کل میں نے اپنی ہمّت کے مطابق پاکستان کے بنیادی مسئلے پر بات کا آغاز کیا۔ یہ میرے تازہ مضامین کا ایک سلسلہ ہے جو کئی روز تک جاری رہ سکتاہے۔ کل کے مقدمے میں ہم نے کچھ بنیادی سوالات اٹھائے تھے۔ جن کے نتیجے میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری حالت اس مسافر کی طرح ہے جسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اسے جانا کہاں ہے؟ اور اس لاعلمی کا سب سے بڑا سبب ہم نے یہ اخذکیاتھا کہ دراصل اس مسافر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ آیا کہاں سے ہے۔ یعنی اگر اسے یہ پتہ چل جائے کہ وہ آیا کہاں سے ہے تو اس کے لیے یہ طے کرنا مشکل نہ ہوگا کہ اسے جانا کہاں ہے؟ بالفاظ دیگر ہم ابھی تک اپنی شناخت کے بنیادی مسئلے کو ہی حل نہیں کرپائے۔
لیکن یہ سوال کہ ہمیں آخر آج تک یہ معلوم کیوں نہ ہوسکا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور ہماری شناخت کیا ہے، یا یہ کہ ہم پاکستانی پہلے ہیں، یا مسلمان پہلے ہیں، یا کچھ اور یعنی پنجابی ، سندھی، پٹھان، بلوچ وغیرہ پہلے ہیں یا دیوبندی، بریلوی ، شیعہ ، سنی وغیرہ پہلے ہیں؟ یہ سوال ہی اصل میں سب سے اہم ہے۔ اورپھر ہم نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ ہمیں دانستہ یا نادانستہ ہماری حقیقی بنیاد سے ناواقف رکھاگیا۔ ہمیں ایک خاص قسم کا مطالعۂ پاکستان پڑھایا گیا، جس میں چنیدہ موضوعات اختیارکیے گئے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کی ایک مخصوص ڈائریکشن رہے۔ حالانکہ قوموں کو تیار کرنے کا یہ، نہ کوئی طریقہ تھا اور نہ ہی اس سے کسی قسم کے اخلاصِ نیّت کا اظہارہوتا ہے۔
نوم چومسکی سے ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ اگر کسی قوم کو اس کی صحیح تاریخ نہ پڑھائی جائے، بلکہ انہیں اُن کی تاریخ کے چُنیدہ(selective) حصے پڑھائے جائیں تو اس سے کیا نقصان ہوگا؟
نوم چومسکی نے جواب دیا کہ اس سے افرادِ قوم میں احمقانہ قسم کا احساسِ برتری پیداہوجائےگا۔ پھر اس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ، مثلاً امریکہ میں لوگ دیکھتے ہیں کہ سیاہ فام یعنی بلیک امریکیوں کی مالی اورسماجی حالت گوروں کے مقابلے میں خاصی کمزورہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ گورے یہ سمجھتے ہیں کہ کالوں کی یہ حالت اُن کی اپنی وجہ سے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کالوں کے ڈی این اے میں کوئی مسئلہ ہے، یعنی وہ پیدائشی طورپر ہی نااہل ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ صرف وہ امریکی جو اپنی تاریخ کے شرمناک کاموں کا بھی مطالعہ رکھتے ہیں، صرف وہی جانتے ہیں کہ دراصل کالوں کو تو ہم خود غلام بنا کر لائے تھے اور کئی صدیوں تک ہم نے ان پر بے پناہ مظالم روارکھے۔ اور اِس وجہ سے وہ ترقی میں ہم سے پیچھے ہیں۔
چنانچہ جب ہمیں وہ مطالعہ پاکستان پڑھایا گیا جس کے ساتھ اس خطے کی تاریخ کاکوئی تعلق ہی نہیں تھا تو ہم بھی اپنی حقیقی شناخت کھوبیٹھے۔شاید ہی دنیا کی کسی قوم نے ایسا کیا ہو کہ ان کے خطوں کوجن باہر سے آنے والے حملہ آوروں نے فتح کیا، وہ آخر میں انہی حملہ آوروں کو اپنا ہیرو ماننے لگے۔ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ قومیں ہمیشہ اپنے اوپر حملے کرنے والوں کو بُرے ناموں سے یادکرتی ہیں۔ لیکن ہم نے ایسا نہ کیا۔ صرف یہی نہیں ہم نے اپنے بچوں کو اس خطے کی تاریخ بتانا گواراہی نہیں کیا جہاں کی مٹی سے اُن کا خمیر اُٹھاتھا۔ ہم نےکبھی اُنہیں یہ نہیں پڑھایا کہ کلرکہار کے پاس کٹاس راج مندر ہے جو شری کرشنا نے خود تعمیر کیا تھا اور کرشنا یہاں کئی سال تک مقیم رہے تھے اور یہ کہ مہابھارت میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ ہم نے انہیں یہ بھی نہیں بتایا کہ پشاورسے اُنتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ، پُش کالا وتی کے گاؤں میں بابائے لسانیات پانینی کی پیدائش ہوئی اور یہ کہ آج دنیا بھر میں جو لسانیات پڑھائی جاتی ہے اس کا اصل بانی پشاور کے قریب پیدا ہوا۔ نہ ہی یہ بتایا کہ ’’یوگا کا علم‘‘ جسے آج ساری دنیا نے اختیار کررکھاہے، پشاورکے نواح میں بسنے والے پتن جلی نے دریافت کیا اور اس کے سب سے اہم طریقے آج بھی وہی ہیں جو پتن جلی نے لکھے۔ ہم نے اپنے بچوں کو یہ بھی نہیں بتایا کہ اسلام آباد سے جہلم تک کا جو علاقہ ہے یہاں راجہ پورس نامی ہمارا ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اوریونان کے سکندرِ اعظم نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو راجہ پورس نے اپنے ہاتھیوں کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا تھا۔ اوریہ کہ شہر جہلم کا نام جہلم اس لیے ہے کیونکہ جہلم یونانی زبان کا لفظ ہے اور یہ سکندرِ اعظم کے گھوڑے کا نام تھا، جو آج بھی اسی مقام پر دفن ہے جسے ہم جہلم کہتے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو یہ بھی نہیں بتایا کہ کھیوڑہ میں ہماری نمک کی کان بھی سکندراعظم کے گھوڑوں نے دریافت کی تھی۔
میں آنے والی قسطوں میں اپنے جدیدوقدیم ماضی سے بے شمار ایسی مثالیں پیش کرونگا جو ہمارے بچوں نے آج تک نہیں سنی۔ سلسلۂ مضامین کا یہ حصہ جو میں آج آپ کے سامنے پیش کررہاہوں یہ ذرا مختلف ہے۔ کل کے مضمون کے آخر میں ہم نے یہ طے کرلیاتھا کہ ہم اپنی شناخت کی دریافت کے سفر پر نکلے ہیں تو اب ہم تاریخ میں اندھی چھلانگیں نہیں مارینگے، بلکہ ایک ایک قدم پیچھے جاکر اپنی حقیقی شناخت کو ڈھونڈنے کی کوشش کرینگے۔ تاہم میں آج اپنے قارئین کے ساتھ ایک وعدہ نہایت خلوصِ دل کے ساتھ کرنا چاہتاہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ اس تحقیق کے دوران مجھے کسی قسم کی جانبداری سے مکمل طورپر پرہیز کرناہے۔ میں اقبال کو بہت پسند کرتاہوں لیکن اس تحقیق کے دوران میں اپنی پسند ناپسند کو ایک سائیڈ پر رکھ دیناچاہتاہوں۔ میں آپ کے ساتھ ہی ایک ایک قدم پیچھے جاؤں گا اور اس وقت تک جاتا رہوں گا جب تک ہم اپنی حقیقی شناخت کو دریافت نہیں کرلیتے۔ میں کہیں بھی بے ایمانی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔انشااللہ العزیز۔
چنانچہ آج کے اس مضمون میں ہم صرف ایک قدم پیچھے جاکر دیکھیں گے کہ پاکستان بننے سے پہلے ہم کون تھے؟ ہم ایسا اس لیے کرینگے تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ پاکستان بننے کے بعد ہمیں ’’کون‘‘ ہونا چاہیے؟ آج کے مضمون میں ہم صرف ایک قدم پیچھے جارہے ہیں، یعنی پاکستان بننے سے فوری ماقبل۔ اور یہ وہ وقت ہے جب علامہ اقبال اپنی زندگی کے آخری دن گزاررہے تھے۔ یہ عہد اس لیے نہایت اہم ہے کہ کیونکہ مسلم قومیت کے حوالے سے ہندوستان میں ہونے والے مباحث اسی عہد میں سب سے زیادہ عروج پرتھے۔ تاہم آج کا مضمون میں درج ذیل الفاظ سے شروع کرنا چاہتاہوں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بن جانے کے بعد بھی ’’قوم مذہب سے ہے‘‘ کا نظریہ قائم رکھا جا سکتا تھا؟ کیونکہ جب اقبال اس نظریے کو پورے جوش و جذبے کے ساتھ پیش کررہے تھے تو ابھی پاکستان کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اقبال کے سامنے صرف ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلۂ قومیت تھا۔ کانگریس سے منسلک مسلمان علمأ خصوصاً مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کا مؤقف یہ تھا کہ قومیت مذہب سے نہیں ہوتی، بلکہ وطن سے ہوتی ہے، بالفاظ ِ دیگر وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہماری قومیت ہندوستانی ہے نہ کہ مسلمان۔ مولانا حسین احمد مدنی نے دلی کے ایک اجتماع میں جب اسی نظریہ کا اعادہ کیا اور کہا کہ،
’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘
تو علامہ اقبال اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی کا نام لے کر مندرجہ ذیل اشعارکہے،
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں، ورنہ
ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سرِ منبر کہ مِلّت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
ان اشعار کا اردومیں مفہوم کچھ یوں ہے کہ ، عجم(یعنی اہلِ ہند) کو ابھی تک دین کے رموز کا علم نہیں ہے کیونکہ مولانا حسین احمد مدنی جو دیوبند کے عالم ہیں، انہوں نے منبر پر بیٹھ کر یہ کہا ہے کہ ’’ملتیں وطن سے بنتی ہیں‘‘،یہ تو مقامِ محمدعربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بے خبری کا ثبوت ہے۔ دین وہی ہے جو آپ کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک پہنچائے۔ اگر آپ وہاں تک نہیں پہنچ پاتے تو پھر باقی سب ابولہب کا راستہ ہے، دِین کا نہیں۔
ان اشعار کی شہرت ہوئی تو طالوت نامی ایک شخص نے مولانا حسین احمدمدنی سے ایک خط کے ذریعے وضاحت مانگی۔ مولانا مدنی نے جو جواب دیا، وہی جواب طالوت نے علامہ اقبال کو بھیجا اور یوں ایک بحث شروع ہوئی جسے ہماری تاریخ میں ’’معرکۂ دین وطن‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے۔ یہ بحث بھی اگرچہ مطالعہ پاکستان کا اصولی طورپر حصہ ہونا چاہیے تھی، لیکن ہمیں نہیں پڑھائی جاتی۔ مولانا مدنی نے جو مؤقف اختیار کیا وہ درج ذیل تھا،
قرانِ کریم میں قوم، ملت، اور اُمت، تین اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں۔ قران کے مطابق ’’قوم‘‘ ایک علاقائی تصور ہے اور اس کا تعلق آپ کے خطۂ زمین، کلچر اور علاقے کے ساتھ ہے۔ مولانا نے قرانی آیات سے مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھا کہ قومِ لوطؑ، قومِ ابراہیمؑ، قومِ نوحؑ، قوم ھودؑاورقوم صالِحؑ کی اصطلاحات قران میں علاقائی اقوام کے لیے الگ الگ استعمال ہوئی ہیں۔ان انبیا کی اقوام علاقائی تھیں، نہ کہ عالمگیر۔ اس کے بعد مولانا مدنی نے لفظ’’ملّت‘‘ کی مثالیں دیں اور کہا قران کے مطابق ملّت مذہب سے ہوتی ہے، جیسا کہ قران میں ملّتَ ابراہیم َ حنیفا کی اصطلاح استعمال ہوئی یا حدیث میں ’’الکفر ملت واحدہ‘‘ یعنی کفر ایک ملت ہے کے الفاظ آئے ہیں، سو اس لیے ملت تو پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہم بنارہے ہیں، لیکن بطورقوم ہم ہندوستانی ہی ہیں۔ پھر مولانا نے لکھا کہ اُمت پوری انسانیت کو کہتے ہیں ، جیسا کہ قران میں آیا، کان الناس الااُمۃً واحدہ، یعنی تمام انسان ایک اُمت ہیں۔
اقبال نے ان وضاحتوں کو قبول نہ کیا اور لکھا کہ ’’الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا‘‘۔ اقبال نے کہا ہندوستانی مسلمان صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے الگ قوم ہیں اورہرلحاظ سے یہ ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ ان کی زبان، ثقافت، لباس، رہن سہن، تہذیب و تمدن ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی ہندوؤں سے جُدا ہے۔ اگر قوم ، زبان، کلچر اوررسم و روایات سے بنتی ہے تو پھر ہندوستان میں رہتےہوئے مسلمان ہندوؤں سے اس قدر مختلف کیوں ہیں؟ اس ’’کیوں‘‘ کا جواب نہایت واضح ہے کہ وہ مسلمان ہیں اس لیے ہندوؤں سے الگ ہیں۔
معرکۂ دین و وطن ایک علمی مباحثہ تھا جو اقبال کی وفات تک جاری رہا اور دونوں طرف کے لوگ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی بالآخر خاموش ہوگئے۔ اگر اس علمی مناقشے کا کوئی نتیجہ پاکستان بننے سے پہلے نکل آیا ہوتا تو پاکستان بننے کے بعد جن طاقتوں نے اس بحث سے ناجائز فوائد اٹھانے کی کوشش کی وہ کامیاب نہ ہوپاتے۔ لیکن چونکہ یہ بحث بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئی تھی اس لیے پاکستان بننے کے بعد بھی دونوں طبقات بدستور موجود رہے۔ اوران دونوں طبقات کے وجود کے ساتھ یہ مسئلہ بھی مسلسل موجود رہا کہ آیا ہم پاکستان کی سرزمین کے باشندے ہونے کی وجہ سے پاکستانی ہیں یا مسلمان ہونے کی وجہ سے ہماری قوم مسلمان ہے؟
اقبال کی وفات پاکستان بننے سے نوسال پہلے ہوگئی تھی۔ اقبال اگر زندہ ہوتے تو یقیناً پاکستان بننے کے بعد نظریۂ قومیت نے ایک نئی شکل اختیار کرلی ہوتی۔ کیونکہ پاکستان بننے کے بعد اس خیال کی بنا پر کہ قوم مذہب سے ہے، ایک طبقہ پاکستان کو دنیا بھر میں اسلام کا واحد قلعہ مانتے ہوئے خلافتِ اسلامیہ کی بحالی کی تحریک پر گامزن ہوگیا اور بالآخر جنرل ضیالحق کے مارشل لا کے وقت اس طبقے نے باقاعدہ نعرہ لگایا کہ ضیالحق کا مارش لأ دراصل خلافت کی بحالی کی ہی ایک شکل ہے۔ انہوں نے ضیالحق کو اقبال کا مردِ مؤمن قراردے دیا۔ یوں گویا بالآخر اسّی کی دہائی میں پاکستان ایک جمہوری ریاست کی بجائے ایک مذہبی یعنی تھیوکریٹ ریاست میں تبدیل ہوگیا۔
حالانکہ اقبال ہندوستانی مسلمانوں کو بطورقوم ، ہندوؤں سے جُدا دیکھنے کے لیے اس نظریہ کا پرچار کررہے تھے۔ اور اس بات کا اور کسی کو نہیں تو قائدِ اعظم کو پوری طرح علم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قائدِ اعظم نے پاکستان بننے کے فوراً بعد اپنے نظریۂ قومیت میں کوریکشن(correction) کرنا کو لازمی سمجھا اور فرمایا کہ، ’’اب پاکستان بن چکاہے۔ یہاں نہ کوئی ہندو، سکھ، عیسائی ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔‘‘۔ اس خیال کا اظہار قائدِ اعظم نے دیگر مواقع پر بھی کیا اور اپنے عمل سے بھی متعدد مواقع پر ثابت کیا کہ پاکستان بطوروطن ہرمذہب سے تعلق رکھنے والے کے لیے برابر ہے۔
اقبال کی کوشش تھی کہ ہندوستانی مسلمان قومیت اور نیشن سٹیٹ کے اس تازہ غلغلے کی زد میں آکر، کہ جو پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا اور عیسائیت کا خاتمہ کرچکاتھا، کہیں اپنے عظیم تہذیبی سرمائے کو کھو نہ دیں۔ اقبال یورپ میں نیشن سٹیٹ کے جن کو بوتل سے نکلتاہوا دیکھ چکے تھے۔ اور اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ قومیت کا یہ نظریہ جس کی بنا وطن پر ہے، کس حد تک خطرناک ہوسکتاہے۔ انہوں نے اسی نظریے کی بنا پر اہلِ یورپ کے لیے یہ پیش گوئی بھی کردی تھی کہ،
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا
اور پھر اقبال کی پیش گوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی۔ اقبال نے یہ پیش گوئی 1907 میں تھی، جس کے ٹھیک سات سال بعد یورپ میں پہلی جنگِ عظیم ہوئی ، جس کے نتیجے میں ڈیڑھ کروڑ انسان مارے گئے۔ پھر یہ جنگ بند ہوئی بھی تو عارضی طورپر۔ 1940 میں یہ جنگ دوبارہ شروع ہوگئی اور اس بار اس نے چھ کروڑ انسانوں کی جان لی اور ساٹھ فیصد یورپ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں انسان، زمین کی تاریخ میں کبھی، قتل نہ کیے گئے تھے۔
اقبال کا یہ مؤقف تھا کہ چونکہ اہلِ یورپ نے عیسائی مذہب کے جھنڈے کو خیر باد کہہ دیا ہے اور وطنی قومیت کے اپنے الگ الگ جھنڈے اٹھالیے ہیں اس لیے اب ممکن نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رواداری کے ساتھ رہ سکیں۔ اورپھر جب اہلِ یورپ نے بھی اسی نکتے کو سمجھ لیا تو وہ دوبارہ جمع ہوئے اور اس بار عیسائیت کا جھنڈا تو نہیں تھا ان کے پاس، لیکن انہوں نے پھر بھی اتحاد کو ہی ترجیح دی اور اقوامِ متحدہ کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوگئے۔
الغرض اقبال جب ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے اس خیال کا اظہار کررہے تھے کہ،
بِنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے
یعنی ہم مسلمانوں کی قومیت وطن کی بِنا پر نہیں بلکہ مذہب کی بنا پر ہے، تو اس وقت ہمارے پاس کوئی الگ وطن نہیں تھا۔ میں اگلی قسط میں اقبال کا یہودی مذہب اور قومیت کے حوالے سے ایک نہایت اہم حوالہ پیش کرکے یہی دکھاؤنگا کہ اقبال ہندوستان کے مسلمانوں کو جرمنی میں مقیم یہودیوں کی طرح ہی بے گھر سمجھتے تھے۔چنانچہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ گھر مل جانے کے بعد یا پاکستان بن چُکنے کے بعد بھی، اقبال یہاں ہوتے اورپھر بھی یہ اعلان کرتے کہ،
بِنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے
کیونکہ اگر پاکستان بن جانے کے بعد بھی اقبال کا یہی اعلان ہوتا تو پاکستان بطوروطن کس طرح قائم رہ سکتاتھا؟

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں