ایک خوبصورت زندگی کا خاتمہ یقیناً ایک شاندار موت ہے۔
شاندار موت وہ ہے جس کی آہٹ پا کر غم سے سلے لبوں پر مسکان کھلنے لگے۔ ایک اطمینان بھری سانس کہ نہیں، اب نہیں؛ زندگی کی تلخیوں بھرے صبر کے گھونٹ اب نہیں، کائنات کی ہر شے میں نقش محبوب کا چہرہ اور اس چہرے کے اتار چڑھاؤ سے بنتی مٹتی زندگی ختم شد! ناکامیوں، نامرادیوں کے درد، تنہائیوں کے پہرے، چھوڑے جانے کا دکھ تمام شد۔
موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور زندگی محبت کا سب سے خوبصورت پہلو۔ کیا تم نے فقط اپنی سانس کے چلنے سے یہ گمان کر لیا کہ تم میں زندگی کے کچھ آثار ہیں؟ کیا محض اس سانس کا رک جانا یا تمہارے وجود کی عدم موجودگی تمہارے نام کے اس خلا کو وجود دے سکتی ہے جسے بھرنے میں لوگوں کی عمر بیت جائے؟ کیا تمہیں لگتا ہے تمہارے بعد آنکھوں کے منظر کہیں کھو جائیں گے اور سماعتیں یتیم ہو جائیں گی؟ کیا تم نے یہ جان لیا کہ تمہاری عدم موجودگی تمہارے پیاروں کے ہونٹوں کی مسکان چرا لے گی؟ کیا تم جانتے نہیں زندگی بے مقصد ہو تو موت بھی بے آبرو کر دیتی ہے اور دلوں سے اس بے مقصد زندگی کے تمام نقش مٹا دیتی ہے۔
کیا تم بھول گئے کہ مقصد حیات ہی وہ عظیم چیز ہے جس کی کوکھ میں ایک شاندار موت پلتی ہے۔ تمہیں کیوں لگتا ہے کہ تم اپنی بے مقصدیت سے زندگی کو ایک بے رنگ تصویر بنا دو گے اور زندگی بدلے میں تمہاری یاد کو رنگین بنا کر لوگوں کے سامنے رکھ دے گی۔ موت کی آہٹ پر لبوں پر کھیلنے والی مسکان کیا ہر چہرے پر اپنا نقش چھوڑ پاتی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں!
ایک عظیم موت ایک عظیم مقصد سے نمو پاتی ہے اور محبت سے بڑھ کر کائنات کا کوئی مقصد نہیں۔ کیا تم محبت کا نام سن کر چونک اٹھے؟ کیا محبت کا نام سن کر تمہارے کانوں میں کانچ کی چوڑیوں کی کھنک گونج اٹھی؟ کیا تمہارا دل پردے کے پیچھے ہونے والی شرم سے لپٹی سرسراہٹ کو پا کر مخمور ہو گیا؟ کیا محبت تمام کی تمام سمٹ کر کاجل کی دو دھاروں کے مابین آ سمٹی جو تمہیں کل کائنات لگتی ہیں؟ کیا محبت کے لب وا ہوئے اور تم نے اس کے خوبصورت ترین نغموں کی دھن اپنی سماعتوں میں اترتی محسوس کی؟
ہاں مجھے یقین ہے تم محبت کو پہچانتے ہو مگر سوال یہ ہے کیا محبت تمہیں پہچانتی ہے؟ اگر نہیں تو تم مرتے سمے اس خوبصورت مسکان سے محروم رہ جانے والے ہو جو بامقصد لوگوں کے لبوں پر ابھرتی ہے۔ وہ اطمینان تمہارے دل کی تاریک کھائیوں کو پر نہ کر پائے گا جو فقط دلوں میں رہنے والوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔ کیا تم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ لوگ مر کر بھی مٹتے کیوں نہیں؟
محبت جسے پہچان لے اسے مٹنے نہیں دیتی۔ کاجل کی دو دھاریوں سے باہر بھی محبت اپنا وجود رکھتی ہے۔ کبھی دیکھو تو یہ بےسائبان گھروں کے کم سن مکینوں کی معصوم جبینوں سے جھلکتی ہے۔ یہ اس آنکھ میں رہتی ہے جو گہری اجنبیت کے باوجود تمہاری تہہ در تہہ مسکراہٹوں میں لپٹے درد کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ اس سماعت میں بسی ہے جو تمہاری بے وجود سسکیوں کو اپنے اندر سمو لینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ ان ہاتھوں میں ملے گی جو سرِ راہِ زندگی اوندھے پڑے تمہارے وجود کو تھام لینے کو بے تاب ہیں۔ تم محبت کو اس مٹی میں پاؤ گے جسے انگلیوں کی پوروں سے چھوتے ہی ان گنت جذبے تمہارے دل میں امڈنے لگتے ہیں اور لاکھوں خاک ہوتے وجود تمہیں پکارتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس لمحے زندگی بر لبِ سڑک پڑے اس چراغ سے زیادہ قیمتی معلوم نہیں ہوتی جسے تیز ہوا کے تھپیڑے بجھا دینے کے در پہ ہوں۔
تو اب تم سمجھے محبت کیا ہے؟ تم نے محبت کو ان آنکھوں کے جلتے بجھتے چراغوں سے پہچانا جن سے تمہارے بیش قیمت خواب وابستہ ہیں۔ تم نے محبت کو کاجل کی دھار میں قید کر کے محدود کر دیا اور بے وجود ہو گئے۔ تمہاری زندگی ان تکلیف دہ یادوں سے بھر گئی جو انسان کے وجود سے راحتیں نچوڑ کر اسے بے چینی کے دشت میں چھوڑ دیتی ہیں۔ تم اپنی ہی محبت کے ہاتھوں مر گئے اور تمہاری موت دھاڑتی، چگھاڑتی یوں آئی جیسے کوئی سیلابی ریلا گاؤں بھر کی زرخیز مٹی بہا لے جائے۔ یوں تم موت سے پہلے مر گئے اور مرتے سمے تمہیں وہ مسکان میسر نہیں آئی جو تمہاری موت کو شاندار بنا دیتی۔
تم فقط ان نیم وا ہونٹوں کے اسیر ہوئے جن سے نکلی صدا تم تک راہ نہ پا سکی کہ زمانہ اس کے راستے میں حائل ہو گیا۔ تم نے محبت کو فقط ایک چہرے سے جانا اور تم یہ جان نہ پائے کہ محبت کا بھی ایک چہرہ ہے۔ اپنی محبت کو لامحدودیت سے آشنا ہونے دو۔ اس ایک محبوب چہرے میں کل انسانیت کو سمونے دو۔ محبت تمہیں پہچان لے گی اور جان لے گی کہ تم ہی اس خوبصورت مسکان کے حقدار ہو جو ایک شاندار موت کا خیر مقدم کرنے کو مچل رہی ہے۔ تم ہی وہ زندگی ہو جس کو زوال نہیں۔ تم ہی وہ حسین یاد ہو جو ان گنت چہروں سے اداسیوں کے پہرے ہٹا کر انہیں کھِل اٹھنے پر مجبور کردے۔ تم ہی وہ محبت ہو جو امر ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں