اسے شریف خاندان نے مسیحیوں کی شناخت پر اپنےمشیروں کی سفارش پر ایم پی اے بنا دیا۔2023 کی مردم شُماری کے اعداد وشمار پبلک ہوئے،تو کسی نے حساب کتاب کرکے بتایا کہ کیسے پہلے 2017 اور پھر2023 میں مسیحیوں کی آبادی کو لاکھوں میں کم دکھا کر ان کی کاغذی نسل کشی کی گئی ہے ۔۔وہ جہاں جاتا لوگ یہ ہی باتیں کرتے ۔وہ ایک عوامی بندہ تھا،باشعور سیاسی کارکن ، کچھ باضمیر بھی تھا ۔۔اپنے آپ کو پنجاب کے تقریباً 30لاکھ مسیحیوں کے حقوق کا پنجاب اسمبلی میں محافظ سمجھتا تھا ۔۔جب اس نے سارے اعداد و شمار پڑھے ،بار بار سمجھے اسکی کنپٹیوں میں خون کھولنے لگا۔ یہ کیا ہے ۔؟ ہم پر اتنا ظلم؟؟ اس نے اپنے آگے پیچھے پھرنے والے لوگوں سے مشورہ کیا ایک دو مسلمان لیڈر جو اس کے سفارشی تھے ، ان سے بھی مشورہ کیا سب نے کہا ظلم تو بڑا ہے، لیکن دونوں دفعہ حکومت ہماری تھی۔ اعلیٰ قیادت اس بات کو اسمبلی میں اُچھالنے پر تم سے استعفی ہی نہ لے لیں ۔آخر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ صبح اسمبلی میں بات کرے گا۔۔۔وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا ایک طرف پنجاب کے تقریباً 30 لاکھ مسیحی تھے۔دوسری طرف ڈھیروں مراعات جن کا ایک پاکستانی مسیحی کسی اور شعبے میں رہ کر تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔آگے ایم این اے سینیٹر بننے کا چانس،ہوائی سفر ، اچھے ہوٹلوں کے بٹر، پنیر ، ( butter chees)اگر کہیں سیاسی کیریئر ختم ہوا ،امریکہ ،کینیڈا ،برطانیہ اور کہیں نہ ہوا, تو اٹلی میں سیاسی پناہ تو کہیں نہیں گئی ۔۔
خیر اسی کشمکش میں پتہ نہیں اسے کب نیند آئی ۔ صبحِ اٹھا وہ اسمبلی پہنچا، اس نے ڈرامائی انداز میں بات شروع کی ،گیلری میں بیٹھے اسکے یار دوست رشتے دار گھبرا گئے۔۔ اس نے مسیحیوں کی محرومیوں کا نوحہ پڑھا پھر شریف خاندان کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور پھر گولڈ میڈل جیتنے والی بچیوں کو انعام اکرام دینے کے حق میں قرارداد پنجاب اسمبلی میں پیش کر دی ۔۔
مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے مسیحیوں نے تالیاں اور نعرے بازی شروع کردی ساتھ ہی اپنے ساتھیوں کو فون کردئیے ۔۔ایم پی اے نے یہ کارنامہ کردیا ہے ۔ استقبال کے لئے پہنچو ۔۔جیسے ہی سیشن ختم ہوا مسیحی مصنوعی پھولوں کے پنجاب کے روائتی ہار لئے باہر موجود تھے ۔۔ ڈھول تاشے بجنے لگے اسے جلوس کی صورت گھر پہنچایا گیا ۔ سارا دن ملک بلکہ دنیا بھر سے مبارک باد کے فون آتے رہے۔ رات جب وہ سونے سے پہلے دعا کرنے لگا تو پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ۔اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر کہنے لگا خدا تو نے مجھے راہبری عطاء کی اور میں کتنا چھوٹا نکلا ،اپنے معصوم خاک نشینوں کو دھوکہ دے رہا ہوں،مجھے معاف فرما ۔ مجھے کوئی ایسا موقع دے، میں دو دو کشتیوں میں سوار نہ رہوں یا پھر اتنی مہارت دے کہ میں دونوں کشتیوں میں سفر کرسکوں ۔۔اب میرا دل انکے ساتھ ہے جن کی شناخت پر مجھے یہ منصب ملا ہے ۔ جبکہ میرا دماغ انکے ساتھ ہے جنہوں نے مجھے منصب دیا ،میں دونوں کا مقروض ہوں، ایک فریق کا قرض تو میں خوشامد اور غلامی سے اُتار دوں گا ۔۔لیکن مجھے پتہ ہے، میں خاک نشینوں کا قرض کبھی واپس نہ کر پاؤں گا۔ بلکہ روز روز انھیں اسی طرح کے دھوکے دیتا رہوں گا ۔۔جبکہ دوسروں کا قرض اتارتے چاہے میری اگلی نسل بھی تھک جائے، انھیں جس دن چھوڑا غدار ہی کہلاؤں گا۔ انسانیت اور میرے شافی کی تعلیمات کہتی ہیں، میں ان پسے ہوؤں کا وفادار رہوں، لیکن دنیا کی آسائشیں مُجھے انکے لئے کچھ کرنے نہیں دیتی، اے خدا مجھے سیاسی فہم اور تدبر دے ۔۔میں دو کشتیوں پر مہارت سے سفر کرسکوں ۔ ساتھ ہی اسکے اندر سے آواز آئی۔۔۔ اٹھ اے ناقص العقل انسان !ایسے انتحابی نظام کے لئے کوشش کر جس سے تو انکا ورکر بننے کی بجائے انکا مشیر بنے، انھیں انکا فائدہ دکھا اور دوسروں کا رہبر بن ۔پہلے کچھ سیکھ پھر انھیں شعور اور آگاہی کی دولتِ سے مالا مال کر ،دین اور دنیا دونوں راضی کر ۔۔۔وہ اٹھا غسل کیا اور اک نئے ولولے سے اپنے لوگوں کی راہنمائی کرنے کے لئے اپنی استعداد بڑھانے کے لئے اپنے سیاسی طور پر باشعور دوستوں سے مشاورت کے لئے میٹنگ ارینج کرنے لگا۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں