مجھے فیس بک کو لے کر کبھی کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ میں نے کبھی فیس بک یا کسی بھی سوشل میڈیا سے یہ توقع ہی نہیں کی کہ وہ میری ذہنی آبیاری کا سامان بھی مہیا کرے گا (اگرچہ اس نے کبھی کبھار ہی سہی، وہ بھی کیا)، مجھے کبھی بھی فیس بک سے یہ امید نہیں رہی کہ وہ کتاب یا کسی دانش گاہ کی جگہ لے سکتا ہے، اگرچہ بیشتر دانش گاہوں میں ہونے والے سیمینار سوائے منتظمین کی خود پسندی اور اپنی تشہیر کے سوا کچھ نہیں۔
نہیں صاحب، میں فیس بک کے قریب اس لیے کبھی آیا ہی نہیں تھا ۔ میں نے شروع ہی سے اسے ’مینا بازار‘ سمجھا ہے۔گاؤں ، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں آپ نے ’مینابازار‘ تو دیکھا ہی ہوگا؟ کیا ہوتا ہے وہاں؟ سب اپنی بولی بولتے ہیں، سب کی اپنی پسند و ناپسند ہوتی ہے۔ کوئی ’موت کے کنویں‘ میں جاری موٹرسائیکل کا رقص دیکھتا ہے تو کوئی اپنی گرل فرینڈ یا بیوی بچوں کے ساتھ نقلی’ٹائٹنک جہاز‘ پر سوار ہو کر فوٹو کھنچواتا ہے، تو ایک طرف ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹولیاں بھی مل جاتی ہیں جو اپنا اپنا ’وَر‘ (بر) یہیں تلاش کرنے کےلیے آتی ہیں۔ مینا بازار میں لگی دکانوں کو غور سے دیکھیے گا،اتنی رنگا رنگ اور مختلف النوع چیزیں آپ کو ائیر کنڈیشنڈ شاپنگ مال میں بھی نہیں ملیں گی۔ کوائلٹی کون دیکھتا ہے، مینا بازار میں شاپنگ کرنے کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔ ہم تو کسی زمانے میں مٹی کی مورتیاں اٹھا لاتے تھے جو گھر آتے آتے کبھی ٹوٹ بھی جایا کرتی تھیں۔
فیس بک کچھ ایسا ہی مینا بازار ہے اور یہ مینا بازار جدید ٹکنالوجی نے ہمیں دیا ہے جہاں رنگ برنگا ماحول ہے، جہاں مختلف زبانیں ہیں، جہاںمختلف پسند و ناپسند رکھنے والے لوگ ہیں، جہاں چہرے کی کوئی اہمیت نہیں، جہاں آپ کے منصب سے کسی کو کوئی مطلب نہیں۔ یہاں کوئی چہرہ نہیں، ایک بے چہرہ مینا بازار، جس میں اگر کسی چیز کی قیمت ہے تو وہ ہے ’رابطہ‘۔
جی ہاں، فیس بک پر اگر آپ کوئی سیمینار برپا کرنے تشریف لائے ہیں، اسے اگر دانش گاہ سمجھ کر آپ نے یہاں قدم رنجہ فرمایا ہے تو لوٹ جائیے۔ لوٹنے کا آپشن تو بہرحال ہمیشہ سب کے پاس موجود ہوتا ہے۔ یہ رابطے کا مینا بازار ہے ، یہ ہر رجحان، ہر تصور اور ہر نظریے کا میلہ ہے۔ یہ کوئی عبادت گاہ نہیں ہے جہاں شرارتی بچوں اور کم پڑھے لکھوں کو پہلی صف سے پیچھےکھدیڑ دیاجائے۔ فیس بک جمہوری مساوات کا سب سے بڑا نمائندہ ہے جس نے ان تمام اداروں کے منھ پر تھپڑ رسید کیا ہے جو اپنی طرح سے اپنی تنظیم یا ادارہ چلانا چاہتے ہیں اور اس پر اپنا ہی اجارہ چاہتے ہیں۔
میں فیس بک سے بالکل بھی مایوس نہیں ہوں بلکہ میں اگر اس کا اعتراف کروں کہ میں نے 28 کتابیں یہیں بیٹھ کر تحریر کی اور شائع کی ہیں، تو اس پر حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں نے جب بھی اثبات کا کوئی خاص شمارہ نکالا تو اسی فیس بک نے میری مدد کی۔ اس فیس بک سے متعلقہ موضوع کے تعلق سے معلومات اکٹھی کیں، اسی فیس بک سے انگریزی اور ہندی کے مترجم مجھے ملے، اسی فیس بک پر میرا ملک اور بیرون ملک کے کئی مصنفین سے رابطہ ہوا اور ان کا تعاون حاصل ہوا، اسی فیس بک پر میں نے کتابوں کا اشتہار دیا اور اسی فیس بک کے احباب نے ان کتابوں کو خوش آمدید کہا، انھیں خریدا، پڑھا اور تبصرہ بھی اسی فیس بک پر کیا، اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستان میں میری تقریباً پندرہ بیس کتابیں جو شائع ہوئیں، وہ بھی اسی فیس بک کے رابطے کا کارنامہ ہے۔
اور سب سے بڑی بات میرے لیے اس فیس بک کی یہ ہے کہ سینکڑوں میرے یہاں دوست بنے۔ ان میں سے کئی آج میرے گہرے دوست ہیں، ان سے ذاتی مراسم ہیں اور آج وہ میری زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ جب میں دو بار بیمار پڑا، تو اسی فیس بک کے احباب نے میری مدد کی، میرے ہر آزمائشی دور میں وہ میرے پاس میرے ساتھ کھڑے تھے۔ چنانچہ فیس بک تو میرا گھر ہے، میری دنیا ہے، میری پرورش گاہ ہے، اسے میں اپنے وجود سے کیسے الگ کرسکتا ہوں؟
دراصل فیس بک یا سوشل میڈیا سے شاکی احباب کا مسئلہ صرف یہی ہے کہ ماڈرن ٹیکنالوجی سے وہ اب تک اس طرح مربوط نہیں ہوپائے ہیں جس طرح مثلاً مغرب۔ نئی ٹیکنالوجی کے اغراض و مقاصد کو وہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی مختلف ٹیکنالوجی کے مختلف آداب سے پوری طرح واقف ہیں۔ ہر ایپ کا ایک مخصوص مقصد ہوتا ہے ، فیس بک ایک رابطے کا ایپ ہے، اسے آپ مثلاً غالب انسٹی ٹیوٹ نہیں بنا سکتے۔ سوشل میڈیا رابطے کی بنیاد پر خود کو ایستادہ کرتی ہے۔ یہ تو فیس بک ہے جہاں آپ طویل پوسٹ ڈال سکتے ہیں، اپنے ہم خیالوں سے بحث کرسکتے ہیں لیکن یہ سہولت آپ کو ٹوئٹر اور انسٹا گرام میں مہیا نہیں ہے جہاں لفظوں کی قید ہے اور جہاں لفظوں کی بجائے تصویریں بولتی ہیں، شاید اسی لیے ہمارے اردو کے سیمیناری دانشور کی وہاں دال نہیں گلتی اور وہ وہاں کم ہی نظر آتے ہیں۔
اگر کسی کو پسند ہے کہ وہ اپنی کتابوں کی بلکہ اپنی تشہیر فیس بک پر کرے، اپنی بے بحر غزل پوسٹ کرے، اپنے مذہبی اعتقادات کو شیئر کرے، اپنے گھر میں موت اور پیدائش کی خبر شیئر کرے وغیرہ تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ (حالاں کہ شاکی حضرات اگر ادیب ہیں تو خود اپنی کتابوں کا اشتہار اور ان کتابوں پر تبصرے بڑے فخر سے اپنی ٹائم لائن پر شیئر کرتے رہتے ہیں )آخر کیوں زبان بند کرنا چاہتے ہیں دوسروں کی؟ کیوں چاہتے ہیں کہ ہر شخص آپ کی طرح باوضو مقطع صورت بنا کر اپنی ٹائم لائن پر توبتہ النصوح ہی پیش کرے ؟ علیحدگی پسندی کا یہ رویہ کہیں آپ کا مزاج تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ فیس بک پر بھی اب اردو کا ایک اشرافیہ طبقہ جنم لے چکا ہے جو ’کم ذاتوں‘ کو اپنی صف میں کھڑا دیکھ کر ہتک محسوس کرتا ہے اور فیس بک پر بھی اپنی اجارہ داری چاہتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کیوں دوسرے کیا لکھ رہے ہیں، کیا کررہے ہیں، اس کی فکر میں دُبلے ہو رہے ہیں؟ میں بھی تو آپ ہی کی طرح اسی فیس بک پر ہوں، لیکن انھی ہنگاموں کے بیچ رہ کر بھی کتابیں مرتب کررہا ہوں، ہزاروں صفحات مختلف کتابوں کی پڑھ رہا ہوں، انھیں منتخب کررہا ہوں، ناول اور افسانے تصنیف کررہا ہوں، ترجمہ کررہا ہوں ، وغیرہ۔ بقول نگار عظیم گزشتہ تین چار سالوں سے میرے کام میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے، لیکن یہ کام میں نے فیس بک پر چوبیس گھنٹےرہنے کے باوجود کیا ہے، کیسے؟ پھر وہی بات آجاتی ہے،دراصل ہمارے بیشتر دقیانوسی احباب کو اب تک ماڈرن ٹیکنالوجی کو اپنی انگلی پر نچانا نہیں آیا، اس سےکیا کام لیا جا سکتا ہے اور کیسے لیا جانا چاہیے، اب تک انھیں اس کا سلیقہ آیا، نتیجتاً انھیں یہ جدید ٹیکنالوجی چوہے دانی میں پنیر کے ٹکڑے کی طرح استعمال کرلیتی ہے اور پھر ظاہر ہے ناکامی کی صورت میں ان پر ڈپریشن سوار ہوجاتا ہے اوروہ انتقاماً سوشل میڈیا کو یا پھر اس کااستعمال کرنے والوں کو کوسنا شروع کردیتے ہیں۔
ایک معروف الزام تشہیر پسند ی کا اکثر وہ لوگ لگا تے ہیں جنھیں عموماًسوشل میڈیا پر لوگ زیادہ لفٹ نہیں دیتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ ہم لکھتے کیوں ہیں؟ لکھنے کا عمل چاہے آدمی کو تنہا کردیتا ہو لیکن ایک بار وہ پکی روشنائی میں چھپ گئی تو ہر مصنف چاہتا ہے کہ لوگ اسے کچھ لوگ پڑھیں، اپنی رائے دیں۔ کیا یہ تشہیر ہے؟ کیا آپ غزل، افسانہ یا ناول لکھ کر سرسوتی ندی کی نذر کردیتے ہیں اور ایک بار پھر مراقبے میں چلے جاتے ہیں؟ اس ے برعکس میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ آپ کی کتاب پر اگر کوئی تبصرہ ہوجائے تو پھر آپ اسے مہینوں ڈھوتے پھرتے ہیں۔ آپ اپنے منعقدہ سیمینار یا اس سیمینار میں مائک کے سامنے بولتے ہوئی اپنی تصویر کو شیئر نہیں کرتے؟ تو پھر آپ کے فارمولے کے مطابق یہ بھی تشہیر ہوئی۔ تو آپ کو دوسروں کی کتابوں کی تشہیر پر کیوں کلام ہے؟ کیا اس کا ایک ہی معنی ہے کہ چونکہ آپ زیادہ کام نہیں کرپاتے اور عموماً دو چار سال میں انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کے قائل رہے ہیں، اس لیے آپ کو تشہیر کے مواقع کم ملتے ہیں؟ ارے بھائی فیس بک اسی لیے تو ہے کہ آپ ان لوگوں تک پہنچیں اور اپنی بات، اپنی کتاب ان تک پہنچائیں جو آپ کی رسائی سے باہر ہیں۔ اس میں تشہیر پسندی کہاں سے بیچ میں آگئی؟
آخری بات یہ کہ، مجھے فیس بک سے اسی طرح کوئی شکایت نہیں ہے جیسے اپنے ٹی وی سے نہیں ہے، جس میں ایک سو سے زیادہ چینل آتےہیں، اس لیے کہ میرےہاتھ میں ریموٹ ہے، میں اپنی سہولت، پسند ، وقت اور ضرورت کے مطابق چینل بدلنے پر قادر ہوں اور کب ٹی وی کا سوئچ آف کیا جائے، یہ بھی جانتا ہوں۔ اگر آپ کو فیس بک پسند نہیں ہے تو سوئچ آف کردیجیے اور نکل جائیے اس طرف جہاں آپ کی طوطی بولتی ہو، کس نے روکا ہے۔
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں