بات یہ ہے کہ دوطرح کے گھرانے ہوتے ہیں، جن کے اہلِ خانہ کو اپنی شناخت پسند نہیں ہوتی۔ نمبرایک، وہ جن کی شناخت کو سماج میں کم ترسمجھاجاتاہے اورنمبردو، وہ جواپنے احوال کے سبب اپنی شناخت سے بیزار ہوتے ہیں۔ ان دو گھروں کی مثالیں یوں سمجھیں کہ پہلا گھرانہ کسی ایسی ذات کے افراد کا گھرانہ سمجھ لیں جسے معاشرے میں پست کردیاگیاہے یعنی( گھٹیا زبان میں) جسے کمی کمین کہتے ہیں۔ جبکہ دوسرے گھرانے کے لیے ذات پات کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے ان کی ذات( گھٹیازبان میں) کوئی اونچی ذات ہو، لیکن اس گھرانے کے افراد اپنےخانگی احوال کی وجہ سے ایک دوسرے سے بیزار ہوتے ہیں۔
پہلی مثال چونکہ قارئین کے لیے سمجھنا آسان ہے اس لیے اسے سمجھانے کے لیے میں مزید کچھ نہیں لکھتا۔ لیکن دوسری مثال کو مزید واضح کرنا چاہتاہوں۔ فرض کرلیں، ایک باپ کو ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے بچوں سے کوئی خاص رغبت نہیں ہے، نہ ہی اس گھر کی ماں کو بوجوہ اپنے بچوں سے کوئی دلچسپی ہے، تو نتیجتاً بچوں کو بھی اپنے والدین کے ساتھ کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا۔ تب چاہے وہ گھرانہ کوئی بڑی ذات سے تعلق رکھتاہو، تب بھی اس گھر میں یکجہتی کا امکان باقی نہیں رہتا۔ وہ اپنے گھرکے مسائل کو مل کر حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ فرض کرلیں کہ اس گھر میں کچھ بچے اور کچھ بچیاں ہیں، تو بھائیوں اوربہنوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی نہیں ہوگی۔ اگر اس گھرانے پر کوئی مصیبت آپڑے تو وہ یکجا ہوکر اس کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ اگرکوئی انہیں یکجا کرنا چاہے تو وہ بیزاری کا اظہارکرتے ہیں اورجِدوجہد کی ذمہ داری ایک دوسرے پرڈال کر خود اس مصیبت سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے نالاں اور ناراض ہوتے ہیں۔ اور ناگزیر مواقع پر یہاں تک اظہار کردیتے ہیں کہ ’’میرا باپ میرا باپ نہیں ہے، یا میں اِس باپ کا بیٹا نہیں ہوں‘‘، اسی طرح ماں باپ بھی بعض مواقع پر ایسا ہی اظہارکرتے ہیں کہ ’’یہ ہماری اولاد نہیں ہے، یا اس گھر کی ذمہ داری سے ہم تنگ آچکے ہیں، مرتے ہیں تو مرنے دو سب کو‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ گویا ایسے گھرانے کے افراد بھی اپنی شناخت سے فراراختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ باپ باپ بن کر نہیں رہنا چاہتا اور بیٹے بیٹے بن کر نہیں رہنا چاہتے۔
اس کے برعکس جن گھرانوں کے والدین اپنے بچوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ان کی اولاد ہیں اور اس لیے وہ ان کی ذمہ داری ہیں، ان گھرانوں کے بچے بھی یہ احساس اپنے اندر پیدا کرلیتے ہیں کہ گھر کے بزرگ ان کے والدین ہیں اور والدین کے ساتھ احسان و ہمدردی کا سلوک ان کی ذمہ داری ہے۔ اس قسم کے گھرانے میں ہر کوئی اپنی شناخت کو خوب سمجھتا اور اس شناخت کی قدر کرتاہے۔ ایسے گھرانوں میں شناخت فقط والدین تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ یہ بھی پہچانتے ہیں کہ ان کا چچا کون ہے، ان کی پھپھو ، ان کے دادا دادی، ماموں ، خالائیں ، یہ سب رشتے کیوں اہم ہیں اور انہیں کیونکر ان رشتوں کی قدر کرنا چاہیے۔ یہ گھرانے کمپیکٹ ہوتے ہیں اور جب بھی کبھی کوئی مشکل پیش آجائے تو پورے کا پورا خاندان ایک جان ہوکر اس کا مقابلہ کرتا اور اس مشکل سے نبرد آزماہوجاتاہے۔ تب دشمن ان سے ڈرتاہے اور مخالفین ان کے خلاف کچھ سوچتے ہوئے بھی بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
ریاست کی مثال بھی ہم جانتے ہیں کہ ایک ماں جیسی ہوتی ہے۔ ریاست اپنے لوگوں کی ماں ہوتی ہے اور نظامِ حکومت باپ۔ چنانچہ جب ماں باپ اپنے بچوں سے لاپروا ہوجاتے ہیں تو بچے بھی اپنے ماں باپ سے لاپرواہوکر جینے لگتے ہیں۔ ایسے میں اگر ریاست پر کوئی مشکل یا مصیبت نازل ہوجائے تو اہلِ ریاست بھی اس بے شناخت خاندان کی طرح ایک دوسرے سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جدوجہد کی ساری ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود ایک طرف ہوجانا چاہتے ہیں۔
یہ بات بہت عام ہے اور بچے بچے کی زبان پر موجود ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ اوریہ بھی کہ ہمارے لوگوں کے پاس بڑا ٹیلنٹ ہے۔ اور یہ بھی 1973 کا آئین بڑا پرفیکٹ آئین ہے۔ اگرکسی قوم کے پاس یہ تمام ذرائع موجود ہوں تو پھر بہت بڑا سوال پیدا ہوجاتاہے کہ آخر وہ قوم کیونکر بدحالی اور ذلّت کے گڑھے میں گری ہوئی ہے؟
اور اس سوال کا ایک ہی جواب ہے، کوئی دوسرا جواب موجود نہیں۔ اوروہ جواب ہے، ’’اپنی شناخت سے بیزاری‘‘۔ ہم نے اوپر ملاحظہ کیا کہ اپنی شناخت سے بیزاری کی دوبڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ نمبرایک، اپنی شناخت کا احساسِ کمتری۔ نمبردو، اپنی شناخت سے عدم دلچسپی۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، لیکن ایک پاکستانی کو یہ دونوں مرض بیک وقت لاحق ہیں ۔ اور اگر یہ سچ ہے تو پھر سب سے بڑا سوال پیدا ہوجاتاہے کہ اپنی شناخت سے نفرت اوربیزاری یا عدم دلچسپی کا یہ عفریت کیونکر اہلِ پاکستان پر مسلط ہوا؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟
اس کے بڑے اسباب دو ہیں۔
نمبرایک، اور یہ سب سے بڑا سبب بھی ہے کہ پاکستانی سرے سے اپنی شناخت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ وہ آج تک یہ طے نہیں کرسکے کہ وہ مسلمان پہلے ہیں یا پاکستانی پہلے ہیں، یا کچھ اور پہلے ہیں، مثلاً پنجابی ، سندھی بلوچ ، پشتون وغیرہ، یا دیوبندی، بریلوی ، شیعہ وغیرہ۔ وہ کنفیوزڈ ہیں اور ستترسال میں بھی ٹھیک سے نہیں جان پائے کہ وہ اصل میں کون ہیں؟
نمبردو، جنرل ضیا الحق کے بعد سے ایک پاکستانی اپنی قومی شناخت پر احساسِ کمتری کا شکار بھی ہے۔ جہادِ افغانستان کے خاتمے کے بعد سے اب تک پوری دنیا میں اسے گھٹیا قوم سمجھاجاتاہے اور اس لیے بھی وہ اپنی شناخت سے بیزار ہے اور اس سے نفرت کرتاہے۔
کسی قوم کے لیے شناخت کا مسئلہ اتنا ہی ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اہم ہے جتنا کہ کسی خاندان کے لیے ہوسکتاہے۔ شناخت کا تعلق کسی مسافر کے مقامِ آغازجیسا ہے۔ یعنی اگر کوئی مسافر یہ نہ جانتاہو کہ وہ کہاں سے آیاہے تو اسے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اسے کہاں جاناہے۔ سفرکے آغاز کا مقام، منزل کے تعین کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک پاکستانی بنیادی طورپر یہ ہی نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آیاہے؟ تو پھر وہ یہ کیسے جان سکتاہے کہ اس کی منزل کیا ہونی چاہیے، یا اسے کہاں جانا ہے؟ایسے مسافر کو بھٹکا ہوا یا گمراہ مسافر کہاجاتاہے۔
ہمیں جب یہ بتایا گیا کہ ہم مسلمان پہلے ہیں اور پاکستانی بعد میں ہیں تو اس وقت ہمیں اقبال کے حوالے دے دے کر سمجھایاگیا کہ ’’قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں‘‘ اور’’اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے‘‘ اور ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الاللہ‘‘۔ہمیں مطالعۂ پاکستان میں پاکستان کا مطالعہ پڑھانے کی بجائے محمود غزنوی ، محمد بن قاسم، احمد شاہ ابدالی وغیرہ پڑھائےگئے اوردعوے سے کہاگیا کہ یہ ہماری شناخت کے بنیادی عناصر اور شعائرِ اسلامی و شعائرِ پاکستانی میں سے ہیں۔ ان سب فاتحین نے ہندوؤں کے ساتھ جنگیں کی تھیں اور یہ سب سپہ سالاران تھے، سو ہم نے ہندوؤں سے نفرت کو اپنا مذہبی شعار بنالیا اورسپہ سالاروں کے گیت گانے لگ گئے۔ اور جب ہم اس نظریے کو ماننے کے لیے اچھی طرح سے تیار ہوگئے تو پھر ہمیں کہاگیا کہ اب پڑوسی مسلمان ملک افغانستان میں کافر گھس آئےہیں اور بطورقلعہِ اسلام یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔
پھر جب یہ جہاد ختم ہوگیا اور اسی پڑوسی مسلمان ملک کو ہی ختم کرنا مقصود ہوگیا تو ہمیں کہاگیا، نہیں پہلا نعرہ غلط تھا، اصل نعرہ یہ ہے کہ ’’ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں، اور بعد میں مسلمان ہیں‘‘ اس لیے اب ہمیں اسلام کے نام پر جہاد کرنے کی بجائے، ’’سب سے پہلے پاکستان، پاکستان ہماری جان‘‘ کے نعرے پر عمل پیرا ہوجانا چاہیے۔
ان تمام تصریحات کے بعد لامحالہ سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوجاتاہے کہ پھر ہماری اصل شناخت کیا ہے؟ ہمیں اگر اب تک گمراہ کیا جاتا رہا تو اب ہم صحیح راستے پر گامزن کیسے ہوسکتے ہیں؟کیا ہم کسی طرح اپنی اصل شناخت تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تاریخ کو پھلانگ کر ہم کبھی بھی اپنے سفر کے مقامِ آغاز تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہمیں اپنی اصل شناخت تک پہنچنے کے لیے تاریخ میں ایک ایک قدم پیچھے جاناہوگا۔ ہم براہِ راست محمود غزنوی کی تاریخ تک چھلانگ نہیں لگاسکتے ہیں نہ ہی براہِ راست ہم محمد بن قاسم کی تاریخ تک چھلانگ لگا کر اپنی شناخت کی جڑ یا رُوٹ تک جاسکتے ہیں۔ہمیں ایک ایک قدم پیچھے جا کر یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم پاکستان بننے سے ایک سال پہلے کس شناخت کے حامل تھے، پھر اس سے ایک سال پہلے، پھر اس سے ایک سال پہلے۔
اورتب ہم پر انکشاف ہوگا کہ ہم اس وقت ’’ہندوستانی مسلمان ‘‘ تھے ۔ تب ہمیں پتہ چلے گا کہ ہم تو کبھی بھی افغانی مسلمان، یا ایرانی ، یا عرب مسلمان نہیں تھے۔ ہم تو ہمیشہ سے ہندوستانی مسلمان تھے۔ توکیا پاکستان بننے کے بعد ہم اب ہندوستانی مسلمان کی شناخت کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں، تو پھر؟
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں