کولکتہ میں ڈاکٹر مومتا کی موت ہوگئی، جانچ کے بعد خلاصہ ہوا کہ انکا ریپ اور مرڈر کیا گیا تھا۔ یہ کوئی پہلا دوسرا واقعہ نہیں، ایسے معاملات یومیہ کئی ایک ہوتے ہیں، کچھ کی سیاسی تشہیر ہوجاتی ہے اور باقی منظر عام پر آہی نہیں پاتے۔ سرکاری اعداد و شمار کے بموجب دنیا کے کئی دیگر ممالک کی بہ نسبت ہندوستان میں عصمت دری کا تناسب بہت کم ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ یہاں ساٹھ فیصدی سے زیادہ معاملات رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ ہے مجرمین سے خوف، عزت کی حفاظت اور قانون پر عدم اعتمادی۔ جو واقعات درج ہوتے ہیں اس کے مطابق ملک عزیز میں ہر پندرہ منٹ میں ایک ریپ ہوتا ہے۔ ماضی کے سالوں کی بہ نسبت دھیرے دھیرے اس تعداد میں معمولی کمی بھی دیکھی جارہی ہے، شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ اب سیکس عوام کی نظر میں کوئی گناہ نہیں رہا اور کنسینسوول یعنی رضامندی والا زنا زیادہ عام ہوتا جارہا ہے۔
ریپ میں مرڈر کے بنا جو زندہ بچ جاتی ہیں ان میں ۹۵% عورتیں PTSD یعنی Post Traumatic Stress Disorder کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کچھ میں چند ہفتے تو تقریباً تیس فیصدی خواتین میں یہ بیماری نو مہینے تک طویل ہوجاتی ہے، کچھ کو تاعمر یہ عارضہ باقی رہ جاتا ہے، جبکہ ریپ کے بعد ۳۳% عورتیں خودکشی کرلیتی ہیں۔ اس بیماری میں وہ تمام علامات سامنے آتی ہیں جو کسی شدید نفسیاتی مرض میں ہوا کرتی ہیں، مثلاً خوف و دہشت، برے خواب آنا، بار بار واقعے کو یاد کرکے چونک اٹھنا، بھوک پیاس کی کمی، چڑچڑاپن، ترکیز کی قلت، نیند نہ آنا، تخریبی و منفی برتاؤ وغیرہ۔
ریپ کوئی ایسی چیز نہیں جو اپنے ہاں کسی خاص مذہب میں کم یا زیادہ ہے۔ جہاں ہمیں اس کے اسباب کی چھان بین اور مناسب روک تھام کی فکر کرنی چاہیے وہیں ریپ متاثرہ کو اس عارضے سے محفوظ رکھنے کی کوشش بھی کرنا چاہیے، کیونکہ یہ یکساں مہلک مرض ہے۔ اگر ہمارے آس پاس میں اس طرح کا کوئی حادثہ ہو اور متاثرہ تین چار ہفتوں سے زیادہ ان علامات کا شکار رہے تو اسے فوری طور پر سائیکاٹرسٹ اور کاؤنسلنگ ایکسپرٹ کے پاس لے جایا جائے تاکہ دواؤں کے ساتھ مناسب کاؤنسلنگ ہوسکے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ متاثرہ کو گھر میں اچھا ماحول دیا جایا، اسے مجرم بنانے کے بجائے اسے تشجیع و حوصلہ دیا جاۓ، گھر کا ہر فرد یہ ظاہر کرے کہ اس مشکل وقت میں وہ اس کے ساتھ ہے، اس سے باتیں کی جائیں، اسے گھمانے ٹہلانے لے جایا جائے اور کوشش کی جائے کہ ہر وقت کوئی اسکے ساتھ رہے۔ یہ خیال بھی ضروری ہے کہ کہیں اس کا رجحان خودکشی کی طرف تو نہیں جارہا ہے تاکہ اس کی موزوں روک تھام ہوسکے۔
ہم ان موضوعات پر گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھتے پر سچائی یہ ہے کہ کم از کم ۳۵% خواتین کسی نہ کسی صورت میں اور زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں، یوں کہہ لیں کہ اگر ہماری ایک بیوی ایک بہن اور ایک بیٹی ہے تو ان تین میں سے کم از کم ایک کے متاثر ہوۓ ہونے کا غالب امکان ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ ساٹھ فیصدی سے زیادہ عورتیں جنسی استحصال کو درج ہی نہیں کراتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ عدمِ اندراج پولیس تھانوں میں رپورٹنگ سے متعلق ہے بلکہ ہماری بہنیں بیٹیاں بیویاں اپنے گھروں میں بھی اکثر ان چیزوں کو دوسروں بالخصوص مردوں کے سامنے نہیں رکھ پاتی ہیں۔ افسوس تو یہ ہے نربھیا یا مومتا جیسے وقت میں ہم جنسی تشدد کی مذمت تو کرتے ہیں، پر منبر و محراب سے بہت یا کم اور ایسے ملفوف الفاظ میں سرسری گفتگو کرتے ہیں کہ زیادہ تر کو سمجھ بھی نہ آسکے، مانو ہم بات نہیں بلکہ کچھ اخلاقی جرم کر رہے ہوں، گھروں میں اس پر عملی گفتگو تو شاید شاذ ہی ہوتی ہو۔ ۔ حقیقت یہ ہےکہ سیکس خواہ جائز و طبعی ہو یا پھر اس کی استحصالی شکلیں ہوں ہمارے ہاں اس پر سب سے کم گفتگو ہوتی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو جائز کا صحیح استعمال ہوپاتا ہے اور نہ ہی ناجائز و استحصال سے روک تھام ہوپاتی ہے۔

مجھے تعجب ہوتا ہے کہ شاید اسلام اور قرآن واحد دین و کتاب ہوں جہاں اس قدر زیادہ اور اس قدر کھل کر سیکس پر بات کی گئی ہو۔ زیادہ نہیں اگر صرف قرآن کی آیات کے تناظر میں ہی اس موضوع پر اتنی گفتگو کی جاتی رہے جس تناسب میں قرآن نے اس موضوع کو اپنے اندر جگہ دی ہے تو پھر اس حوالے سے خاطر خواہ بیداری پیدا ہوجائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں