ضرورت ہے بلاکشان محبت کی /سعید الرحمن علویؒ

سر سیداحمد خان مرحوم نے 29 دسمبر 1873ء کو لاہور میں ایک تقریر کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھےکہ :
“ہندوستان میں سب سے زیادہ عزت ہماری قوم کے ان بزرگوں اور خداپرستوں کی ہے جن کے” انفاس متبرکہ”سے ہر ایک دل کو روشنی ہوتی تھی اور سچائی اور راست بازی،نیکی و خداترسی،محبت و رحمدلی روز بروز ترقی پاتی تھی، مگر اب آنکھ اٹھا کر دیکھو کہ تمام خانقاہیں جو ایسے بزرگوں سے آباد تھیں سب ویران پڑی ہیں۔ وہ دینی شان وشوکت قوم کی جو ان بزرگوں کی ذات سے تھی کیسی ابتر اور خراب حالت میں تبدل ہوگئی”؟

مرحوم سر سید نے صدی بھر قبل جو بات کہی وہی بات رواں صدی کے معروف محدث اور ولی مولانا محمد زکریا نے کہی جو “تبلیغی نصاب”کے مؤلف کے حوالے سے خوب معروف ہیں کہ یہ ایسی کتاب ہے جو اردو میں تو لاکھوں کی تعداد میں ہر سال چھپتی ہی ہے عربی،انگریزی،فارسی وغیرہ میں اس کے لاتعداد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ مولانا سے اختلاف رکھنے والے بہت سے عزیزوں نے اسی انداز کی کتابیں تیار کرنے کی سعی کی لیکن مولوی مدنی والی بات نہ ہوسکی۔ مولانا زکریا چند سال مدینہ منورہ منتقل ہوگئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ مد ۃ العمر انہوں نے حدیث کا درس دیا۔ براعظم پاک و ہند میں ہزاروں علماء بلاواسطہ اور بلواسطہ ان کے شاگرد ہیں۔ چشتی نظامی سلسلہ تصوف کے وہ بڑے شیخ تھے۔ انہوں نے عمر عزیز کے آخری ایام میں اسی حوالے سے بڑی تگ و دو کی۔ جس کی بات سر سید نے کی تھی۔ وہ ملک ملک  پھرے اور لوگوں کو توجہ دلائی کہ ‘‘معرفت کی دوکانیں ’’ آباد کریں سونی ہوچکی ہیں کہ یہی ایک طریقہ اس قوم کی اصلاح اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی اور واپسی کا ہے۔ اگلے ہی دن ہم لاہور کے معروف خطاط سید انور حسین نفیس صاحب سے ملنے گئے۔ سید صاحب نفیس رقم کے نام سے معروف ہیں ان کی وجہ شہرت ان کا نامور خطاط ہونا ہے۔ لاہور کے عظیم اور نامور خطاط بزرگوں میں سے جو دو ایک زندہ سلامت ہیں ان میں سید صاحب کا نام بڑا اہم ہے۔ ،تاہم ایک ‘‘صوفی باصفا’’ ہونے کی ان کی حیثیت بھی بڑی اہم ہے۔ اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر خیر کا سایہ نظر آنے لگتا ہے۔ ہم نے عصر کی نماز کے بعد ان کے دسترخوان پر چائے کے بعد ‘‘ختم خواجگان’’ میں شرکت کی۔ ایک مقررہ تعداد کے مطابق درود شریف،سورہ الم نشرح اور ایک ایسی نبوی دعا پڑھی گئی جس میں رسول کریم رحمت دوعالم ﷺ کمال درجہ عبدیت اور تواضع کی شان کے ساتھ اپنے رب کے حضور عرض کرتے ہیں کہ ‘‘اے اللہ نہ تو تیرے سوا کوئی ٹھکانہ ہے اور نہ ہی کوئی جائے نجات۔ ’’ چند منٹ کا یہ عمل پورا ہوا تو سید صاحب نے چند رفقاء سمیت دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہم جیسا شخص بھی اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھ سکا۔ اس مجلس میں بھی ‘‘معرفت کی دوکانوں ’’ کے اجڑنے کی بات ہوئی اور اس بات پر شدید رنج و دکھ کا اظہار ہوا کہ وہ مراکز جہاں قوم کے سبھی چھوٹوں بڑوں کی تربیت کا سامان ہوتا تھا وہ اب دم توڑتی جارہی ہیں۔ سید صاحب نے بجا طور پر اپنے شیخ و مربی مولانا عبد القادر کا ذکر کیا جو ہمارے آبائی شہر بھیرہ کے قریب ‘‘ڈھڈیاں ’’ نامی گاؤں کے باشندے تھے لیکن اپنے شیخ اور تحریک آزادی کے ہیرو شاہ عبد الرحیم ؒ کے قدموں میں جاپڑے اور یو۔ پی کے ضلع سہارنپور کی ایک بستی ‘‘رائے پور’’ میں ساری زندگی گذاردی۔

معروف عالم مولانا سید ابوالحسن ندوی ؒ کا تعلق مولانا رائے پوری ؒ سے تھا، بلکہ ندوی صاحب نے اپنے شیخ کی سوانح بھی لکھی۔ 1947ء کے شدید ہنگاموں میں ضلع سہارنپور کے مدارس،مساجد،خانقاہوں اور مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مولانا رائے پوری کا کردار بڑا نمایاں تھا۔ انہوں نے یو۔ پی کے وزیراعلیٰ پنتھ کو اس طرح پیغام بھیجا کہ وہ مسلمانوں کوتحفظ فراہم کرنے پر مجبور ہوگیا،ساتھ ہی مولانا نے گاؤں گاؤں، پھر مسلمانوں کو حوصلہ دیا اس کے نتیجہ میں اس ضلع میں مسلمان بہت حد تک محفوظ رہے۔ مولانا کے عقیدت کیشوں میں ہر فکر کے لوگ شامل تھے کانگریسی،مسلم لیگی،جمعیتی،احراری سبھی مولانا کے عقیدت مند تھے ان کی مجلس میں حاضر ہوتے،معروف اہل حدیث عالم مولانا سید داؤد غزنوی کا بھی ان سے تعلق تھا اور ایک روایت کے مطابق ہمارے بزرگ سلفی عالم مولانا عطاء اللہ حنیف بھی مولانا سے وابستہ تھے۔ تقسیم ملک کے بعد کئی سال لاہور میں مولانا کے میزبان معروف مسلم لیگی رہنما صوفی عبد الحمید رہے۔

یہا ں سبھی لوگ آتے ’ بقول سید نفیس صاحب جو آدمی کس کام پر لگا ہوا تھا لگا رہا،حضرت بس رخ صحیح فرمادیتے،ان کا انداز تربیت ایسا حسین تھا کہ سبحان اللہ،علاقائی تعلق کے حوالے سے ان سطور کے راقم کے والد صاحب پر مولانا کی بڑی شفقت تھی۔ ہم نے بچپن میں مولانا کو خوب دیکھا،کتنی پر بہار شخصیت تھی،کیسا عجیب انداز تربیت تھا،محبت بھری گفتگو،اخلاق کی باتیں،ہر ایک سے مہر ومحبت کا برتاؤ،یہ لوگ دراصل نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذوق تربیت کے وارث تھے،انہوں نے اپنی زندگیاں حتی المقدور پیغمبراسلام ؐ کی سنت و سیرت کے مطابق گذارنے کی سعی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قدرت نے علم و معرفت کے خزانے ان پر کھول دیئے اور ان کے وجود امت کے لئے نفع بخش بن گئے۔ ان کی خانقاہیں،درسگاہ،تربیت گاہ،ہاسٹل،سرائے اور مہمان خانہ سبھی اعتبار سے پہچانی جاتیں۔ ہزاروں طالب علم زیر تعلیم ہوتے اور یہ حضرات خود بھی باقاعدہ درس دیتے اسلئے کہ ان میں سے ہر شخص سب سے پہلے عالم ربانی تھا بعد میں کچھ اور اور حضرت جنید کے بقول معرفت کے لئے علم شرط اول ہے کہ علم کے بغیر خدا شناسی کا دعویٰ سب سے بڑا فریب ہے۔ آج ان ‘‘دکا نہائے معرفت ’’کے زوال کا سبب ہی یہ ہے کہ ان میں موجود ‘‘مشائخ’’ اپنے بڑوں کے نام کی کمائی کرنا چاہتے ہیں اور بسـ،پنجاب کی خانقاہوں میں چشتی نظامی حوالے سے تونسہ سب سے بڑی خانقاہ تھی اور اس کا کتب خانہ فقید المثال تھا جو بدقسمتی سے ایک موقعہ پر صاحبزادگان کی جنگ زرگری کا شکار ہو کر برباد ہوگیا۔

ہمارے ضلع کی معروف چشتی نظامی خانقاہ سیال شریف کے پچھلے سارے شیوخ طریقت بڑے ذی علم لوگ تھے اور ان کا کتب خانہ بڑا مثالی تھا۔ اسی خانقاہ کے فیض یافتہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے تو علم کا شہرہ تھا،نقشبندی خانقاہوں میں خانقاہ سراجیہ کندیاں ضلع میانوالی سے تو ہمارا ذاتی رابطہ ہے۔ اس خانقاہ کے کتب خانہ کی تو یہ حالت ہے کہ دیوبند کے شیوخ تک یہاں تشریف لاتے اور کتب خانہ دیکھ کر دنگ رہ جاتے،آج بھی اس خانقاہ میں جاکر ایک خاص قسم کا سکون اور طمانیت حاصل ہوتی ہے۔ ،موجودہ زیب سجادہ مولانا خان محمد جید عالم ہونے کے ساتھ مجاہد انسان ہیں۔ بہت سی ملی اور دینی تحریکوں میں ان کا قائدانہ رول رہا اور جیل کے شرف سے بھی مشرف ہوئے بقول فیض
مقام فیض راہ میں کوئی جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے چلے ہم

آپ صرف برعظیم کے حالات کا جائزہ لیں تو دہلی،گلبرگہ،کلیر،گنگوہ،لاہور،ملتان اور دوسرے مقامات کی خانقاہوں نے ہماری اجتماعی زندگی کو سنوارنے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ ملتان کے مخدوم حضرات سے وقت کے بادشاہ کانپتے تھے تو اسکا سبب یہ نہیں تھا کہ ان حضرات نے آج کے بے توفیق مذہبی عناصر کی طرح لٹھ بردار فوجیں تیار کر کھی تھیں، بلکہ ان حضرات کا تعلق مع اللہ توکل،استغناء اور خدمت خلق وہ اسباب تھے جنہوں نے انہیں مرجع خلائق بنا دیا تھا اور اس وجہ سے وقت کے حکمران بھی ان کاحترام کرتے،اکبر و جہانگیر نے سرہند کے فقیر بے نوا حضرت مجدد سے ٹکر لینے کی کوشش کی لیکن دنیا جانتی ہے کہ انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ اقبال جیسے شخص نے مجدد سرہندیؒ کی قبر پر کھڑے ہوکر شعری خراج عقیدت پیش کیا۔ ہندوستان کی آزادی کے لئے اور اس کو اسلام کے عادلانہ نظام کی برکات سے مالامال کرنے کی غرض سے جو سب سے پہلی اور بڑی تحریک چلی اس کے فکری رہنماء شاہ ولی اللہ کے خانوادہ کے حضرات تھے جو ‘‘برکفے جام شریعت اور برکفے سندان عشق ’’ کے مصداق تھے تو اس تحریک کے عملی قائد حضرت سید احمد بریلوی ؒ تھے جنہیں معرفت الٰہی میں اتنا اونچا مقام حاصل تھا کہ وقت کے بڑے مشائخ ان کے قدم بقدم چلنا اپنی سعادت خیال کرتے۔

وطن کی آزادی کی ہر تحریک میں ان اکابر علماء ومشائخ کا بڑا رول ہے جو فی الحقیقت عشق ومحبت کی دنیا کے افراد تھے لیکن اب ستم یہ ہے کہ زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آگئے ہیں اورآج کے مشائخ نے جاگیرداروں،دولت مندوں اور ارباب اقتدار کی قربت کو ساری معراج سمجھ لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا سلسلہ جسے آج تصوف کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے اس کی جڑ بنیاد تزکیہ واحسان کی قرآنی اور پیغمبرانہ اصطلاحیں ہیں۔

اس حوالے سے مرحوم یوسف سلیم چشتی کی کتاب ‘‘تاریخ تصوف’’بڑی معرکہ کی کتاب ہے جسے پڑھ کر بہت سے ‘‘مخالفین تصوف’’ بھی کسی درجہ میں قائل ہوگئے کہ ‘‘جاایں است’’ رسول کریم تو دنیا کی جامع ترین شخصیت تھے ان کے بعد ان کے صحابہ میں بھی ایک بڑا طبقہ جامعیت کا حامل تھا لیکن بعد میں تقسیم کا رکے اصول کے سبب ایک مستقل خانقاہی نظام معرض وجود میں آیا اور جو خطے ان خانقاہوں سے سیراب ہوئے ا ن خطوں کی رونق آج بھی کسی نہ کسی درجہ میں اپنا رنگ دکھلارہی ہے۔ ان حضرات نے کبھی جنگ زرگری میں حصہ نہ لیا،دنیا اور دنیاوی اسباب کبھی ان کے پیش نظر نہیں رہے،صحیح عقائد کی تبلیغ،اعمال صالح کی ترویج،منکرات کے خلاف جہاد اور مخلوق کی خدمت ان حضرات کا طرہ امتیاز تھا۔ لاہور کے معروف صوفی عالم مولانا احمد علی لاہوری ؒ کے بقول قرآن کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت سے،رسول اکرم کو اطاعت سے اور مخلوق کو خدمت سے راضی کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج معاشرہ جس توڑ پھوڑ کا شکار ہے،انتشار اور فساد نے جس طرح اپنی لپیٹ میں ہمیں لے لیا ہے،اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں اور انارکی نے زندگی اجیرن کردی ہے اس کا علاج نہ حکومتی پالیسیوں سے ممکن ہے نہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریکوں سے،نہ علماء اور مشائخ کی کانفرنسوں سے،جن میں بڑے لوگ باامر مجبوری شرعی لباس پہن کر حاضر ہوتے ہیں اور مشائخ و علماء کو نوازنے کی باتیں کرتے ہیں، بلکہ اس کا علاج صاحب نظر اور صاحب دل لوگوں کو ذریعے ہوگا جو بدقسمتی سے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ اس لئے ہم یہ کہنے کی درخواست کریں گے مشائخ کی اولاد سے،علماء سے اور یاد الہٰی کا شغل رکھنے والے احباب سے کہ وہ سب سے پہلے اپنا قبلہ درست کرکے انبیاء ؑ و صدیقین کی راست بازی والی راہ اپنا کر معاشرے کی اصلاح کے لئے سربکف میدان میں اترآئیں،ہوسکتا ہے کہ اس راہ میں انہیں ماضی کے عظیم اسلاف کی طرح قید وبند کی سختیاں جھیلنا پڑیں اور شائد بالاکوٹ کی طرح کسی نئے ‘‘گنج شہیداں’’ کا اہتمام کرنا پڑے،لیکن اخلاص و خلوص کی بے کراں دولت سے جو وہ کام کریں گے اس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کریں گی،آج بہت سے لوگ پاکستان کو اولیاء کا فیضان کہتے ہیں اور دیوبندی بریلوی سبھی اپنے بزرگوں کی خدمات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں جس نے جو خدمت کی وہ سر آنکھوں پر،وہ تو کر کے چلے گئے سوال یہ ہے کہ آج والے کیا کر رہے ہیں زمانہ اسی بات کا منتظر ہے جسکی طرف سرسید نے توجہ دلائی۔    ۔
اے کاش ایسا ہو جائے؟۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply