آخری ماہواری سے منسوب خط/مسلم انصاری

عمر بیت چکی ہے
اب مجھے شہنائیوں کے شور میں چوڑیاں ٹوٹنے کی آواز سنائی پڑتی ہے
کبھی کبھار گلی میں کچھ بچوں کا شور اٹھتا ہے تو نبض تیز چلنے لگتی ہے، میں سوچتی ہوں کہ شاید کسی بچے کی گیند دالان میں آن گرے تو وہ اسے پانے کی خاطر دروازہ بجائے گا
کبھی کبھار ریڑھی بان گزرتے ہیں تو دل میں خیال آتا ہے کہ کچھ نا کچھ خرید لینے میں کیا برائی ہے؟ مگر میں بیساکھیوں کے سہارے بھی ڈگمگا سی جاتی ہوں
ردی والے کو دینے کے لئے میرے پاس کچھ کاٹھ کباڑ نہیں نا ہی اسے آواز دے کر روک سکتی ہوں کہ مجھ اس بوسیدہ کباڑ کو بھی ساتھ لے کر چلتا بنے
خاکروب اور اخبار پھینکنے والا بچہ تسلسل سے اپنے کام گلی میں سمیٹ کر چلے جاتے ہیں، خاکروب کے جھاڑو سے اٹھتی دھول اوپری منزل کے جھروکوں سے دکھائی پڑتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ بچے کے اخبار پھینکنے کی آواز شاید میرے لئے اس دنیا کی آخری دُھن ثابت ہو
آج جب اپنی بیساکھیوں کا سہارا لے کر کمرے سے نکلی ہوں تو شہر کا موسم بالکل میری آخری ماہ واری کے روز جیسا ہے
کہیں کہیں تو بادل ہیں اور کہیں چھٹ چکے ہیں
ایک بٹن کی مدد سے صحن میں ہمیشہ ٹی وی آن رہتا ہے
اور پھر آج ساری خبریں ہی اچانک بدل جانے والے موسم کی ہیں
پتہ ہے اس روز، جب مجھے خون آنا بند ہوگیا، یہ وہ آخری امید تھی جو تمہارے بدن کو چھوئے بغیر مر گئی
شوگر سے کٹی ایک ٹانگ کے بعد جانے کتنے عضو ناکارہ ہوتے چلے گئے
میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے بوسے، تمہارے نرم ہونٹوں کو چکھے بنا برسوں سے بیکار پڑے پُرزوں کی مانند ضائع ہو گئے اور ۔۔۔۔ اور بچے جننے کی طلب کے مرنے نے، پیٹ میں موجود تھیلی نمک لگائی کھال کی طرح اکڑا کر رکھ دی ہے
اب ایک کمرے میں زمین پر بچھائے بستر کے سوا یا تو میں ہوں یا وہ بیساکھیاں ہیں جو خام خام ہی میرا بوجھ ڈھوتی ہیں، البتہ اب بھی تمہاری کوئی نا کوئی تصویر کمرے سے نکل آتی ہے
تم، جس نے کئی بار میری رانوں پر سر رکھ کر اپنے بالوں میں مجھ سے انگلیاں پھروائیں تھیں
تم جانتے ہو!
مجھ اک بوڑھی اور بیمار عورت کے ادھ مرے لمس ہر سال اگست کی تاریخوں میں جاگ جاتے ہیں
ہونٹ نیم وا گُلوں کی مانند بے دھڑک کھلتے ہیں جیسے تم ہوا کا جھونکا بن کر مجھے چومنے کو آؤ گے، پر تمہیں تو بچھڑے اس برس 17 سال بیت جائیں گے
پھر بھی میں بستر پر آس کی پتیوں کی طرح گر جاتی ہوں جیسے تم شبنم کی پھوار سے ہو کر میرے جھرریوں بھرے بدن پر اپنے گیلے پَورے پھیرنے والے ہو
آہ! ایسے تو کمرے میں کیا، گھر میں بھی کوئی نہیں آتا بس سالہا سال کے بعد کچھ اداروں کی جانب سے معذوروں کو دیا جانے والا معاوضہ یا پھر ساتھ کے گھروں سے دو روز بعد کچھ کھانے کو بھیج دیا جاتا ہے
اور جو مہینوں بعد میرے اکلوتے بھائی کی جانب سے تڑی مڑی رقم کے نوٹ کوئی دروازے کے نیچے سے کھسکا جاتا ہے
کیا تمہیں معلوم ہے؟ اس لفافے کے دروازے کے نیچے سے گھسٹ کر اندر آنے کی چرچراہٹ سب پر بھاری ہے!
ہر ایک اگست میں نے تمہیں خطوط لکھے
کیا میں تمہیں نہیں بتانا چاہتی کہ بالوں میں کنگا کئے مہینوں بھرے ہفتے ہونے کو ہیں؟ اور میری ساری لکھی نظمیں ایسی ہیں جیسے وہ فقط ماہواری میں کہی گئی ہوں!
دیکھو نا مجھ سے اب اور نہیں لکھا جاتا!
آخر کو کتنے اور برس مجھے تمہاری برسی پر خطوط لکھنے ہونگے؟ اور کیا جب ہم ملیں گے تب تم مجھے صدیوں سے بند پڑے بوسے کھول دوگے؟
میرے مرجھائے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھو گے؟
کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہارے بغیر کسی طور زندہ نہیں رہ سکی!
میرے حبیب!
میں انتظار کی سولی پر ٹنگی رہ گئی ہوں اور انتظار
اِس اکلوتی منزل کی ہر دیوار پر ایسے ہی لٹکا ہوا دکھتا ہے جیسے بھرے باغیچے میں بیلوں کا ہرا گچھا ہو، جس پر موت کی چڑیا اترنے کے لئے پَر تول رہی ہے
میرے ستم زاد محبوب!
میں موت کی چڑیا کو دیکھ سکتی ہوں جس کے سب ہی پَر رنگین ہیں، اس کی چونچ لمبی اور نوکیلی ہے، اس کے پنجے چمکدار ناخنوں کی بہتات سے چھپے ہوئے ہیں
میں سوچتی ہوں جب وہ مجھے کھرچنا شروع کرے گی تو اس درد کی لذت انتظار کی کڑواہٹ مٹادے گی
پر حبیبِ روح! یہ چڑیا میرے بدن کے درخت پر کیوں نہیں اتر رہی؟ میرے خطوط کے جواب میں بھیجی تمہاری چڑیا آتے آتے رک کیوں جاتی ہے؟
کیا تم میرا کوئی خط نہیں پڑھتے؟
ختم شد!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply