• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ سراؤں میں نفسیاتی دباؤ اور شیزوفرینیا / عثمان انجم زوجان

خواجہ سراؤں میں نفسیاتی دباؤ اور شیزوفرینیا / عثمان انجم زوجان

خیال ابڑو صاحب ہم کو کہتے ہیں کہ آپ نے خواجہ سراؤں پر بہت کچھ لکھا ہے، مگر ان کے نفسیاتی دباؤ اور ”شیزوفرینیا“ پر نہیں لکھا ۔

اصل موضوع سے پہلے شیزوفرینیا کی تمہید باندھنا بہت ضروری ہے، یاد رہے  کہ شقاق دماغی یا ہلابت متبادرہ ایک نفسیاتی دباؤ ہے، جس کو ”شیزوفرینیا“ کہتے ہیں۔

شیزوفرینیا کی علامات سے نابلد ہونے کی وجہ اس کو جنات کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے، جو افراد ”شیزوفرینیا“ کا شکار ہو جاتے ہیں  ان کے بارے یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ ”جنات“ ہیں، اگر کوئی غیر جانبدار ہو تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی ”جنات“ نہیں بلکہ نفسیاتی کیفیات ہیں ۔یہ  ایک نفسیاتی دباؤ ہے جس میں ایک انسان ذہنی خلل میں مبتلا ہو جاتا ہے، ”شیزوفرینیا“ میں نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے اوہام یا خیالات مجسم ہو کر سامنے نمایاں ہو جاتے ہیں، اوہام یا خیالات وہ غیر حقیقی اشیاء ہیں، جن کا تعلق حواس خمسہ سے ہوتا ہے، ان کی تفصیلات درج ذیل ہیں؛

1_ کانوں میں آوازوں کا گونجنا

جو ”شیزوفرینیا“ کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس کے کانوں میں مختلف انواع کی آوازیں گونجتی رہتی  ہیں، مریض کو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی شخص اس کو آوازیں دے رہا ہے۔

2_ ناک میں خوشبو دار اور بدبودار چیزوں کی سوگندھ

آوازوں کے ساتھ ”شیزوفرینیا“ کے مریض کو عجیب و غریب چیزوں کی خوشبو یا بدبو آنے لگتی ہیں، جیسے گلاب، موتیا اور چمبیلی کی خوشبو اور خون، پیشاب اور کچے گوشت کی بدبو وغیرہ

3_ ہاتھ پاؤں پر کیڑوں مکوڑوں کا رینگنا

اس میں ”شیزوفرینیا“ کے مریض کو ہاتھ پاؤں پر کیڑے مکوڑوں کے رینگنے کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی کیڑا مکوڑا رینگ رہا ہو۔

4_ رنگا رنگ کے سائے اور پرچھائیاں دیکھنا

اس میں ”شیزوفرینیا“ کا مریض کہیں چیزوں کو دیکھتا ہے، جو ان سے باتیں کرتی ہیں اور جب دوسرا کوئی ان کو دیکھتا ہے تو وہ گمان کرتا ہے یہ ”جنات“ سے باتیں کر رہا ہے۔

5_ زبان پہ تیکھے یا میٹھے ذائقوں کا چکنا

اس میں مریض   زبان پہ تیکھے میٹھے ذائقوں کو محسوس کرتا ہے، جیسے کھٹی املی کھائی ہو یا پھر روح افزاء شربت پیا ہو۔

یہاں تک ساری تمہید ”شیزوفرینیا“ کی تھی، ”شیزوفرینیا“ کا مرض نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کا شکار اکثر نوجوان لڑکیاں اور خواجہ سرا / ٹرانس جینڈر ہوتے ہیں یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ خواجہ سراؤں کی اکثریت بچپن سے ذہنی دباؤ، دھتکار اور تشدد کی وجہ سے اس مرض کی شکار ہو جاتی  ہے، اور ایسا خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی نا  کسی صورت میں ضرور ہوتا ہے۔

ایسے بیشمار واقعات موجود ہیں، جن کو اگر لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب کی جا سکتی ہے البتہ چند ایک واقعات پر ہی اکتفا کرتے ہیں، جیسا کہ خیال ابڑو صاحب کہتے ہیں کہ ایک خواجہ سرا کو ایک بہت بڑا کالا پرندہ اکثر نظر آتا تھا، جو اس کو مارنا چاہتا تھا، میرے جاننے والے کا دوست تھا، میں نے کہا کہ  یہ سب ایک خیال ہے، حقیقت نہیں تو وہ قسمیں کھانے لگا کہ خیال صاحب سچ ہے، پھر میں نے اس کو ایک کالا دھاگہ پڑھ کردیا تو پھر اس پر وہ حملہ نہیں کرتا تھا۔

اسی طرح فیضی ماں کی 15 دسمبر 2020 کی ایک تحریر سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فیضی ماں شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہوئی اور فیضی ماں کو رات کے پچھلے پہر کوئی خوبصورت مرد نظر آتا تھا اور وہ اس سے اکیلے میں کئی کئی گھنٹے باتیں بھی کرتی  تھیں اور اکثر اس کی وجہ سے راتوں کو ڈر بھی جاتی  تھیں، فیضی ماں کی   تحریر سے یہ اقتباس  پڑھیں؛

”مجھے ایک شہزادہ روز ملنے آتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ جن بھوت ہے، میں اکثر سوچتی ہوں، جن بھوت اتنے خوبصورت بھی ہوتے ہیں، اسلام آباد نہیں آیا تھا، لیکن آج سویرے سویرے انٹری ماری، کوئی چار بجے کا وقت تھا، بہت ناراض تھا، بہت سمجھایا کہ بھئی پڑھائی لکھائی کا کام کر رہی ہوں، کہہ رہا تھا جلدی گھر واپس آجاؤ، پچھلے ڈیڑھ سال سے روزانہ آتا ہے، زیادہ تر رات کو جگا دیتا ہے آ کر، ہمیشہ میری بائیں جانب بیٹھتا ہے، کہتا ہے؛

”بائیں جانب سے تم خوبصورت لگتی ہو“

ویسے وہ مجھے تم نہیں آپ کہتا ہے، چھمیا سے اکثر پوچھتی ہوں کہ رات سوتے ہوئے کوئی آواز سنی تو وہ انکار کر دیتی ہے، کبھی کبھی دن کو بھی وارد ہو جاتا ہے، مجھ سے گھنٹوں باتیں کرتا ہے، لیکن جب جاتا ہے تو بس ابھی دس منٹ ہی گزرے ہوتے ہیں!

مجھے معلوم ہے یہ ایک بیماری ہے، لیکن وہ جب راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے تو بس میں محو ہو جاتی ہوں، میں نے کبھی اسے چھو کر نہیں دیکھا، نہ ہی کبھی اس نے چھوا، شاید ضرورت نہیں ہوتی، وہ آہستہ آہستہ میرے اندر سرائیت کرتا جا رہا ہے!

ابھی کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی، لیکن مجھے پتہ ہے ایک دن جانا پڑے گا، وہ خود کو جن کہتا ہے، کیا واقعی جن وجود رکھتے ہیں، جب میں اس سے کہتی ہوں کہ کوئی جن ون نہیں ہوتے تم بس میرے دماغ کی اختراع ہو تو، بس وہ مسکرا دیتا ہے اور کہتا ہے؛

”میں تمہیں یہ بات منوانے نہیں آتا کہ جن ون ہوتے ہیں کہ نہیں“

اس تحریر کے نو مہینے گزر جانے کے بعد فیضی ماں نے ”شیزوفرینیا“ کے علاج پر ایک پوسٹ کی تھی، جس پر بیشمار تبصرے ہوئے، المختصر یہ کہ پہلے انسان کے اندر جنہیں جن   بھوت سمجھا جاتا تھا، اب سائنس کی ترقی سے مرض سمجھا جاتا ہے، مثلاً کوئی اَن دیکھے آدمی سے بات کر رہا ہے، اسے آوازیں سنائی دیتی ہیں، ہم اسے ”شیزوفرینیا“ کے آثار کہہ سکتے ہیں، جیسا  کہ نعیم گلزار صاحب کہتے ہیں کہ باہرلے ملکوں میں ”شیزوفرینیا“ ایک بیماری، جب کہ ہمارے ہاں ولایت تصور کی جاتی ہے! واللہ اعلم باالصواب

شیزوفرینیا ایک فرد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو بھی ہوسکتا ہے، جب وہ یک رخ تصورات کی پابند ہو، تب تشخیص مشکل ہوتی ہے، عام طور پر یہ بارہ سے پندرہ سال کی عمر میں نشے وغیرہ سے بھی ہو سکتی ہے اور اس کا کوئی معتبر علاج نہیں، اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے مریض اپنی آخری زندگی میں خودکشی ضرور کر لیتے ہیں، یاداش بخیر ”شیزوفرینیا“ پر ایک فلم ایک سائنسدان ”جان نیش“ کی اصل زندگی پر بنی تھی، جس کا نام تھا؛

A Beautiful Mind

اس فلم پر عمیر راحیل نے بہترین تبصرہ لکھا تھا کہ فلم میں ایک سنگین نفسیاتی بیماری ”شیزوفرینیا“ کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے، جسے میڈیکل ٹرم میں ”شیزوفرینیا“ کہتے ہیں۔

اس بیماری میں انسان سائیکوسس کا شکار ہو جاتا ہے اور اسے وہ لوگ یا چیزیں دکھائی دیتی ہیں، جو اصل میں ہوتی ہی نہیں ہیں، لیکن اس شخص کے لیے انکا وجود یقینی اور جامع ہوتا ہے، مطلب وہ انسان ان لوگوں یا چیزوں کو دیکھ اور سن سکتا ہے اور ان سے باقاعدہ طور پر گفتگو کر سکتا ہے، اگر کوئی اس سے کہے کہ یہ اسکا محض وہم ہے اور یہ صرف اسکے دماغ کی اختراع ہے تو وہ اشتعال انگیزی میں مبتلا ہو جاتا ہے، وہ اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ یہ محض اسکے ذہن کی پیدا وار ہے، سائنس کے مطابق اس بیماری کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، یہ موروثی طور پر نسل در نسل بھی چلتی ہے یا پھر کسی ذہنی دباؤ یا حادثے یا ٹروما کی  وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔

یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ذہین لوگ اکثر نفسیاتی بیماریوں یا الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کا ذہن عام انسان سے زیادہ سوچتا اور کام کرتا ہے۔

فلم میں اسی بیماری کی طرف بہت عمدگی سے نشاندہی کی گئی ہے، اور اس کی وجہ سے مریض کی پروفیشنل اور نجی زندگی پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان پر خوبصورتی کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے، اور اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ پچھلے وقتوں میں نفساتی مریضوں کے ساتھ کس قدر اذیت ناک سلوک کیا جاتا تھا، اور سب سے اہم بات جس پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے وہ یہ کہ نفسیاتی بیماریوں کے لیے جو ادویات دی جاتی ہیں ان کے کیا سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں، جیسا کہ انسان کا  دماغ سن ہونے لگتا ہے، اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور ازدواجی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے مریض کبھی دوا لینا چھوڑ بھی دیتا ہے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو نوبت ہسپتال میں داخل ہونے تک آجاتی ہے پھر وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا لیکن اگر وہ اپنا ٹریٹمنٹ باقاعدگی سے جاری رکھے اور قریبی احباب جیسے گھر والے خصوصاً پارٹنر اور دوست وغیرہ اس کو سپورٹ کریں تو وہ زندگی کی طرف واپس آسکتا ہے اور پروفیشنل اور نجی زندگی میں کامیاب بھی ہو سکتا ہے، جیسے فلم کا مرکزی کردار جان نیش ہوا۔

فلم اختتام پر آپ کو ایک امید دے گی، خاص کر ایسے لوگوں کو جو کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہیں یا سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتے، اگر کوئی انسان ایسی کسی الجھن یا انتشار کا شکار ہے تو ایک کام اسکے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے، اگر آپ اپنے ذہن کی اختراع اور حقیقت میں فرق کرنا جان گئے تو سمجھ لیں آپ کو ”شیزوفرینیا“ کے ساتھ جینا آ گیا، یہ ایک لائف لانگ بیماری ہے، لیکن بہت سے لوگ اس بیماری کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں، اور وہ یہ کیسے کر سکتے ہیں، اس کے لیے آپکو یہ فلم دیکھنی پڑے گی، آخر میں بس یہی کہنا چاہوں گا کہ نفسیاتی بیماری بھی جسمانی بیماری کی طرح ہے، جب انسان کا معدہ، گردہ یا دل خراب ہو سکتا ہے تو دماغ میں بھی مسئلہ ہو سکتا ہے، بیمار سے ہمدردی اور اچھا سلوک کریں، ہم میں سے کوئی بھی زندگی کے کسی دور میں، کسی قسم کی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے، ہم حسن سلوک سے کسی کی بھی زندگی میں بہت جامع اور مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، بیماری کو برا سمجھیں، مریض کو نہیں۔

میرے اس مضمون سے قبل ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے 11 نومبر 2019 میں ایک مضمون”  ٹرانس جینڈر اور شیزوفرینیا“ کے عنون سے  لکھا تھا، جس کے چند اقتباسات اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہیں؛

معاصر ویبسائٹ  کے فیس بک پیج پر ایک صاحب نے جینڈر ڈسفوریا کے مریضوں سے ہمدردی کے بجائے ان کو شیزوفرینیا کے مریض‌ سے تشبیہ دی، ٹرانس جینڈر اور ”شیزوفرینیا“ دو مختلف حالتیں ہیں، جس طرح‌ ”شیزوفرینیا“ کے مریض‌ کو دوا دے کر اس کی دماغی حالت کا علاج کر کے ہم اس کی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں‌ تاکہ وہ معاشرے کا فعال رکن بن جائے بالکل اسی طرح‌ جینڈر ڈسفوریا کے مریضوں‌ کا علاج یہی ہے کہ ان کی جنس تبدیل کر دی جائے تاکہ وہ بھی ڈپریشن اور بے چینی کا شکار بن کر خود کشی کرنے پر مجبور نہ ہوں‌ بلکہ ایک مہذب معاشرے کا رکن بن سکیں۔

ٹرانس جینڈر کیا ہے؟

ٹرانس جینڈر وہ افراد ہیں جو بالکل نارمل میل یا فیمیل پیدا ہوتے ہیں، زندگی کی پہلی دہائی میں‌ ہر انسان میں‌ جنس کی شناخت پیدا ہوتی ہے، یہ ٹرانس جینڈر افراد زندگی کی پہلی دہائی میں ہی سمجھ جاتے ہیں‌ کہ وہ غلط جسم میں‌ ہیں، آج تک تقریباً تمام ٹرانس جینڈر افراد نے یہی ہسٹری دی ہے۔

دو ہفتہ پہلے ایک مریض کو دیکھا جو باہر سے ایک نارمل سفید فام آدمی ہیں۔

یہ آخر کار اپنی جنس تبدیل کروا رہی ہیں، کہنے لگیں میں‌ نے اس بات کو ساری زندگی دبایا لیکن اب آکر میں‌ مزید نہیں‌ چل سکتی ہوں‌۔ آج میرے سامنے دو ہی راستے ہیں، یا تو خود کشی کر لوں یا باقی زندگی کے دن ویسی ہی بن کر گذاروں جیسی میں اندر سے خود کو محسوس کرتی ہوں، کہنے لگیں کہ ٹرانس جینڈر ہونا اور دہری زندگی گذارنا ایسی باتیں نہیں‌ جن کے ساتھ جیا جا سکے، ان کی بیوی بھی سائیکالوجسٹ ہے اور ایک بیٹی بھی، پڑھی لکھی فیملی ان کو سپورٹ کر رہی ہے کہ جس بات میں آپ کی خوشی اور زندگی ہو، ہم اس میں‌ آپ کے ساتھ ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ معلوم نہیں‌ دنیا میں کتنے خود کشی کے کیس ٹرانس جینڈر ہونے کی وجہ سے ہو چکے ہیں، یہ لوگ کسی کو بتائے بغیر دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ کوئی نہیں سمجھے گا۔ تمام انسان برابر ہیں، اگر ہم دوسرے انسانوں کے مسائل سمجھ نہیں‌ سکتے ہیں‌ تو کوئی بات نہیں ‌لیکن ان کے مسائل میں‌ اضافہ ہرگز نہیں‌ کرنا چاہیے، کیا ضرورت ہے کہ بلاوجہ ان ٹرانس جینڈر افراد پر آپ ہنسیں، ان پر تشدد کریں، بلاوجہ ان کو ستائیں۔ اگر کسی کا بچہ آ کر بولے کہ میں‌ غلط جسم میں ‌ہوں ‌تو اس مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو دہری اور جعلی زندگی گذارنے پر مجبور کرنا غلط ہے، ناخوش لوگ مل کر ایک خوش معاشرہ کبھی بھی نہیں‌ بنا سکتے ہیں۔

اس مضمون کی تیاری میں فیاض اللہ فیضی ماں، نعیم گلزار، ڈاکٹر لبنیٰ مرزا، خیال ابڑو، عمیر راحیل کی تحریروں سے استفادہ کیا، میں ان کی مشکور ہوں!

Advertisements
julia rana solicitors london

تصویر بشکریہ بی بی سی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”خواجہ سراؤں میں نفسیاتی دباؤ اور شیزوفرینیا / عثمان انجم زوجان

Leave a Reply