• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سپین کے شہر ایلی کانٹے کا سفر نامہ- شہر ایلچی اور کھجور کے مشہور باغات ایل پامیرل کی سیر(3)-فرزانہ افضل

سپین کے شہر ایلی کانٹے کا سفر نامہ- شہر ایلچی اور کھجور کے مشہور باغات ایل پامیرل کی سیر(3)-فرزانہ افضل

تیسرا دن : جمعرات
ہالیڈے جہاں انجوائمنٹ کا باعث ہے وہاں کافی محنت طلب کام بھی ہے۔ اگر آپ سٹی بریک کیلئے جا رہے ہیں اور آپ کو گھوم پھر کر تاریخی اور پُرکشش مقامات دیکھنے کا شوق ہے تو اس کے لیے آپ کا جسمانی طور پر فٹ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ایسی ہالی ڈے پر بہت چلنا پڑتا ہے بعض مقامات پر چڑھائی ہوتی ہے تو سانس پھولنے لگتا ہے۔ اگر ایک مکمل آرام دہ ہالیڈے چاہیے تو پھر آپ ریزورٹ پر جائیں جہاں سمندر کنارے بیٹھیں یا سوئمنگ پول اور واٹر ایکٹیوٹیز انجوائے کریں۔ بہرحال ہم تو تھے سٹی بریک پر۔ ایلی کانٹے کے مشہور کھجور کے باغات کے بارے میں کچھ ریسرچ کی تھی۔ ہوٹل ریسپشن سے پوچھا تو اس خوبصورت اور خوش مزاج لڑکی جو اچھی انگلش بولتی تھی ،نے بڑے پُرجوش انداز میں بتایا کہ اگر آپ کو پام گارڈنز دیکھنے ہیں تو آپ شہر ایلچی میں جائیں وہاں پر بہت مشہور کھجور کے باغات ایل پامرل ہیں یعنی پام ٹریز کا باغ ہے جس کی ایک پوری تاریخ ہے۔ ہم نے پوچھا کوئی شاپنگ مال بھی ہے تو اس نے بتایا کہ قریب میں ہی ایک شاپنگ مال بھی ہے اور وہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ ایلچی شہر وہاں سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس نے کہا کہ ٹیکسی ہم منگوا دیتے ہیں، آپ لوگ ٹیکسی پر چلے جائیں۔ حالانکہ ٹرین بھی وہاں جاتی ہے ۔ مگر ہم ٹھہرے آرام طلب لوگ اور دھوپ بھی بہت شدید تھی لہذا ہم نے ٹیکسی پر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت دن کے تقریباً 12 بجے تھے ، سورج سوا نیزے پر تھا ٹیکسی میں بیٹھ کر دھوپ کی شدت کا اندازہ کیا تو فیصلہ کیا کہ بجائے کھجور کے باغات جانے کے، پہلے شاپنگ مال میں جایا جائے اور سہ پہر تک  وقت وہاں گزاریں ،لنچ کھائیں اور اس کے بعد ایل پامرل میں جائیں۔

ایلی کانٹے سپین کا ایک صوبہ اور بندرگاہ ہے اور ایلچی اس صوبے کا ایک گنجان آباد ترین شہر ہے۔ جس کی آبادی دو لاکھ تیس ہزار 112 ہے ۔ ہم نے ٹیکسی سے اتر کر ٹھنڈے ٹھار الجوب شاپنگ مال میں قدم رکھا تو گویا ایک دم سے سکون آ گیا۔ شاپنگ مال ہماری توقع کے برعکس کافی چھوٹا تھا مگر بہت خوبصورت صاف ستھرا اور جدید تھا۔ ہمارے یو کے کے شہر مانچسٹر کے عظیم الشان مال ٹریفورڈ سینٹر کے آگے ہمیں کوئی شاپنگ مال نہیں بھاتا ۔ وہاں کچھ مشہور سٹورز کی چینز تھیں اور کچھ ہسپانوی یا سپینش برانڈز کے سٹورز تھے۔ یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ خواتین اگر شاپنگ کی جگہ پر گھس جائیں تو وہ کچھ نہ کچھ خرید کر ہی دم لیں گی ۔ ہم نے بھی کچھ ڈریسز ، اور جیولری خریدی۔ پھر فوڈ کورٹ میں ریسٹورنٹس کا جائزہ لیا تو ایک حلال تھائی ریسٹورنٹ مل گیا جس کا نام پاڈ تھائی ووک ہے۔ ان کے چکن نوڈلز بہت مزیدار تھے۔ اب تقریباً سہ پہر کے چار بج رہے تھے اگلا مرحلہ تھا ایل پامرل گارڈن کے لیے ٹیکسی لینا، جو وہاں سے صرف دو میل کے فاصلے پر ہے۔ سپین میں سب لوگ سپینش بولتے ہیں اور انگلش بمشکل سمجھتے ہیں۔ ایک شاپ سے پوچھا کہ ٹیکسی کیسے آرڈر کی جائے انہوں نے فون نمبر دیا ہم ٹیکسی کا نمبر سیو کر کے ان کو کال کرتے ہوئے باہر نکل رہے تھے کہ شاپنگ مال کے دروازے پر ہمیں ایک پاکستانی بھائی مل گئے انہوں نے ہماری بہت مدد کی۔ انہوں نے اپنے فون سے ٹیکسی کال کی اور سپینش زبان میں کچھ ہدایات دیں اور بتایا کہ تقریباً 10 منٹ تک ٹیکسی آئے گی ، ٹیکسی ڈرائیور ایک خاتون تھی۔ میں نے اس سے گپ شپ لگائی اس نے بتایا کہ اس نے یہ جاب گزشتہ سال سے شروع کی ہے اور وہ اس کو بہت انجوائے کر رہی ہے۔ میں نے اس سے استفسار کیا، کہ یہاں پر خواتین اور مرد ٹیکسی ڈرائیوروں کا کیا تناسب ہے ؟ کیا خواتین بھی عام طور پر ٹیکسی چلاتی ہیں ؟ معلوم ہوا کہ ایلچی سٹی میں 300 مرد اور صرف 14 خواتین ٹیکسی ڈرائیورز ہیں۔ یعنی سپین میں بھی یہ ایک مردانہ پروفیشن ہی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ سپین کے لوگ اخلاقیات اور اقدار میں کافی حد تک ہم مسلمانوں یا ایشین لوگوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں اگر راستہ پوچھیں یا کوئی سوال کریں پوری کوشش کریں گے کہ وہ آپ کو سمجھا سکیں اور آپ کی مدد کر سکیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہسپانیہ یا اسلامی اندولس ایک اسلامی ملک تھا اور اس پر مسلمانوں نے 711 سے لے کر 1492 تک تقریباٰ 800 سال حکومت کی۔ آخری مسلمان حاکم محمد کے دور میں سپین ایک ملٹی کلچرل معاشرہ تھا جس میں مسلمان عیسائی اور یہودی سب مل جل کر رہتے تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان حکمرانی کے باعث یورپ میں تہذیب کی ایک سطح قائم ہوئی جس نے رومی سلطنت اور اطالوی نشاط ثانیہ کا مقابلہ کیا۔ جب کہ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں نے ایک غیر روایتی سماجی ڈھانچہ متعارف کروایا جو یورپ کی تہذیب کے برعکس تھا۔ مگر 1492میں سپین میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک زبان اور ایک مذہب قائم ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر ٹیکسی ڈرائیور خاتون نے ہمیں باغ کے گیٹ پر اتارا اس نے کہا کہ اس باغ کے کئی دروازے ہیں مگر آپ یہاں سے داخل ہوں تو زیادہ بہتر ہے ۔ پال میرل مسلمانوں کے دور کے لگائے گئے کھجور کے درختوں کا ایک مصنوعی نخلستان ہے اس وسیع و عریض باغ میں 45 ہزار درخت ہیں اور کل 67 باغات ہیں ۔ بہت ہی حسین اور عظیم الشان آسمان کو چھوتے ہوئے کھجور کے درختوں سے یہ باغ ایسے گھرا ہوا ہے کہ سورج کی کرنیں مشکل سے چھن کر زمین پر آتی ہیں ۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ باغ اتنا بڑا ہے کہ ہمارے لیے پورا گھوم کر دیکھنا بہت مشکل ہوگا ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ایک ٹورسٹ ٹرین باغ میں آ گئی ہم نے فوراً ٹرین ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا اور ٹرین پر سوار ہو گئے ۔ معلوم ہوا کہ یہ ٹرین باغ کے دوسرے گیٹ سے چلتی ہے اور پورے باغ کا چکر لگا کر شہر میں بھی گھماتی ہے اور پھر واپس لے آتی ہے۔ گھنے درختوں کے اس باغ کے باوجود ہوا بہت کم تھی اور گرمی بہت شدید۔ ہم نے شکر ادا کیا کہ ٹرین مل گئی ۔ ٹرین میں کمنٹری بھی چل رہی تھی اس میں باغ کی اور ایلچی شہر کی تاریخ بتائی جا رہی تھی جو انگلش اور سپینش دونوں زبانوں میں تھی۔ شہر میں کچھ خاموشی سی تھی زیادہ تر دکانیں بند تھیں۔ ڈرائیور اپنا روٹ پورا کر کے ٹرین گارڈن کے مین گیٹ پر لے آیا ۔ ہم اترے اور سامنے موجود انفارمیشن آفس میں گئے اس وقت شام کے چھ بج چکے تھے ۔ ہمیں واپسی کی فکر ہونے لگی تھی۔ آفس والوں سے ہم نے ٹیکسی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا یہاں پر ٹیکسی شاز و نادر ہی آتی ہے بہتر ہے کہ آپ ٹرین سے چلے جائیں ٹرین سٹیشن وہاں سے صرف 200 گز کے فاصلے پر تھا۔ میری بیٹی نے ٹرین لائن ایپ پر چیک کیا تو ایلی کانٹے کی ٹرین کچھ منٹوں میں ہی آنے والی تھی ۔ ہم بھاگم بھاگ ٹرین اسٹیشن پر پہنچے۔ ٹکٹ کاؤنٹر پر کچھ قطار تھی اور لوگ بہت وقت لگا رہے تھے مگر جب میں نے غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ٹکٹ آفس میں شیشے کے پار بیٹھے صاحب بہت سست رفتاری سے کام کر رہے ہیں ، ہمیں یہ دیکھ کر سخت کوفت ہوئی اور پریشانی بھی کہ کہیں ٹرین نہ چھوٹ جائے۔ بہرحال ہم ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے اور جلدی سے پلیٹ فارم پر پہنچے اور ٹرین میں سوار ہو گئے۔ اپنی منزل پر پہنچ کر ٹیکسی لی اور ہوٹل آ گئے ۔ شام کو قریباً دو گھنٹے ریسٹ کیا اور پھر فریش اپ ہو کر ، ڈنر کے لیے تیار ہو کر ہوٹل سے باہر آئے اور ایک حلال انڈین دہلی ریسٹورنٹ جو پرومیناڈ پر ہے وہاں پہنچے۔ پہلے تو ان سے پوچھ کر خوب تسلی کی کہ یہ حلال ہی ہے۔ یہ ایک فیملی بزنس ہے جن کا تعلق انڈیا سے ہے۔ میاں بیوی ، بیٹا بہو اور ملازمین یہ ریسٹورنٹ چلاتے ہیں ۔ ہمیں نئی جگہوں پر جا کر لوگوں سے بات چیت کرنے اور معلومات حاصل کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ہم نے ریسٹورنٹ کے مالک خاتون اور ان کی بہو سے خوب گپ شپ کی انہوں نے بتایا کہ یہ ریسٹورنٹ وہ 12 سال سے چلا رہی ہیں۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے دونوں بچے شادی شدہ ہیں بیٹا اور بہو ان کے ساتھ کام کرتے ہیں ان کا ایک پوتا بھی وہاں کھیل رہا تھا جس کے لیے انہوں نے ایک نینی رکھی ہوئی ہے جو بچے کو سنبھال رہی تھی تاکہ ان کی بہو کام کر سکے ۔ خاتون نے بتایا کہ انہوں نے اسی روڈ پر تھوڑا آگے جا کر اپنی بیٹی اور داماد کو ایک ریسٹورنٹ کھول کر دیا ہے ، ” بھئی کچھ بات ہو جاوے اور داماد سہہ نا پاوے ، اس لیے ان کو الگ کر دیا ہے”۔ میں دل ہی دل میں ان کی اس بات پر بہت متاثر ہوئی ،کیا خوب دور اندیشی ہے کہ کوئی مسئلہ ہونے سے پہلے ہی بیٹی اور داماد کو علیحدہ کر دو ۔ کھانا بہت زبردست تھا اور ان کی پریزنٹیشن بھی۔ ہم نے خوب انجوائے کیا۔ ہم نے وہاں پر ویڈیو اور تصویریں بنائیں اور ان سے وعدہ کیا کہ ہم ان کے ریسٹورنٹ کو سوشل میڈیا پر پروموٹ کریں گے ۔ وہاں سے اٹھ کر ہم ایک آئس کریم پارلر گئے اور وافلز اور آئس کریم کھائی۔ شام کو ہوا ٹھنڈی اور خوشگوار ہو جاتی ہے سمندر سے جو باد صبا آ رہی تھی اس سے دن بھر کی گرمی اور تھکن دور ہو گئی۔ ہم بہت دیر تک چہل قدمی کرتے رہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply