ہنری وان ڈائک نے کہا تھا کہ : ”وقت ، انتظار میں سُست ، خوف میں تیز ، غم میں طویل ، مسرت میں مختصر اور محبت کے لیے ابدی ہے“۔ لیکن وہ رات ہمارے لیے ساری فرصتیں سمیٹ لائی تھی۔ ہمارا پہلا سوال تھا کہ ”اتنی مدت کیسے گزری ؟“ وہی لفظی کفایت عود کر آئی ، اور بولیں : ”جیسی روزہ دار پر گُزرتی ہے۔“ وہ بلیغ و رفیع جواب ان کی ساری میسر عمر کا خلاصہ تھا جسے سن کر ہمیں بہت رشک آیا اور خود پر تاسف بھی کہ خود برسوں ہزاروں کاغذ سیاہ کرنے کے باوجود ایسا اظہاری اختصار نصیب نہ ہو سکا تھا۔
اور پھر ہم دونوں بھول ہی گئے کہ وہ رات زندگی بھر کی راتوں سے الگ ہے ، دونوں حجلہ عروسی کے دروازے کو چوپٹ چھوڑ کر گھر سے قریب کلس نامی گورستان سے ذرے دریڈے ایک چٹان کی کھنگر پر جا کر بیٹھ گئے ، پچھلے پہر کی نکھری چاندنی بکھری ہوئی تھی اور نشیب میں پگوڈا نما کھیتوں سے آگے ندی میں آبی چاندی بہہ رہی تھی ، سامنے حد نظر تک فراز کی طرف بڑھتے جنگل کی وسیع ڈھلوان تھی۔ سناٹا نہیں تھا ، اس لیے کہ ہم دونوں کی گفتگو جو تھی۔ سب کچھ ہی مذکور تھا۔ ہم نے گزشتہ ساری محبتوں کے تسلسل کا موازنہ کیا تو محترمہ کا پلڑہ وزنی نکلا۔ فجر کی اذان کا پہلا کلمہ گونجا تو ہم اٹھے اور کمرے میں لوٹ آۓ۔ انھوں نے وضو کیا اور ہمیں بھی نماز کی صلح ماری۔ ان دنوں مگر ہم اچھے خاصے دہریے تھے تاہم اتنا ضرور کیا کہ میز پر سے جاء نماز اٹھا کر ان کے لیے زمیں پر قبلہ رخ بِچھا دی۔
ہم شادی سے پہلے ہی ٹیکسلا کی ایک کالونی میں کراۓ کا تین کمروں پر مشتمل ایک مکان لے چکے تھے۔ ہفتہ بھر بعد بیگم کے جہیز میں کچھ ضروری گھریلو آئٹمز کے ساتھ ہم گاؤں سے اس میں منتقل ہو گئے۔ دو تین دن میں والد صاحب اور ماں جی بھی جائزہ لینے آ پہنچے۔ شادی سے قبل ہمارے سسر اور والد صاحب میں کافی گرمی سردی ہوتی رہی تھی۔ دونوں ہی اپنے اپنے اصولوں اور ضد کے پکے تھے۔ ایک بار تو باقاعدہ دونوں یہ رشتہ ہی ختم کرنے پر تُل گئے تھے۔ اس چنگاری کو بھڑکانے میں بہت سے بدخواہوں نے بھی اپنی سی کوشش کی لیکن جنھیں اللہ بیاہے ، انھیں کون محروم کر سکتا ہے۔ لہذا اس باہمی انا پسندی کی بدولت ہمارا ولیمہ جو کہ کراچی میں ہونا طے تھا ، وہ نہ ہو پایا۔ جہیز میں بجلی پہ چلنے والے متعدد گھریلو اپلائنسز تک جانجیوں کے حوالے کیے حالانکہ گاؤں میں بجلی کی سہولت تھی ہی نہیں۔ اس سارے سامان کو گاؤں سے ڈھو کر ٹیکسلا پہنچانا اس لیے محال تھا کہ گاؤں کو شہر سے ملانے والی سڑک نے ابھی جنم ہی نہیں لیا تھا اور اگر بالفرض ایسا ہوتا تب بھی کراۓ کی مد میں دگنا خرچہ اٹھتا۔ فضول کی ضد بازی اور بیکار کی رسموں کی پاسداری میں ہماری ساری جمع پونجی اڑ گئی ۔ والد صاحب نے ناکافی سہولتیں دیکھیں تو بولے : ”اس طرح کیسے گزارہ کرو گے دونوں؟“
ہم نے کہا : ”یہ سوچنا ہمارا نہیں بلکہ آپ اور خالو صاحب کا کام ہے۔“
لاجواب ہو گئے اور کھسیانی سی ہنسی ہنس کر شلوکے کی جیب میں ہاتھ ڈال ، دس دس ہزار کی دو گڈیاں اپنی بہو کی طرف بڑھا دیں۔
اچھا اس سے قبل ایک بات رہ گئی کہ جب ہم ٹیکسلا اپنے ٹھکانے پر پہنچے تو بارش کی جھڑی لگی ہوئی تھی اور بجلی بھی غائب۔ قریبی واحد ہوٹل بند ہو چکا تھا۔ ماں جی نے ہمیں بتائے بغیر سامان میں گھی ، چینی ، پتی ، دالیں، چاول اور دیگر اشیاء تھوڑی تھوڑی مقدار میں رکھ دی تھیں جن کا انکشاف سامان کھولتے وقت ہوا۔ ہم نے بیگم کو ٹارچ تھمائی ۔ نیچے گلی میں اترے تو ایک سبزی فروش اور کریانے کی دکان کھلی دکھائی دی۔ کریانہ والے سے کچھ خریداری کے بعد سبزی لی اور گھر پہنچے تو بیگم صاحبہ سے زوردار ٹکر ہوئی ۔ وہ ٹارچ خراب کرنے کے بعد زینے پر اندھیرے میں کھڑی لرز رہی تھیں۔ ہم دونوں اپنے اپنے سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئے ۔ اسی دوران اچانک سارا گھر روشنی میں نہا سا گیا۔ بجلی آ گئی تھی۔
اگلے ایک گھنٹے میں باہمی جدوجہد کے بعد سبزی پلاؤ اور سبز قہوے سے ہم دونوں اپنی خاطر سیوا کر چکے تھے۔
جاری ہے
Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں