میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ گاڑی ہر صورت رکوانی ہے۔ میں نے جلدی سے اپنی ٹانگوں کے بیچ ہاتھ دیدیے اور سسکی بھر کر ڈرائیور سے دری زبان میں کہا۔
“برادر، گاڑی جلدی سے روک دو، میرا بلیڈر پھٹ جائیگا”۔
اس نے جلدی سےہماری بائیں طرف جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تاکہ گاڑی سڑک سے اتار کر میں رفع حاجت کرسکوں۔ مناسب سی جگہ گاڑی روک دی۔
عطاء اللہ کی حالت خراب تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ ڈرائیور کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات نہ کردے کہ ہم مشکوک ہو جائیں ۔ اس لئے ٹھیٹھ پشتو میں عطاء سے مخاطب ہوا “تم پرسکون رہو ہوسکتا ہے میری چھٹی حس غلط ہو۔ بس رفع حاجت کرنے کا بہانہ کرکے بیٹھ جانا۔”
ہم دونوں مخالف سمتوں میں چلے گئے اور ڈرائیور گاڑی سے باہر نکل کر تازہ ہوا کا لطف لینے لگا۔
میرے کان ایک کان پھاڑ دینے والی آواز کے منتظر تھے۔ میں اکڑوں بیٹھا پیشاب کرنے کی زبردستی کوشش کررہا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرسکوں۔
اس زمانے میں کابل کے ملحقہ علاقوں کے حالات بہت دگرگوں تھے۔ امن و امان ویسے ہی مخدوش تھا اوپر سے کابل میں حامد کرزئی اور شمالی اتحاد کے احمد مسعود کے بھائی، جنرل رشید دوستم، گورنر بلخ عطاء محمد کے مافیاز دن دیہاڑے کابل کے پرہجوم شہر سے لوگوں کو اغوا کرتے تھے۔ ان کی دیدہ دلیری کا یہ حال تھا کہ کابل کے سب سے پر رونق بازار شہرنو سے این جی اوز کے غیر ملکیوں کو ان کے گارڈز کے سامنے اغوا کیا جاتا تھا۔ انکا ٹارگٹ غیرملکی این جی اوز کے ملازمین ہوتے تھے جن کی بھاری انشورنس ان کی جان کی دشمن بن جاتیں یہ سارا کام حامد کرزئی کی ناک کے نیچے ہوتا تھا۔ حامد کرزئی کے بھائی کا نام بین الاقوامی منشیات کی رکٹس میں بھی تسلسل سے لیا جاتا تھا۔ مشہور تھا کہ امریکی افواج کی اعلیٰ کمان اور سی آئی اے کے اہلکار ہلمند و قندھار میں افیون کے پیداوار کو پراسس کرواکر ہیروئن کی بین الاقوامی ترسیل میں اپنا حصہ ڈالتے تھے اور حامد کرزئی کا بھائی مقامی پیداوار میں ان کی مدد کرتا تھا۔ مقامی کاشت کاروں کو سختی سے تاکید تھی کہ افیون کی فصل کسی پاکستانی اور ایرانی کو ہرگز نہ دی جائے ورنہ نتائج کی ذمہ داری مقامی کاشتکاروں کو بھگتنی پڑتی تھی۔ الغرض ایک بدامنی کی فضاء چارسوتھی اور ایسے ناگفتہ بہ حالات میں اپنی حفاظت یقینی بنانا بہت ضروری تھا۔
استالیف، چریکار جو شمالی اتحاد کے گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ وہاں طالبان کا اثرورسوخ نہ ہونے کے برابر تھا۔ طالبان نے افغان جہاد کے بعد مقامی مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں پورے افغانستان کو کنٹرول کیا تھا مگر پنجشیر اور شالنگ کا علاقہ 9/11 سے پہلے بھی ان کی عملداری میں نہیں رہا تھا۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ افغانستان میں لسانی تعصب کی خو کیوجہ سے تاجک نسل اور پشتون نسل کی آپس میں اتنی بنتی نہیں ہے اور طالبان میں نوے فی صد سے زیادہ پشتون نسل لوگ تھے جو پشتونوں کی بربریت سے نفرت کرتے تھے۔ مگر امریکی قبضے کے بعد بگرام ایئربیس ظاہراً امریکیوں کی محفوظ آماجگاہ تھی کیونکہ امریکی فوج مقامی وارلارڈز کو ماہانہ مشاہرہ ادا کرتی تھی۔ مگر طالبان کو جب بھی موقع ملتا امریکیوں کو نشانے پر رکھ لیتے تھے۔
اچانک ایک تیز لہر آئی اور میں اوندھے منہ گر گیا۔ ایسے لگا جیسے مجھے کسی غیر مرئی مخلوق نے اٹھا کر پھینک دیا ہو۔ ڈرائیور زمین بوس تھا۔ چار سیکنڈ کے وقفے سے ایک کان پھاڑنے والی آواز نے گویا میرے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا ہو۔ میں نے لیٹے لیٹے عطاء کی جانب دیکھا مجھے وہ نظر نہیں آیا۔ مگر ہمارا ڈرائیور زمین پر گرا ہوا تھا۔ ہم تھوڑی دیر تک زمین پر لیٹے رہے۔ بالآخر وہی ہوا جو امریکی کرتے ہیں اندھا دھند فائرنگ۔ میں نے لیٹے لیٹے ڈرائیور سے کہا جہاں لیٹے ہو لیٹے رہو اٹھنے کی غلطی مت کرنا۔
عطاء کو آواز دی جوابا ُاس نے گھبرائی ہوئی آواز میں اپنی خیریت سے آگاہ کیا۔
شدید فائرنگ سے تو ہم محفوظ تھے کیونکہ ہم اونچائی پر تھے۔ مگر ہماری ایک غلطی ہماری جان لے سکتی تھی۔
پانچ منٹ کے بعد بگرام ایئربیس سے ہیلی کاپٹروں کی خوفناک آوازیں آنی شروع ہوگئیں۔ اب ایک نئی افتادہ آن پڑی تھی کہ اگر کسی ہیلی کاپٹر نے ہمیں یوں ایسی حالت میں دیکھ لیا تو ممکن ہے ہم پر میزائل فائر کیا جائے۔ اس لئے بہتری اسی میں تھی کہ ہم اپنی لوکیشن چھوڑ کر سڑک پر آجائیں۔ سڑک پر ہم محفوظ تھے۔
میں نے ڈرائیور سے کہا
“اپنی گاڑی روڈ پر ڈالو ایسا نہ ہو کوئی ہیلی ہمیں ہٹ کرے”۔
وہ جلدی سے زمین سے اٹھا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ میں جلدی سے عطاء کی طرف گیا۔ وہ گھبرایا ہوا تھا میں نے آواز دی، اس کو تسلی دی، گاڑی میں اس کو زبردستی بٹھایا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے عطاء نے ساری احتیاط بالائے طاق رکھ کر رونا شروع کردیا اور میرے ہاتھ چومنے لگا۔ ڈرائیور بھی گھبرایا ہوا تھا اس نے بھی میرا ہاتھ پکڑ کر چوما
“برادر آپ کے پیشاب نے ہماری جانیں بچالیں”۔
تھوڑی دیر بعد بازار سے گزرے۔ تو ایک امریکی بکتربند کے پرخچے اڑے ہوئے تھے اور انسانی اجسام کے ٹکڑے درختوں سے لٹک رہے تھے۔
میں اس وقت بھی نہیں گھبرایا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں