کالیہ/شاہین کمال

اب تو یادوں کی پٹاری سے کوئی یاد نکالنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا الجھے ہوئے ریشم کے ڈھیر سے کسی مخصوص رنگ کا ریشم تلاشنا۔ سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا ہے، سوچنے کچھ بیٹھو، یاد کچھ اور آ جاتا ہے۔
پتہ نہیں تین دن سے کالیہ کیوں یاد آ رہا ہے۔
مگر وہ آیا کب تھا؟
اب اتنے عرصے بعد وقت کا صحیح تعین قدرے مشکل ۔ اتنا تو طے ہے کہ ہم جامعہ کراچی سے فارغ ہو چکے تھے اور ICI کی لیب میں بطور ٹیکنیشن کام شروع کر چکے تھے ۔ ICI ہم نے ایم ایس سی کے رزلٹ سے پہلے ہی جوائن کر لی تھی، غالبا مئی کا مہینہ ہو گا۔
میری نوکری کی سب سے اچھی بات، آفس وین سے پک اینڈ ڈراپ . میرے خیال میں لڑکیوں کے لیے یہ بہترین سہولت . اس طرح لڑکیاں بحفاظت، عزت کے سات گھر سے
آتی جاتی ہیں اور سڑک پر ان کا تماشا نہیں بنتا۔ میری پہلی پہلی نوکری تھی اور میرے لیے ہر بات ہی طلسم ہوش ربا. آفس کا ماحول مناسب ہی تھا۔ میرا تعلق چونکہ لیب سے تھا لہذا مین آفس سے کم کم ہی واسطہ رہتا۔ لیب میں ہم تین لڑکیاں تھیں. ہم ، یاسمین، فہمیدہ اور ہمارے دو مینیجر یعنی کل پانچ افراد ۔ ٹھیک اٹھ بجے وین میرے دروازے پر ہوتی اور پانچ بجے میری گھر واپسی۔ ویسٹ وارف سے پاپا کی واپسیں میرے بعد ہوتی.
پاپا وسٹ وارف میں حکیم سنز میں سینیر سیلز مینیجر تھے۔ انہیں دوسرا ہارٹ اٹیک 1979 میں ہو چکا تھا اس لیے ان کی ڈرائیونگ پر ڈاکٹر نے پابندی لگا دی تھی اور پاپا سرکلر ٹرین سے وسٹ وارف جاتے ۔ اسٹیشن سے پاپا کی آفس قریب ہی تھی اور گھر کے پیچھے ہی کریماباد کا اسٹیشن بھی سو سفر قدرے آرام دہ ۔ ڈرائیونگ کی ٹیشن نہیں تھی. دفتر سے واپسی پر تو محلے کے دیگر افراد بھی پاپا کے ساتھ ہوتے.
وہ کراچی کی مخصوص حبس بھری شام تھی، پاپا دفتر سے واپس آئے تو اطلاع دی کہ باہر گاڑی کے نیچے ایک زخمی کتا بیٹھا ہے سو جو بھی باہر جائے احتیاط سے جائے ۔ یہ سنتے ہی ہم بےچین ہو گئے ۔ امی سے بھی ڈانٹ پڑ گئ کہ پگلاؤ مت ، زخمی کتا ہے کاٹ دیا تو پیٹ میں چودہ انجیکشن لگیں گے ۔ اف! دنیا میں اگر ہم کسی چیز سے ڈرتے تھے تو وہ یہی پیٹ میں انجیکشن سے۔ خیر امی کی دانٹ سن کر چپکے بیٹھ رہے اور صبر سے کام لیا۔ پر کب تک!! جیسے ہی امی کہیں اور مصروف ہوئیں، ہم بھاگ گم بھاگ اسٹور روم پہنچے، جہاں پانی کی موٹر کے پیچھے امی ڈھاکہ سوئیٹس کے میٹھی دہی کے مٹی کے پیالے سنبھال کر رکھتی تھیں ۔ ہمیں امی کا مٹی کے کوزے سنبھال کر رکھنے کی تک سمجھ میں نہیں آتی تھی پر آج تو ان کی موجودگی ویسی خوشی دے رہے تھے جیسی دراز میں حفاظت سے رکھی ہوئی لاٹری کی ٹکٹ ۔ فٹافٹ دو پیالے لیے انہیں دھو دھلا کر صاف کیا، ایک پیالے میں پانی اور دوسرے میں نیم گرم دودھ اور اس میں چوتھائی چائے کی چمچی ہلدی ملائی اور دبے قدموں باہر کا رخ کیا ۔ گھٹنوں کے بل جھک کر گاڑی کے نیچے جھانکا. اف!! کان کے پاس سے اس کا سر بری طرح زخمی تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی بری طرح غرایا گو نحیف و نزار تھا مگر آواز کی گرج سلامت تھی۔ میرا تو کلیجہ دہل گیا۔ دونوں پیالوں کو گاڑی کے اگلے ٹائر کے پاس رکھا اور اندر کی جانب دوڑ لگا دی۔ سارے وقت میرا دھیان اسی کی طرف لگا رہا۔ سونے سے پہلے پھر امی کی نظر بچا کر باہر کی راہ لی دیکھا تو دونوں پیالے خالی تھے، بڑی خوشی ہوئی ۔ مگر بے غیرت ہمیں دیکھتے ہی دوبارہ غرایا ۔ ہم نے اندر آ کر باورچی خانے سے ایک روٹی لی اس پر ہلکی سی گھی لگائی اور اس کے چار چھ ٹکڑے کر دیے ۔ روٹی کے ٹکڑوں کو گاڑی کے اگلے ٹائر کے پاس رکھا اور ساتھ ہی تازہ پانی بھی بھر کر رکھ دیا۔ پتہ نہیں غریب انسانوں کا کتنا ستایا ہوا تھا کہ اس مرتبہ بھی غرانا نہیں بھولا۔ جیسے ہی ہم نے کمرے میں قدم رکھا امی کی غصے بھری آواز آئی ” شروع ہو گئی تمہاری خاطر داریاں”، آخر تم کب سدھرو گی۔” ہم نے جلدی سے اپنی شکل گم کی اس یقین کے ساتھ کہ جلدی ہی امی کو منا لیں گے.
امی کو منانا مشکل کام نہیں تھا کہ مائیں بھی اللہ میاں کی طرح معاف کرنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہیں ۔
میری زندگی میں ایک نہایت اہم مصروفیت شامل ہو گئی تھی ۔ اگلی صبح فجر کی نماز کے بعد پھر وہی ہلدی دودھ اور پانی کی روٹین دہرائی ۔ اس دفعہ غرایا تو ضرور مگر غراہٹ میں وہ گرج نہیں تھی البتہ ” میرے نزدیک نہ آنا” کی تنبیہہ ضرور ۔ روشنی میں اس کا زخم دیکھا تو اندازہ ہوا کہ صورت حال خاصی خراب ہے. روٹی میں گھی لگاتے ہوئے ایک پیراسیٹامول کی گولی کو پوڈر کر کے چھڑک دیا۔ اس نے روٹی کو دو تین بار سونگھا، منہ بھی ہٹایا پر بھوک سے شکست کھا گیا ۔ ہم نے پاپا سے اس کے زخم کی گہرائی کا ذکر کیا ۔ پاپا نے شام کو واپسی پر دوا لیتے آنے کا وعدہ کیا ۔ ہم باپ بیٹی اپنے اپنے کام پر سدھارے۔
دفتر سے واپسی پر گھر کے دروازے پر اتر کر سب سے پہلے جھک کر گاڑی کے نیچے جھانکا، اسے موجود پا کر اطمنان ہوا. شکر کہ کہیں بھاگ نہیں گیا تھا۔ اب جو ہم نے اسے دودھ اور روٹی گھر کے دروازے کے قدرے قریب دی تا کہ وہ گاڑی کے نیچے سے نکل آئے ۔ میری یہ ترکیب کارگر رہی اور وہ رینگتا ہوا گاڑی کے نیچے سے نکل آیا اور جلدی جلدی کھا پی کر پھر گاڑی کے نیچے چلا گیا. عجیب تر بات کہ اس دفعہ بالکل بھی نہیں غرایا ۔ اگلے دن کھانے کے لیے باہر نکلا تو ہم نے کھانے کے دوران اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا ۔ کھانا کھانے کے بعد بھی وہ خاموشی سے پیٹھ پر ہاتھ پھرواتا رہا. میری ہمت بڑھی اور ڈیٹول لگا کر روئی کے پھاہے سے اس کا زخم صاف کیا ۔ امی نے کپڑا جلا کر دیا اس راکھ کو اس کے زخم پر رکھا ۔ روٹی کے ایک نوالے پر خوب گھی چپڑ کر اس پر اینٹی بایوٹک کیپسول کا پاوڈر چھڑک دیا بھوک کا مارا معصوم سب کھا گیا۔
آج اتوار کا دن سو ہفتہ وار گوشت بھی آنا تھا۔ پاپا کو دو بار چائے بنا کر دی، فٹافٹ ٹیبل پر ان کے شیو کا سامان بھی سیٹ کر دیا ۔ پاپا تو پھر پاپا تھے جان گئے کہ کوئی بات منوانی ہے جو اتنی خوشامد ہو رہی ہے ۔ کہنے لگے ” کیا چاہیے”؟
ہم نے کہا پاپا جب گوشت خریدیے گا تو پلیز راتب بھی لے لیجیے گا ۔ پاپا بہت ہنسے اور اس بات کے لیے تردد یا خوشامد کی ضرورت ہی نہیں ۔ اب جب یہ اس دروازے پر بھیجا گیا ہے تو لا محالہ اس کی کفالت کی ذمہ داری بھی ہم لوگوں ہی کی ہے۔ یہ سن کر تو میرا تو مارے خوشی کے لڈی ڈالنے کا جی چاہا کہ یہ محض جملہ نہیں تھا بلکہ یہ کالیہ کا NOC تھا . پاپا گھر میں ویٹو پاور رکھتے تھے اس لیے یہ جملہ اس بات کا مظہر کہ اب کالیہ صاحب مکان نمبر 432 کے آفیشل مکین ہو گئے ہیں ۔ ہم نے احتیاطاً خوشی کے اظہار سے پرہیز ہی کیا کہ کہیں امی جزباتی ہو گئی تو بنی بنائی بات بگڑ جائیگی ۔ وہ کتا اکھن کالا تھا سو اس کا نام “کالیہ ” کے علاوہ اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کے پیٹ پر ایک آدھ سفید دھبہ تھا ورنہ وہ کالا شاہ کالا. سو وہ کالیہ ہی کہلایا۔
کالیہ کا علاج جاری تھا اور اب تو وہ سب سے رل مل گیا تھا۔ اس کا زخم بھی خاصہ مندمل ہو چکا تھا اور صحت بھی بہت بہتر ہو گئی تھی ۔ سچی بات کہ اس کی زخم کی ڈریسنگ سے زیادہ مشکل کام اس کے جسم کے کیڑے چننا تھا ۔ ہم فارسپ سے اس کے کیڑے چن کر مٹی کے تیل میں ڈالتے پھر اس تیل کو فلش کر دیتے ۔ خاصی گھن آتی پر مرتی کیا نہ کرتی کہ نہ جائے رفتن نہ پائے مانند ۔
دن گزرتے گئے اور کالیہ کی وارفتگی بڑھتی گئی، میرا وین سے اترنا محال تھا۔ اس کے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرے؟ خوشی سے ناچتا تھا، دم اس شدت سے ہلتی کہ پورا جسم ہلنے لگتا. اس کی خوشی دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی تھی پر اب سوچتے ہیں تو اس قدر شرمندگی ہوتی ہے کہ حد نہیں. وہ بے زبان اور دھتکارا ہوا جانور چند نوالوں کا احسان مند تھا اور ہم پر نچھاور ہو ہو جاتا اور ہم انسان کس قدر احسان فراموش کہ اپنے خالق کی اتنی عنایتوں، نوازشوں کے باوجود اس کے شکر گزار نہیں ۔
اب وہ سارا وقت دروازے کے کنارے دیوار سے لگ کے بیٹھا رہتا۔ شروع شروع میں راہ گیروں پر بھونکتا تھا مگر جب دو تین بار منع کیا تو مان گیا البتہ دروازے کے نزدیک کوئی اجنبی نہیں آ سکتا تھا۔ اس کی تو وہ جان کو آ جاتا تھا. امی نے بڑی عجیب بات بتائی کہ میرے آفس جانےکے بعد دس گیارہ بجے کے قریب وہ کہیں غائب ہو جاتا تھا۔ پہلے ایک آدھ بار امی نے سمجھا کہ ادھر ادھر ہو گا مگر جب آواز دینے پر بھی نہیں آیا تو امی نے سنجیدگی سے نوٹ کرنا شروع کیا. وہ تقریبا گیارہ سے چار بجے تک غائب رہتا تھا مگر سنچر اور اتوار کو کہیں نہیں جاتا تھا ۔ یہ ایک حیران کن بات تھی مگر یہ مسٹری اخیر تک نہیں کھلی۔
کالیہ اب بہت صحتمند اور خوبصورت ہو گیا تھا۔ روزانہ سونے سے پہلے ایک گھنٹے اس سے میرا لاڈ دلار کا سیشن چلتا ۔ اسے برش کرتے، اب اس کا کوٹ بہت خوبصورت ہو گیا تھا ۔ ہمیں شدید حیرت کہ بیچارا روٹی، دودھ اور تھوڑی سی راتب پر کیسے گزارا کرتا ہے. اس کی صحت قابل رشک تھی اور خوبصورتی تو آنکھوں کو خیرہ کرتی ۔ وہ اکثر رات میں اپنی تھوتنی میرے پیروں پر رکھ کر سو جاتا. ہم بھی ان دنوں پڑھنا پڑھانا سب بھولے ہوئے تھے ۔ آفس اور گھر کے روٹین کاموں کے بعد میرا سارا وقت کالیہ کا تھا۔
انہیں دنوں میرا رشتہ طے ہو گیا۔ میرے لیے کالیے کو چھوڑنے کا خیال ہی سوہانِ روح ۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی میرے گھر کے سامنے والا گھر یعنی سڑک کراس کر کے مفتی برادران رہتے تھے ۔ یہ دو بھائی تھے اچھے عمر رسیدہ مگر دونوں نے شادی نہیں کی تھی ۔ ان لوگوں کا خاندانی نام مفتی تھا۔ ایک شام ہم ابھی دفتر سے لوٹے ہی تھے کہ دروازے کی کنڈی بجی۔ دیکھا تو دروازے سے ذرا ہٹ کے دونوں بھائی کھڑے تھے ۔ علیک سلیک کے بعد مدعا پر آئے کہ وہ لوگ کالیہ کو اڈاپٹ کرنا چاہتے ہیں ۔ میرے لیے تو یہ ایک شوکنگ سوال تھا، ہم گنگ کھڑے کے کھڑے رہ گئے. وہ کہنے لگے آپ سوچ لیجیے ہم جواب کے لیے بعد میں آ جائیں گے ۔ پہلے تو ہمیں شدید غصہ آیا کہ کوئی کالیہ کو لینے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟ امی پاپا سے ڈسکس کیا، خود بھی سوچا کہ دو ماہ بعد میری شادی ہے، امی یہ ذمہ داری لینا نہیں چاہتیں پھر کالیہ کا ہو گا کیا؟ مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ کالیہ کو گھر کے اندر باندھ کے رکھنا چاہتے تھے جبکہ میرے پاس کالیہ آزاد تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا فیصلہ کیا جائے؟ امی نے فیصلہ آسان کر دیا کہنے لگیں کہ” تم تو چلی جاو گی اور ہم سے اس کی خاطر داری ہو گی نہیں. تو کیا یہ مناسب نہیں کہ آوارہ پھرنے کے بجائے اس کو گھر مل جائے اور روٹی پانی کا معقول بندوبست بھی” ۔ ہم نے دل پر بھاری پتھر رکھ کر مفتی صاحب کے حق میں فیصلہ کر دیا پر بخدا دل پر بہت بوجھ تھا اور اب تو شدید پچھتاوا بھی ہے۔ پھر مفتی برادران اسے لے گئے. ہم نے مفتی صاحب سے وعدہ لیا کہ جب تک ہم یہاں ہیں رات میں ایک گھنٹہ اسے ضرور میرے پاس آنے دینگے ۔ وہ اس پر بخوشی راضی تھے۔
اس کے جانے کے بعد گھر پر عجیب سی اداسی اور ویرانی چھا گئی ۔ پہلے تو کالیہ نے سمجھا ہی نہیں مگر جب انہوں نے اس کے پٹے سے زنجیر باندھ دی تو اس کی بےچینی عروج پہ تھی۔ اس کا رونا اور زنجیر پٹخکنا میرے لیے بہت بہت تکلیف دہ تھا۔ دو تین رات بڑی اذیت ناک گزری۔ میرے پاس سے وہ کسی صورت پر واپس جانے کو راضی نہ ہو۔ بڑی مشکل سے اس کو مفتی صاحب کے حوالے کرتے ۔ شام میں جب میری آفس وین دروازے پر رکتی تو وہ اپنی زنجیر پٹخ پٹخ کر اپنی جان کے درپے ہو جاتا بالآخر مفتی صاحب کو اسے آزاد کرنا ہی پڑتا۔ وہ تیر کی طرح میرے گھر کی طرف بھاگتا۔ ہم اپنے ہاتھ سے اس کو روٹی کھلاتے، اسے پیار کرتے. اس وقت اس کی خوشی دیدنی ہوتی، اس پل لگتا تھا کہ وہ جی اٹھا ہے۔ جانے یہ جدائی کا درد تھا یا قید کی اذیت مگر اس کی صحت تیزی سےگر رہی تھی ۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ فیصلہ صحیح ہوا ہے یا غلط۔ دماغ کہتا تھا کہ صحیح فیصلہ ہےپر دل دہائی دیتا کہ غلطی ہو گئی، سنگین غلطی ہو گئی ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی غلامی کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہمیں نہیں تھا۔ عجیب تر بات یہ کہ اکثر و بیشتر میرے دماغ سے کیے گئے فیصلے غلط اور دل سے لیا گیا فیصلہ صحیح ہوتا. پر نہ جانے کیوں ہم اکثر دماغ کے فیصلے کو ہی ترجیح دیتے رہے اور انجانے میں اپنے لیے خسارہ اور پچتاوا ہی اکھٹے کرتے رہے۔
بوجھل دل سے شادی کی تیاری بھی چل رہی تھی ۔ پھر وہ ہوا جو سوچا بھی نہیں تھا. ایک مائکرو سیکنڈ کے لیے بھی کبھی خیال نہیں آیا تھا۔ وہ 5 دسمبر کی عام سی صبح تھی. ہم ناشتہ کرچکے تھے اور پاپا چائے پی رہے تھے ۔ میری آفس وین کا ہارن بجا، پاپا کہنے لگے ” لگتا ہے آج میری ٹرین چھوٹ جائے گی” ۔
ہم نے کہا نہیں، نہیں چھوٹے گی پھر امی اور پاپا کو مشترکہ اللہ حافظ کہہ کر وین میں سوار ہونے سے پہلے بلند آواز میں کالیہ کے بھونکنے کا جواب دیا
see you in the evening kalia.
ہم گھر کے اگلے دروازے سے اور پاپا پچھلے دروازے سے جو گلی کی طرف کھلتا تھا اس سے باہر نکلے۔ مگر واقعی دیر ہوچکی تھی ٹرین تو نہیں چھوٹی، مگر ٹرین کی ہینڈل پکڑنے والے ہاتھوں سے زندگی کی ڈور چھوٹ گئی ۔ ٹرین کا ہینڈل پکڑے پکڑے پاپا کو دل کا تیسرا شدید دورہ پڑا اور لمحوں میں سب کچھ ختم ہوگیا ۔ نہ ہم پہ جان چھڑکنے والا باپ رہا اور نہ ہی امی کا دل دار میاں ۔ سکینڈ کے اندر اندر زندگی کیسے بدلتی ہے، یک دم گھنی چھاوں سے تپتی دھوپ کی حدت میں آنا کیسا ہوتا ہے لمحوں میں سمجھ میں آ گیا ۔ اس دن بن جل مچھلی کی تڑپ کی عملی تصویر امی کی حالتِ زار میں دیکھی۔ غم آپ کو کیسے توڑتا اور روندتا ہے امی کو دیکھ کر جانا۔ دل میں آگ لگنا کیسا ہوتا ہے اپنی دلی کیفیت کو جھیلتے ہوئے سمجھ میں آیا ۔ تین چار دن تو جو بیتا تھا اس پر یقین کرنے میں لگ گئے ۔ گھر دور قریب کے عزیزوں سے بھر گیا پھر ہفتے عشرے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ۔
وقت کا کام یکساں رفتار سے گزرنا ہے، کس پر کیا بیت رہی ہے؟ کس کے لیے چوبیس گھنٹے بہتر گھنٹے بن چکے ہیں یہ وقت کا دردِ سر نہیں. اس رات ہم ڈرائینگ روم میں اندھیرا کر کے کمرے کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے تھے کہ لوہے کے گیٹ پر جھنجھناہٹ ہوئی، دیکھا کالیہ کھڑا ہے۔ دروازہ کھولا اور دوبارہ دہلیز پر بیٹھ گئے ۔ اس نے خاموشی سے آ کر اپنا سر میری گود میں رکھ دیا ۔ ہم اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے اور میرے آنسو بہتے رہے۔ ساری رات اسی طرح گزر گئی ۔ فجر کی اذان ہونے لگی تو ہم نے گیٹ کھولا اور کہا اب تم جاؤ ۔
وہ اک ٹک ہمیں دیکھتا رہا پھر سر جھا کر مفتی صاحب کے دروازے کی طرف بڑھ گیا ۔ اس دن واقعی ایسا لگا جسے کسی بہت اپنے نے غم بانٹ لیا ہو.
شادی اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوئی یعنی پاپا کے انتقال کے اٹھائیسوے دن، بس ہونی تھی سو ہو گئ۔ رخصتی پر کالیہ کی آواز تو سنی مگر کچھ کہہ نہیں سکے۔ ہم جب جب میکے آتے، بمشکل گاڑی رکتی تھی کہ کالیہ بھونکنا اور اپنی زنجیر کھڑکانا شروع کر دیتا یہاں تک کہ مفتی صاحب کو اسے ازاد کرنا ہی پڑتا۔ وہ تیر کی طرح بھاگتا ہوا آتا اور ڈرائینگ روم کی دہلیز سے لگ کے بیٹھا جاتا۔ ہم اس کی محبت کی انتہاؤں کو بیان کرنے سے قاصر، آج تک ایسی محبت نہ دیکھی نہ سنی۔
عجیب رشتہ تھا ہم دونوں کا۔ ہم نے اپنی زندگی میں دو ہی کتے پالے۔ ایک بچپنے میں ڈھاکہ میں، اس کا نام جمی تھا اور دوسرا یہاں کراچی میں کالیہ ۔ وفا داری کے امتحان میں دونوں ہی اعزازی نمبروں سے کامیاب ہوئے۔ جمی نے اپنے جیتے جی ہم لوگوں کا گھر لٹنے نہیں دیا۔ بنگالی شرپسند اس کو جان سے مارنے کے بعد ہی گھر کا اسباب لوٹنے میں کامیاب ہو سکے۔ کالیہ سے بھی وفا کے باب میں ہلکی سی بھی خطا نہیں ہوئی ۔
جمی انتخاب اور کالیہ عطا تھا۔
ہم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر کہ ان دونوں میں کون زیادہ اہم اور زیادہ قیمتی ۔ بے شک وہ دونوں ہی درِ نایاب و بے مثال تھے.
امی کی تنہائی کے خیال سے زرین امی کو اپنے ساتھ لے گئی تو کریم آباد سے ناطہ بھی ٹوٹ گیا ۔ ایک دن ہمیں کالیہ اتنی شدت سے یاد آیا کہ ہم بےاختیار کریم آباد چلے گئے ۔ مفتی صاحب کے دروازے پر کھڑے ہو کر کالیہ کو پکارا مگر کوئی جواب نہیں ملا حالانکہ اسے تو کبھی پکارنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ۔ میرے پہنچنے سے بھی پہلے وہ میری آمد سے آگاہ ہوجاتا تھا۔ مفتی صاحب کے گھر کی گھنٹی بھی بجائی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس وقت مفتی صاحب لوگ دفتر میں ہوتے ہیں ۔ دل میں عجیب سی دھکڑ پکڑ تھی ۔ پھر اپنے پڑوسی خالد صاحب کی گھنٹی بجائی ۔ عروسہ آنٹی نے دروازہ کھولا اور حسب معمول بہت محبت سے ملیں۔ بٹھایا، حال احوال پوچھا ۔ ہم نے آنٹی سے کالیہ کے متعلق استفسار کیا تو کہنے لگیں کہ وہ بہت رونے لگا تھا تو مفتی صاحب نے اسے گھر سے نکال دیا۔ وہ تم لوگوں کے گھر کے دروازے پر بیٹھا رہتا مگر جو لوگ اب اس گھر کے مکین ہیں انہیں اس کا اپنے دروازے پر بیٹھنا پسند نہیں تھا۔ وہ اسے بہت دھتکارتے اور مارتے تھے پھر وہ کہیں چلا گیا ۔ کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے یہاں کا چکر لگاتا تھا پر اب تو پندرھیوں ہو گئے نظر نہیں آیا، یہ کہتے ہوئے آنٹی نے ٹشو کا باکس میری طرف بڑھایا تو ہمیں پتہ چلا کہ میرے آنسو بہ رہے ہیں ۔ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھال کر آنٹی سے اجازت لی اور بوجھل دل سے گھر روانہ ہوئے ۔
ہم آج تک شدت سے کالیہ کو مفتی صاحب کے حوالے کرنے کے فیصلے پر پچھتاتے ہیں ۔
کیوں اسے دو مہینے کے لیے اپنے سے دور کیا؟ بظاہر ہم نے اس کی بہتری چاہی تھی مگر کچھ بھی تو اچھا نہیں ہوا۔ عرصے تک ہم جب بھی باہر نکلتے میری آنکھیں کالیہ کی تلاش میں بھٹکتی رہتی تھیں ہر سو کالیہ کو ڈھونڈتی تھیں ۔ ہر گرجدار بھونک کالیہ کی لگتی مگر وہ پھر کبھی ملا ہی نہیں ۔ البتہ وہ ایک یاد اور کسک بن کر آج بھی میرے دل میں بستا ہے۔
کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ آپ کی زندگی میں ایک جانور کا بھی اتنا عمل دخل ہو سکتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ وہ آداب دلبری سے کما حقہ واقف تھا۔ دلوں میں بسنا اور گھر کرنا جانتا تھا۔
واہ میرے مالک! کیا کیا مخلوق بنائی اور خوب بنائی۔
از قلم
شاہین کمال
کیلگری

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply