سورج کا ساتواں گھوڑا/راجہ قاسم محمود

ہندوستان سے تعلق رکھنے والے دھرم ویر بھارتی ہندی کے کہانی کار، ناول نگار اور شاعر ہیں۔ وہ صحافت سے منسلک رہے ۱۹۷۱ کی پاک بھارت جنگ کو بطور فیلڈ رپورٹر کے کور کیا۔ “سورج کا ساتواں گھوڑا” دھرم ویر بھارتی کا ہندی ناول ہے جس کا اُردو ترجمہ ارجمند آراء نے کیا ہے۔ اس کو پاکستان میں عکس پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔
اس ناول میں سات کہانیاں ہیں جن میں سے ہر دوسری کہانی کا پہلی سے تعلق ہوتا ہے۔ یوں یہ سات کہانیاں ملکر ناول بنتی ہیں۔بھارتی نے اس کی ساخت کو بہت سادہ رکھا ہے اور بظاہر سادہ اسلوب میں کہانی کو بیان کیا گیا ہے بلکہ ایک مبصر کے بقول یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہانی بہت آرام سے مزے لے لے کر کہی جاتی تھی اور سب کام فرصت سے ہوتے تھے۔
ناول کی یہ کہانیاں ایک شخص مانک ملا کی زبانی بیان ہوئی ہیں۔ مانک ملا ایک دلچسپ کردار تو ہے ہی اس کا نام بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ قاری شش و پنج کا شکار رہتا ہے کہ یہ کردار مسلمان ہے یا پھر ہندو۔ مصنف نے کتاب کے مقدمے میں مانک ملا کا تعارف کروایا ہے اور بتایا ہے کہ ملا ان کی کنیت نہیں بلکہ ذات تھی اور یہ کشمیری تھے کئی پشتوں سے وہ ہندوستان میں بسے ہوئے تھے۔ وہ اپنے بھائی اور بھابھی کے ساتھ رہتے تھے بعد میں بھائی اور بھابھی کا تبادلہ ہوا تو وہ اکیلے رہتے مگر ان کے گھر محفل جمی رہتی تھی۔ محلے کے لوگ ان کو استاد مانتے۔ وہ اکثر اپنے تجربات سے لوگوں کے علم میں اضافہ کرتے۔ وہ اپنے ہاں آنے والوں کی جاڑوں میں مونگ پھلی اور گرمیوں میں خربوزے سے تواضع کرتے۔ ان کے کمرے میں کتابوں کا نام نشان تو نہیں تھا مگر کچھ عجیب عجیب سی چیزیں موجود تھیں مثلاً دیوار پر پرانے کالے فریم میں ایک فوٹو جڑا ہوا ٹنگا تھا ‘کھاؤ بدن بناؤ’, ایک طاق میں کالے دستے کا بڑا سا خوبصورت چاقو رکھا تھا ،ایک کونے میں گھوڑے کی پرانی نعل پڑی تھی۔ اس طرح کی کتنی ہی عجیب و غریب چیزیں وہاں تھیں جس کا جواز وہ جانے والے نہیں سمجھ پاتے مگر کہانیوں کے عنوانات کو دیکھا جائے تو ان چیزوں سے ربط قائم ہوتا ہے۔
مانک ملا کے علاوہ اس ناول کے اور بھی کئی کردار ہیں مگر مرکزی کردار مانک ملا کے علاوہ جمنا ، للی اور ستی نام کی لڑکیاں ہیں۔ ان تینوں لڑکیوں کے ساتھ مانک ملا کی دوستی رہی تھی مگر مانک ملا کبھی کھل کر اپنی پسندیدگی کا اظہار نہیں کر سکے۔ مانک ملا کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو وقت آنے پر کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے مگر بعد میں ان کے لیے پچھتاوے کا سوا کچھ نہیں بچتا۔
جمنا کا تعلق متوسط طبقے مگر بڑی ذات سے ہے۔ اس کو اپنے محلے دار تنا پسند ہے مگر جمنا کے والدین تنا کا رشتہ اس وجہ سے مسترد کر دیتے ہیں کہ تنا کم ذات کا ہے۔ تنا اپنے باپ مہسیر دلال کے برعکس اجلے کردار کا مالک ہے جس کی شرافت کی گواہی سب دیتے ہیں جبکہ مہسیر دلال ایک عجیب کردار ہے۔پیسے کے لحاظ سے وہ ٹھیک ہے مگر اس کی ذاتی زندگی نشیب و فراز میں گزرتی ہے۔ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ کی بیوی جلد ہی گزر جاتی ہے پھر وہ ایک اور عورت کو گھر لاتا ہے جس کا وہ شروع میں اسیر ہو کر اپنے ہی بیٹے تنا کو مارتا پیٹتا بھی ہے مگر جلد ہی عشق کا بخار اترتا ہے تو وہ عورت جہاں سے آتی ہے وہیں چلی جاتی ہے۔ پھر اس کی زندگی میں ستی آتی ہے
ستی انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جبکہ للی جو بعد میں تنا کی بیوی بنتی ہے کا تعلق اپر مڈل کلاس سے ہے۔ بھارتی نے للی ، ستی اور جمنا کے کرداروں میں ان کی طبقاتی تقسیم اور ان کے سوچنے کے مختلف انداز کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
بھارتی خود مارکسسٹ تھے۔ ان کے مارکسی نظریات کو ناول میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ ناول ۱۹۵۲ میں لکھا گیا اس وقت مارکسی اور کیمونزم کی کافی مقبولیت تھی۔ بھارتی نے بتایا ہے کہ نچلے اور متوسط طبقے میں محبت کا اقتصادیات کا کتنا گہرا تعلق ہے۔ بعد میں آگے وضاحت کی ہے کہ ایسا نہیں کہ اس طبقے میں مکمل طور پر رشتوں کا تعلق اقتصادیات پر ہوتا ہے بلکہ رسم و رواج اور زمانے کی ریت کے آگے بھی یہ لوگ ایسے بے بس ہوتے ہیں کہ اس کو قائم رکھنے کا بوجھ ان پر ہوتا ہے۔
مارکسزم اور کیمونزم کے ماننے والوں کے درمیان آپس میں بھی کافی تفریق پائی جاتی ہے۔ اس پر بھی ویر نے لکھا کہ مارکسی نظریات کی جو تشریح برصغیر کے شارحین نے کی ہے اس نے مارکسزم کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ انہوں نے ایسی تشریح کی ہے جو کارل مارکس کے وہم و گمان میں نہیں تھی۔
والدین اور بچوں کے تعلقات کی تلخیوں کو بھی اس ناول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں نظر آتا ہے کہ اولاد کی نافرمانیوں کے پیچھے والدین کی اپنی خود غرضیوں اور غلط فیصلوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جمنا کے والدین جمنا کی پسند کو اپنی ناک اونچا رکھنے کے لیے کوئی اہمیت نہیں دیتے مگر بعد میں جب جمنا کا باپ مشکل میں آتا ہے تو جمنا پیسے ہونے کے باوجود مدد نہیں کرتی کیونکہ اس کی والدین کے ساتھ کوئی اچھی یادیں نہیں ہوتیں تو دوسری بات جو یہاں پر مصنف نے عورت کی نفسیات کو بھی بیان کیا کہ اس کا پہلا رشتہ جو کے وہ نبھاتی ہے وہ ماں کا ہوتا ہے، باقی رشتے اس کے بعد آتے ہیں۔
کتاب کے پہلے چھے ابواب میں تعلقات کی ناکامی اور معاشرتی جبر کو موضوع بنایا گیا ہے مگر ساتواں باب امید و رجا کا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ سماجی ناہمواریوں ،طبقاتی تقسیم اور معاشرتی جبر کے باوجود متوسط اور غریب طبقات اپنے جینے کی امنگ کو نہیں چھوڑتے۔ وہ ان مشکلات کے باوجود اپنے لیے خوشی کے مواقع تلاش کرتے ہیں اور اس مایوسی کے ماحول میں بھی امید کی کرن تلاش کرتے ہیں جو کہ ان کے روشن مستقبل کی راہیں کھولی گی. یہ مجموعی طور پر انسانی فطرت بھی ہے کہ وہ شدید نامساعد حالات میں بھی اپنے لیے کوئی امکانات پیدا کرتا ہے۔ اندھیرے میں سے روشنی تلاش کرنے کا یہ کامیاب انسانی سفر شاید ابتداء سے جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا مگر مصنف کا مخاطب چونکہ نچلا طبقہ ہے جس کے لیے یہ اندھیرے طویل بھی ہوتے ہیں مگر وہ پھر بھی اپنی روشنی تلاش کر لیتے ہیں۔ مارکسزم میں اس طبقے کو خصوصی طور پر موضوع بنایا جاتا ہے تو اپنے مارکسی نظریات کے پیش نظر مصنف نے اس ہی کو کہانی کا موضوع بنایا ہے۔
کہانیوں کی سادہ اور قدیم ساخت کے ساتھ ویر بھارتی نے سماجی عدم مساوات اور استحصال پر تنقید کی ہے۔ ایسے عدم مساوات پر مبنی معاشرے میں جس طرح انسانی رویوں میں جو تبدیلیاں آتی ہیں اور پھر ایک خواہش کے ان انسانی رویوں سے سب سے زیادہ متاثر طبقہ اس کے خلاف کھڑا ہو تاکہ معاشی استحصال کرنے والی ان طاقتوں کو شکست دی جا سکے ان سب کو ناول تلاشا جا سکتا ہے۔
مصنف نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس کے اختصار کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا شمار ناول میں ہوتا ہے یا ناولٹ میں۔ لیکن مصنف کی کامیابی یہ ہے کہ کہانی کو مختصر رکھنے کے باوجود اپنی بات اور سماج کی تصویر کو پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں
راجہ قاسم محمود

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply