی لیے اس پر ایک زبردست ردعمل آیا اور آنا بھی چاہیے برزخ کے مصنف اور اداکاروں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اور بحثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضرت لوط ؑ کی قوم محض اس لیے تباہ وبرباد ہوئی تھی کہ ان میں یہ قبیح فعل ہم جنس پرستی موجود تھیں اب آپ مسلمان ہوکر مسلمانوں کے ملک میں مسلمانوں کے اداکار ہوکر رب کائنات کے مخالف جائیں گے تو آپ کو تو ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا اب ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ رہتے آپ پاکستان میں ہیں اور کلچر آپ یورپ کا چاہتے ہوں حالانکہ کئی لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ساری چیزیں یورپ میں بھی ہیں اگر معاشرہ تباہ ہوتا تو ان کا ہوجاتا حالانکہ ان معصوم لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ وہ تباہی کے دھانے پر ہیں وہ تباہ ہوچکے ہیں سنیں “ایک رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک میں جنسی بیماری آتشک (Syphilis) انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہے گزشتہ ایک عشرے کے دوران 70% اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ سب سے زیادہ کیسز ہم جنس پرستوں میں پائے گئے ” اور ایسی دیگر بے شمار بیماریاں جن کا میں پہلے آرٹیکلز میں ذکر کرچکا ہوں جو کہ جنسی تعلق سے پھیلتی ہیں وہاں عروج پر ہیں جن میں (Gonorrhea, HIV, Hepatitis B/C, Chlamydia)وغیرہ شامل ہیں اور وہاں کی حکومتیں مختلف تدبیریں کرکے تھک چکے ہیں کہ کس طرح سے جنسی بے راہ روی کے نتائج کو روکا جائے لیکن وہاں پر اب یہ ممکن نہیں رہا زندگی رہی تو پھر کبھی اس موضوع پر بھی بات کریں گے کہ جنسی بے راہ روی سے معاشرے کیسے تباہ ہوتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں