ساٹھ اور ستر کے عشرے کے انقلابیوں کے لئے اس لحاظ سے زندگی بہت آسان تھی کہ انہیں صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ان کے لئےکوئی ” گرے ایریا” نہیں تھا، چیزیں یا تو سفید تھیں یا سیاہ۔دنیا میں یا تو سوشلسٹ بلاک تھا یا سرمایہ دارانہ بلاک۔پھر چین اور سوویت یونین کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو دنیا بھر کے بائیں بازو کے لوگ بھی ماسکو نواز اور پیکنگ (بیجنگ) نواز” حلقوں میں تقسیم ہو گئے۔اور پھر یوں ہوا کہ سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ تب ہمیں یاد آیا کہ یہ ریاستیں تو ہزاروں سال سے موجود تھیں لیکن ہم انقلاب کا خواب دیکھنے میں اتنے مصروف تھے کہ سوویت یونین اور چین کے سوا ہمیں کچھ یاد ہی نہیں تھا .یہ سب وہ وسط ایشیائی ریاستیں تھیں جو انقلاب روس کے بعد سوویت یونین کا حصہ بن گئی تھیں۔ ان میں سے ایک آذربائیجان بھی ہے جو ایک طرف بحیرۂ کیسپین اور دوسری طرف کاکیسیس پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ اور ہندوستانی اور پاکستانی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے سیاحت کا کبھی شوق نہیں رہا۔ آج تک جتنی بھی دنیا دیکھی ،روزگار کے سلسلے میں دیکھی، کام ختم ہوا اور ہم نے واپس کراچی دوڑ لگائی یا پھر ایک مرتبہ بیٹے نے احفاظ کے علاج کے سلسلے میں اپنے پاس بلایا تو چند اور یورپی ممالک بھی دکھا دئیے۔ اسی طرح اب بیٹی کے ساتھ چند روز آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو اور آس پاس کے کچھ علاقے دیکھنے کا موقع ملا تو سوچا کہ آپ لوگوں کے ساتھ بھی اپنے تاثرات اور مشاہدات بانٹے جائیں۔ ایک ریاست آذربائیجان ڈیموکریٹک حیثیت سے آذربائیجان کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔تیسری صدی میں اس پر ساسانی ایرانی حکومت کا اور ساتویں صدی میں عرب خلافت کا قبضہ رہا۔ ایرانی اور عرب آذربائیجان کے زرعی اور فوجی اہمیت والے علاقوں میں آباد ہوئے لیکن آذربائیجانی قوم کی تشکیل کا عمل جاری رہا۔ اور آذربائیجان کے شمال جنوب اور مشرقی و مغربی علاقوں کے لوگ لسانی، سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے چلے گئے۔ درمیانی صدیوں کو چھوڑ کر آتے ہیں 1918 میں جب مسلم مشرق آذربائیجان میں 28 مئی کو پہلی آذربائیجان پارلیمانی ڈیمو کریٹک ریپبلک کا قیام عمل میں آیا۔ایک خود مختار اور آزاد مملکت کی حیثیت سے ریاستی اور سرکاری ادارے بنائے گئے۔ جھنڈا اور قومی ترانہ تیار کیا گیا۔ مادری زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ کچھ یورپی ممالک سے بہت پہلے اور مشرق میں پہلی دفعہ عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ بدقسمتی سے آذربائیجان ڈیموکریٹک ریپبلک نے انتہائی پیچیدہ حالات میں جب آرمینیا کی فوجیں آذربائیجانیوں کی نسل کشی کر رہی تھیں، مذاکرات کے بعد ہونے والے سمجھوتے کے نتیجے میں اپنا شہر آئریوان آرمینیا کے حوالے کر دیا۔اس فیصلے نے آذربائیجان کے عوام کے لئے بہت سے الم ناک واقعات کی بنیاد رکھ دی۔ اور آرمینیا کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ زیادہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ، آذربائیجان کی مختصر سی تاریخ یوں ہے۔: 1918 میں خود مختار آذربائیجان کے قیام کا اعلان ہوا اور 1920 میں ریڈ آرمی نے حملہ کر کے اسے سو ویت سوشلسٹ ریپبلک کاحصہ بنا لیا۔اور بتدریج یہ مکمل طور پر سوویت یونین بن گیا۔سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991 میں یہ ایک خود مختار جمہوریہ کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا ۔آذربائیجان کے آئین میں ریاستی مذہب کا کوئی ذکر نہیں اور ساری اہم سیاسی قوتیں سیکولر ہیں۔آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے جن میں سے 89% شیعہ ہیں۔عیسائیوں کے عکسوہ یہاں یہودی بھیی صدیوں سے آباد ہیں۔لیکن لوگ زیادہ سرگرمی سے مذہب پر عمل نہیں کرتے۔آذربائیجان کی ترقی کی سطح بلند اور کئی مشرقی یورپی ممالک کے ہم پلہ ہے۔ اقتصادی ترقی اور خواندگی کی شرح بلند اور بے روزگاری کی شرح کم ہے۔آذربائیجان کے دارالحکومت باکو پہنچ کر تو ہم جیسے کراچی والوں کی آنکھیں پھٹ جاتی ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی شہر اتنا صاف ستھرا بھی ہو سکتا ہے۔ دوربین، خورد بین دونوں لگا کے دیکھ لیں، کہیں گندگی یا کچرا نظر نہیں آئے گا۔اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ کچرا پھینکنے والوں پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ جو یقینی طور پر وصول بھی کیا جاتا ہو گا جب کہ ہمارے ہاں اعلان تو ہو جاتا ہے مگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا۔ بحیرہ کیسپین کا نظارہ کرنے اور پیراکی کے لئے باکو شہر جانے کی بجائے اکثر سیاح ایئرپورٹ سے سیدھا کسی بیچ ہوٹل کا رخ کرتے ہیں اور وہاں دو چار دن گزارنے کے بعد باکو آتے ہیں۔درمیان میں سیاحوں کے لئے ایک اور مقام شادگاہ نیشنل پارک ہے جہاں سردیوں میں اسکئنگ کے اور گرمیوں میں پیرا گلائیڈنگ، رولر کوسٹر، کیبل کار اور دیگر تفریحی مواقع ہیں۔ آگے ایک یہودیوں کی بستی ہے۔ جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے کیونکہ لوگ سمجھتے تھے کہ صرف اسرائیل میں ہی یہودی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ان میں سے کچھ یہودی دنیا بھر میں مشہور ہوئے، جیسے ماہر ریاضی اور Fuzzy Logic کے خالق لطفی زادہ اور آذربائیجان کے واحد نوبل انعام یافتہ ماہر طبعیات لیو لینڈ اور پیانو نواز بیلا ڈیوڈوچ وغیرہ۔ بہرحال تعداد کے لحاظ سے مسلمان پہلے نمبر پر ہیں۔پھر بہائی عقیدے کے ماننے والے ہیں۔ تیسرے نمبر پر عیسائی ہیں۔چوتھے نمبر پر آتش پرست، پانچویں نمبر پر یہودی اور چھٹے نمبر پر ہندو ہیں۔ باکو کی جدید عمارتیں سیاحوں کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کا ڈیزائن عراق کی خاتون آرکیٹیکٹ زاہا حدید نے تیار کیا ہے۔حیدر علییف میوزیم کا ڈیزائن بھی انہوں نے ہی بنایا تھا۔ یہ ایک جدید طرز کی بے حد خوب صورت عمارت ہے۔ ہمارے گائیڈ کے مطابق اس کا ڈیزائن حیدر علییف کے دستخط کے مطابق بنایا گیا ہے، میوزیم کے اندر انہیں ملنے والے غیر ملکی سربراہوں کے تحائف رکھے ہوئے ہیں جن میں یاسر عرفات اور بے نظیر بھٹو کے تحائف بھی شامل ہیں۔ اب یہ حیدر صاحب کون تھے؟ ۔یہ صاحب 1993 سے لے کر 2003 تک آذربائیجان کے صدر رہے۔ باکو میں جگہ جگہ ان کی تصاویر اور یادگاریں نظر آتی ہیں۔ قدیم باکو یا اندرون شہر میں پرانے بادشاہوں کی نشانیاں ملتی ہیں۔”دوشیزہ کا مینار” ایک بادشاہ نے اپنی بیٹی کو تحفے کے طور پر بنوا کر دیا تھا لیکن جب اسے اپنی پسند کی شادی کی اجازت نہ دی تو اس نے اسی مینار سے کود کر خود کشی کر لی۔اس کے علاوہ لوگ مساجد، محلات، آتشکدہ اور مختلف میوزیم بھی دیکھنے جاتے ہیں۔ مختصرا” میں باکو کے بارے میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ یہ خوبصورت لوگوں کا بے حد صاف ستھرا شہر ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچرا پھینکنے والوں سے بھاری جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔عورتیں ہمیں سڑکوں پر کم نظر آئیں لیکن شاپنگ مال میں خوب صورت نوعمر سیلز گرلز نظر آئیں۔لوگوں ظاہر ہے ہمیں تو نظریاتی ناسٹیلجیا ہو رہا تھا، ہر جگہ سوویت یونین کے اثرات ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کچھ نظر نہیں آیا سوائے چند عمارتوں کے۔ایک نو عمر ٹیکسی ڈرائیور سے روس کے بارے میں پوچھ بھی بیٹھے تو اس نے روس کا نام تک نہیں سنا ہوا تھا۔ ہمیں دھچکا سا لگا ، “گھر جا کے اپنے والدین سے پوچھنا۔”ہم نے اپنی خفت چھپائی۔ کچھ چلتے پرزے قسم کے ٹیکسی ڈرائیور بھی ملے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے تو کہا کہ پاکستان میں اس کا ایک دوست بھی ہے۔ اور جب اس نے تصویر نکال کر دکھائی تو ہماری ساتھی کی تو چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی، وہ صدر پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا۔ اللہ جانے تصویر فیک تھی یا فوٹو شاپ کی تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں