تاریخ اندلس میں مسلم حکمرانوں کی بغاوت اور زوال ہو یادور حاضر میں فیض نیازی گٹھ جوڑ، بغاوت کی ساز باز۔ وقت بدل جاتا ہے مگرکردار نہیں بدلتے، تاریخ نہیں بدلتی، ہوس اقتدار میں بڑے بڑے چہرے مسخ ہوجاتے ہیں۔ سپین کی اسلامی تاریخ دیکھنے کے لئے مالاگا ائیرپورٹ لینڈ کیا تو سقوط بغداد، سقوط غرناطہ، سقوط دہلی اور سقوط ڈھاکا کی تاریخ نظروں کے سامنے گھومنے لگی، مسلمانوں کے زوال کا سلسلہ یوں تو بارہویں صدی عیسوی سے بیسویں صدی تک پھیلا ہوا ہے کہ چاروں ہی مختلف مسلمان حکومتوں کے زوال اور بربادی کے مظہر ہیں۔
مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کو تاریخ غدار لکھتی آئی ہے۔ لیکن پچاس برس بعد اچانک پاکستان میں ایک گروہ اسے اپنا ہیرو کہنے لگا۔ پچاس برس کی مکارانہ سیاست کے بعد جب غدار کی بیٹی بھاگ گئی تو سقوط ڈھاکہ کا غدار مزید ننگا ہوگیا۔ سقوط غرناطہ کی تاریخ کا آخری پارٹ بھی آج تک بغاوت اور غداری کا ماتم کر رہاہے۔ بغاوت اور غداری کا ظلم مسلمانوں کی تاریخ کا خاصہ رہا ہے۔ اندلس کے آخری مسلم امراِ ئے سلطنت بھی سازش میں مصروف ہو گئے تھے۔ پس پردہ مسیحیوں سے رابطے قائم کرنے لگے ان سازشی عناصر کا سر غنہ وزیر اعظم غرناطہ ابو القاسم، تھا۔
مسیحی شاہ فرنڈیڈنے غرناطہ پر قبضے کی صورت میں اس کوغرناطہ کا اہم عہدہ دینے کا وعدہ کر لیا۔ (ابو قاسم) کی غداری سقوط غرناطہ کی آخری قسط ثابت ہوئی اور مسیحی لابی مسلم سلطنت پر مکمل قابض ہوگئی۔ تاریخ اپنا آپ دہراتی رہتی ہے۔ فاتح اندلس کی شاندار تاریخ اور غداروں کی شرمناک پسپائی کی یاد تازہ کرنے کے لئے اندلس کا سفرکیااورجنوبی سپین کے شہر مالاگا ائیرپورٹ پر جااترے۔ اگست کے آخری دنوں کی شدید گرمی میں مالاگا کے ساحلی علاقے میں قیام کیا۔ جنرل طارق بن زیاد کی یاد نے گرمی کی شدت کا احساس ہی مٹا دیا۔
طارق بن زیاد بَربَر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلم سپہ سالار اور بَنو اْمیّہ کے جرنیل تھے، جنہوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اْموی صوبے کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے، جنہوں نے ہسپانیہ میں وزی گوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔
طارق بن زیاد نے مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے عظیم علاقے اسپین کو فتح کیا اور یہاں دینِ اسلام کاعَلم بلند کیا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پراسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے، جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔ طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کی زیر نگرانی ہوئی تھی، جو ایک ماہرِِ حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔ اسی لیے طارق بن زیاد نے فن سپہ گری میں جلدہی شہرت حاصل کرلی۔ ہرطرف اْن کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔
طارق بن زیاد بن عبداللہ نہ صرف دْنیاکے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے بلکہ وہ متّقی، فرض شناس اور بلندہمت انسان بھی تھے۔ اْن کے حْسنِ اَخلاق کی وجہ سے عوام اور سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ افریقا کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوّت سے خطرہ لاحق تھا، جب کہ اندلس کے عوام کا مطالبہ بھی تھا۔ اسی لیے گورنر موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکام کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض مؤرخین کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دے کر اْنہیں ہسپانیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔
اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اْترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے، جو بعد میں طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلایا۔ طارق بن زیاد نے جنگ کے لیے محفوظ جگہ منتخب کی۔ اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اورکہا کہ ہمارے سامنے دشمن اورپیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل اْنہوں نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بددِل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اس صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دیں یا اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردیں۔ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔
7 ہزار کے مختصراسلامی لشکرنے پیش قدمی کی اور عیسائی حاکم کے ایک لاکھ کے لشکر کاسامناکیا، گھمسان کا رَن پڑا، آخر کار دشمن فوج کو شکست ہوئی اورشہنشاہ راڈرک ماراگیا، بعض روایتوں کے مطابق وہ بھاگ نکلاتھا، جس کے انجام کا پتا نہ چل سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی۔ فتح کے بعد طارق بن زیادنے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ طارق بن زیاد کو ہسپانیہ کا گورنر بنادیا گیا۔
طارق بن زیاد کی فتح کی خبر سْن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اورخود طارق بن زیاد سے آملے۔ دونوں نے مل کر مزیدکئی علاقے فتح کیے۔ اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوالیا اور یوں طارق بن زیادہ کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا جب کہ اسلامی دْنیا کے اس عظیم فاتح نے 720ء وفات پائی۔ انھوں نے اموی خلافت کی خدمت کی اور اسپین اور پرتگال پر مسلم اموی فتح کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی فوجوں کو اس مقام پر مستحکم کیا جسے آج جبرالٹر کی چٹان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جاری ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں