کیا سورج پر پانی ہے؟- ڈاکٹر حفیظ الحسن

جدید سائنس کے مطابق زمین پر زندگی کی ابتداء آج سے قریب 3.8 ارب سال قبل سمندروں میں گرم پانی کے چشموں میں ہوئی جہاں زندگی کے لیے دیگر عناصر جیسے کہ کاربن، نائٹیروجن، فاسفورس وغیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ زمین کی اندرونی تہوں سے اُبلتے لاوے اور معدنیات کے پے در پے وار سے زندگی کا وجود ہوا۔ تاہم اس پر سائنس کی دنیا میں مکمل اتفاق نہیں۔ بعض سائنسدانوں کے نزدیک زمین پر زندگی کی ابتداء سمندروں کی بجائے خشکی پر گرم پانی کے چشموں میں ہوئی۔ اسکی وجہ جانداروں کے خلیوں میں سوڈیم کی بجائے پوٹاشیئم کا زائد مقدار میں ہونا ہے جو سمندروں کے پانی میں ممکن نہیں جہاں سوڈیئم پوٹاشیئم سے وافر مقدار میں موجود ہے۔

تاہم اس تمام اختلاف سے درکنار، ہم آج یہ جانتے ہیں کہ زمین جیسی زندگی کے وجود میں آنے اور پنپنے کے لیے پانی کا ہونا ایک لازمی جُز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نظامِ شمسی اور کائنات کے دیگر سیاروں پر زندگی کی تلاش کے لیے جو نشانیاں ڈھونڈتے ہیں ان میں پانی کی موجودگی سب سے اہم ہے۔
مگر پانی میں ایسا کیا ہے جو اسے زندگی کے لیے اس قدر اہم بناتا ہے؟ اسکا جواب ہے پانی کی بطور محلول خصوصیات جسکے باعث یہ مختلف درجہ حرارت اور دباؤ میں مختلف طرح کا اثر رکھتا ہے جسکے باعث یہ اپنے اندر کئی طرح کے عناصر اور معدنیات حل کر سکتا ہے۔

پانی کیا ہے؟ پانی دراصل کائنات کے دو عام اور وافر مقدار میں پائے جانے والے عناصر ہائیڈروجن اور آکسیجن سے ملکر بنا ہے۔ جب سادہ ہائڈروجن کے دو آزاد ملنگ صفت ایٹم آکسیجن کے ایک سادہ ایٹم سے ملتے ہیں تو پانی کا ایک مالیکول بنتا ہے۔ اگر ہم پانی کے ماخذ کو جاننا چاہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اول ہائڈروجن اور آکسیجن کیسے بنے۔

ہائڈروجن ایک سادہ ایٹم ہے۔ اسکے مرکزے میں ایک پروٹان پے اور اسکے گرد محوِ رقص ایک الیکٹران۔ اس کھیل تماشے کا نام ہائڈروجن کا ایٹم ہے۔ مگر ہائیڈروجن کا پہلا ایٹم کب بنا؟ کائنات کی ابتداء 13.8 ارب سال پہلے بگ بینگ سے ہوئی۔ بگ بینگ اس واقعے کا نام ہے جب کائنات کا حجم ایک چھوٹے سے حجم سے یک لخت پھیلا اور کائنات میں موجود تمام توانائی وقت کی اکائی یعنی سیکنڈ کے کھرب یا کھربویں حصے میں تیزی سے بکھرتی گئی۔ یوں اس توانائی کا کچھ حصہ مادے کے بنیادی ذرات میں تبدیل ہوا۔ ان زرات میں مادے کا وہ گارا تھا جس سے کہکشائیں، ستارے اور سیارے بنے۔ کائنات میں موجود تمام ستارے اور سیارے ایٹموں سے بنے ہیں۔ ایٹم اپنے بنیادی ذرات الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران سے بنے ہیں جبکہ پروٹان اور نیوٹران کوارکس سے جو ایٹم کے ذیلی اور بنیادی ذرے ہیں۔

کائنات کی ابتداء پر کائنات کی کُل توانائی کا کچھ حصہ الیکٹران، کوارکس اور نیوٹرینو (ذیلی ایٹمی ذرات) بنے، اور پھر بگ بینگ کے محض ایک مائیکروسیکنڈ بعد کوارکس سے پروٹان بننا شروع ہوئے۔ جن میں فیوژن کا عمل شروع ہوا جس میں ایک پروٹان دو، تین اور چار پروٹان کے ساتھ جڑ کر ہیلیئم، لیتھیئم اور بریلئیم کے ایٹموں کا مرکزہ بنا۔ تاہم شروع کی کائنات میں چونکہ کائنات کا حجم کم تھا اور توانائی زیادہ، لہٰذا کائنات کا درجہ حرارت ناقابلِ یقین حد تک شدید گرم تھا، یعنی اربوں ڈگری سینٹی گریڈ اور یوں ایک پروٹان، یا دو یا دو سے زائد جڑے پروٹان کے ساتھ الیکٹران ایک مستحکم حالت میں جڑ کر ایٹم نہ بنا سکتے تھے۔ جب کائنات کا پھیلاؤ بڑھتا گیا اور اسکا درجہ حرارت کم ہوتا گیا تو یہ امکان روشن ہوا کہ بالاخر ایک الیکٹران ایک پروٹان یا زائد پروٹان کے مرکزوں کے ساتھ جڑ سکے اور ایک ایٹم وجود میں آئے۔ اور یہ سب بگ بینگ کے قریب تین لاکھ اسی ہزار سال بعد ہوا جب کائنات کا درجہ حرارت اتنا کم ہوا کہ پروٹان اپنی ھرفت میں الیکٹان کو جکڑ سکے۔ یوں پہلا ایٹم وجود میں آیا جو ہائیڈروجن کا ایٹم تھا۔ گویا آپکے جسم میں موجود کھرب ہا کھرب ہائیڈروجن ایٹم آج سے قریب 13.8 ارب سال پرانے ہیں۔ کائنات میں اگر کل عناصر کی مقدار دیکھی جائے تو اس میں سے 75 فیصد ایٹم ہائیڈروجن کے سادہ ایٹم ہیں۔

اب بات کرتے ہیں آکسیجن کی۔ آکسیجن کے سادہ ایٹم میں آٹھ پروٹان ہوتے ہیں اور اسکے گرد آٹھ الیکٹران۔ مگر آکسیجن کب اور کیسے بنی؟ کیونکہ ہم نے اوپر دیکھا کہ کائنات کی ابتداء میں زیادہ سے زیادہ چار ہی پروٹان آپس میں فیوژن کے عمل سے جڑ سکے۔ تو اسکا جواب یہ ہے کہ کائنات میں موجود تمام آکسیجن دراصل ستاروں میں بنی اور اب بھی بن رہی ہے۔

ایک ستارہ کیسے بنتا ہے؟ جب ہائیڈروجن گیس کی کثیر تعداد لاکھوں سے کروڑوں سالوں میں گریویٹی کے زیرِ اثر ایک جگہ اکٹھی ہوتی ہے تو اس قدر ماس کے باعث شدید گریویٹی کے باعث دبنے لگتی ہے اور اس شدید دباؤ سے اس کا درجہ حرارت شدید ہوتا جاتا ہے۔ تاہم یہ درجہ حرارت اور دباؤ دو پروٹانز کے آپس کے فیوژن کے عمل کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ مگر یہاں ایک اور عمل کا امکان بڑھ جاتا یے جو کوانٹم مکینکس کی دنیا میں کوانٹم ٹنللنگ کہلاتی ہے۔ اسے کوانٹم کی دنیا کا ایک کھیل سمجھیے۔ ایٹموں کے اتنے قریب آنے سے ان میں کوانٹم مکینکس کا یہ کھیل شروع ہوتا ہے۔ دو پروٹانز کو ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے اور پیار کی تمام حدیں پار کرنے کے لیے شدید توانائی درکار ہوتی ہے مگر ستاروں کے ابتداء میں شدید دباؤ اور درجہ حرارت کے باوجود دو پروٹانز کسی سخت لونڈے کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیار کی پینگیں نہیں بڑھا پاتے یعنی فیوژن کا عمل شروع نہیں کر پاتے۔ تاہم اب یہ ایک دوسرے کے اس قدر قریب ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان میں کبھی بھی پیار کا شعلہ ظالم زمانے کے رسم و رواج توڑ کر ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال بھڑک سکتا ہے۔ اور یہی ہوتا ہے۔ کوانٹم مکینکس کی دنیا میں بعض اوقات دو پروٹان مناسب توانائی کے نہ ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے اتنے قریب آجاتے ہیں کہ ان میں فیوژن کا عمل ہونے لگتا ہے جس سے مزید توانائی خارج ہوتی ہے اور یوں ستارا بھڑک اُٹھتا ہے۔ امکانات کی دنیا میں شماریاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو دراصل اگر دو سو ارب پروٹان ایک وقت میں ایک دوسرے کے قریب آئیں تو اس بات کا امکان ہے کہ ان میں سے محض دو پروٹان ہی کوانٹم ٹنللنگ کے تحت فیوژن کے عمل سے گزر سکیں ایک ارب میں سے صرف ایک ہے۔ یہ امکان کس قدر کم ہے ناں!! کیونکہ ستاروں کا درجہ حرارت چند لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے جیسے کہ سورج جسکی اندرونی کور کا درجہ حرارت 15 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ تاہم زمین پر جب ہم ہائیڈروجن کے دو ایٹموں کو فیوژن کے عمل سے گزارنے کے لیے ری ایکٹر میں جھونکنے ہیں تو ہمیں لیزرز کی مدد سے چند ایٹموں کو ایک دوسرے کو زبردستی جپھی ڈلوانے کے لیے کم سے کم 1 کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت تک لے جانا ہوتا ہے کیونکہ ہم محض چند ہی ہائڈروجن کے ایٹموں کو فیوژن کے عمل سے گزار رہے ہوتے ہیں۔

البتہ ایک ستارے میں کھرب ہا کھرب سے بھی زیادہ ہائڈروجن کے ایٹم ہر ایک سیکنڈ میں ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہوتے ہیں گو کہ کم درجہ حرارت پر بنسبت اس درجہ حرارت کے جس پر ان میں فویژن کا عمل بڑھ جائے۔ لہذا محض اربوں میں ایک کوانٹم ٹنلنگ کا واقعہ، بڑے تناظر میں، ایک سیکنڈ میں کئی کھرب کی تعداد میں وقوع پذیر ہو جاتے ہیں جس سے ستاروں میں فیوژن کا عمل رواں دواں رہتا ہے۔

خیر سورج اور اس سے کئی گنا بڑے ستاروں میں ہائیڈروجن کے سادہ ایٹم ہیلیئم کے ایٹموں میں بدلتے ہیں جسکے بعد ان میں ایک اور عمل ہوتا ہے۔ ہائڈروجن کے ختم یا کم ہونے کے بعد ہیلیئم کے ایٹم کاربن کے ایٹموں میں بدلتے ہیں. اور پھر کاربن کے ایٹم ہیلیئم کے ایٹموں سے فیوژن کے عمل سے ہو کر وہ عنصر بناتے ہیں جسے آپ روزانہ سانس کے ذریعے اپنے پھیپھڑوں میں کھینچتے ہیں یعنی کہ آکسیجن ۔

گویا آپکے جسم میں ہر لمحہ جانے والی آکسیجن اور ہر لمحہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ذریعے نکلنے واکی کاربن ستاروں کی بھٹیوں میں اربوں سال قبل اس عمل سے بنیں ہیں۔اور یہی آکسیجن ہائیڈروجن کے ساتھ ملکر پانی بناتی ہے جو زندگی کی نوید ہے۔ سو آپکے جسم میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے کھربوں ایٹم 13.7 ارب سال سے بھی پرانے ہیں۔
اب چونکہ کائنات میں ہر ستارے میں یہ عمل ہوتا ہے لہذا کائنات میں کاربن اور آکسیجن کی مقدار بھاری عناصر کے مقابلے میں زیادہ ہے جیسے کہ لوہا، سونا، یورینئم وغیرہ۔

آکسیجن اس کائنات میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے بعد تیسرا سب سے وافر عنصر ہے، کاربن بالترتیب چوتھا جبکہ نائیٹروجن ساتواں۔ کائنات کے سات سب سے زیادہ پائے جانے والے عناصر میں دوسرے اور پانچواں نمبر پر ہیلیئم اور نیون گیس ہے جو کیمیائی طور پر کسی دوسرے عنصر سے ملاپ نہیں کرتے کیونکہ ان کے بیرونی “خول” میں موجود الیکٹران پہلے سے ہی جوڑیوں کی صورت مکمل ہوتے ہیں۔ مٹال کے طور پر ہیلیئم میں دو الیکٹران جبکہ نیون کے بیرونی “خول” میں آٹھ الیکٹران ۔۔لہذا انہیں مزید کسی الیکٹرون کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہی وجہ ہے کہ یہ کسی دوسرے عنصر کو گھاس نہیں ڈالتے۔

زمین پر زندگی کی بنیاد میں کائنات کے پانچ کیمیائی طورپر ایکٹیو عناصر کا ہونا اس بات کی طرف بھی اشارہ دیتا ہے کہ کائنات میں زمین جیسی زندگی کا بڑے پیمانے میں ہونا بعید از قیاس ہر گز نہیں۔
خیر تو اب جب آپ نے جانا کہ کائنات میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کہاں سے آئے اور یہ بھی کہ یہ کائنات میں وافر مقدار میں موجود ہیں تو یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہ ہو گا کہ کائنات میں پانی بھی کمیاب ہر گز نہیں ہو گا۔

چونکہ ستاروں میں کاربن اور ہائیڈروجن یکے بعد دیگرے ایک تواتر سے بنتے ہیں لہذا اس نتیجے پر پہنچنا بھی مشکل نہ ہو گا کہ یہ دونوں اپنی پیدائش پر ایک دوسرے سے کیمیائی طور پر تال میل بھی کرتے ہونگے۔

یوں کائنات میں سب سے سب سے زیادہ مالیکیولز جس مرکب کے ہیں وہ ہے کاربن مونو آکسائیڈ ۔ یعنی وہ مالیکول جو ایک کاربن اور ایک آکسیجن کے ایٹم سے ملکر بنتا ہے۔
اس کے بعد کائنات میں دوسرا زیادہ پایا جانے والا کیمیائی مرکب کونسا ہو گا؟

کیا کہا؟ پانی؟۔ جی ہاں۔۔ پانی کائنات میں کاربن مونو آکسائیڈ کے بعد دوسرا سب سے پایا جانے والا کیمیائی مرکب ہے۔ اور یہ کاربن مونو آکسائیڈ سے تعداد میں کم سے کم سو گنا کم ہے۔
یہ اندازے ہم کس طرح لگاتے ہیں؟

یہ اندازے ہم کائنات میں ستاروں اور کہکشاؤں کی گرد اور گیسوں سے نکلنے والی روشنی کے مشاہدے سے لگاتے ہیں کیونکہ جس طرح زمین پر ہر انسان کے انگلیوں کے نشان الگ ہوتے ہیں ویسے ہی کائنات میں ہر کیمیائی مرکب کے مالیکولز روشنی کے مختلف رنگوں کو جذب اور خارج کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار کو سپیکٹروسکوپی کہتے ہیں۔

خیر تو اب آپ یہ جان گئے کہ کائنات میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ مگر سوال یہ کہ زمین جو اس نظام شمسی کا حصہ ہے اور یہاں سمندروں اور دریاؤں کا ایک وسیع جال بچھا ہے، اس سیارے کے علاوہ نظامِ شمسی میں اور کہاں کہاں پانی موجود ہے؟

اگر ہم اپنے پڑوسی کو دیکھیں یعنی چاند ک تو اسکے قطبین پر بھی ہمیں پانی ملتا ہے اور اسکی مٹی میں موجود معدنیات میں بھی۔ ایسے ہی ہمارے قریبی اور لاڈلے سرخ سیارے یعنی مریخ کے جنوبی قطب پر برف کی صورت پانی موجود ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسکی سطح میں موجود معدنیات میں بھی۔ ایسے ہی مشتری کے دو بڑے چاند گینیمیڈ اور یوروپا کی برفیلی تہوں کے نیچے بھی زمین سے کئی گنا زیادہ پانی موجود ہے۔اور نظامِ شمسی میں مریخ اور مشتری کے درمیانی علاقے جسے ایسٹرائیڈ بیلٹ کہتے ہیں، جہاں کئی شہابیہ ہیں، وہاں اُن شہابیوں پر بھی پانی موجود ہے۔

مگر یہ سب تو قدرے مناسب درجہ حرارت کے حامل سیارے یا اجسام ہیں جن پر پانی برف یا مائع حالت میں موجود ہے مگر کیا نظامِ شمسی کے سب سے گرم جسم یعنی سورج پر بھی پانی موجود ہے؟
اس سے پہلے ہم یہ جانتے ہیں کہ پانی کیا نظامِ شمسی کے سب سے گرم سیارے زہرہ پر موجود ہے جہاں دن کا درجہ حرارت ساڑھے چار سو ڈگری سینٹی گریڈ ہے؟
آپکا کیا خیال ہے؟

دیکھیے پانی جب زمین پر سو ڈگری سینٹی گریڈ پر اُبلتا ہے تو بخارات کی صورت اُڑ جاتا ہے۔ اور زہرہ کا درجہ حرارت ساڑھے چار سو ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہے تو وہاں پانی کیونکر ہو گا؟ اور اگر ہو گا تو کب کا زہرہ سے نکلر کر خلا میں بکھر چکا ہو گا۔

زہرہ اور زمین ایک ساتھ بنے ہیں۔ زہرہ پر بھی نظام شمسی میں موجود وافر مقدار میں پانی شہابیوں کی صورت گرتا رہا ہے اور زمین پر بھی۔ لہذا دونوں پر اوائل میں پانی وافر مقدار میں تھا۔ یہ الگ بات کہ زہرہ کے آتش فشاؤوں کے پھٹنے سے اسکی فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی بدولت یہ سورج کی روشنی کو زیادہ جذب کرتا رہا ہے جسکے باعث اسکا درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہو گیا۔

مگر زہرہ کے ماضی کے وسیع سمندروں سے سارا پانی اُڑ کر خلا میں نہیں بکھر گیا بلکہ اسکا کچھ حصہ آج بھی زہرہ کی فضا میں بخارات کی صورت موجود ہے۔
اسکے شواہد ہمیں زہرہ کی طرف بھیجے جانے والے 1970 کے ناسا کے Pioneer مشن میں موجود آلات کے ذریعے ملے اور پھر اسکے بعد زمین اور خلا میں دیگر جدید دوربینوں کی مدد سے۔ تاہم زہرہ پر ہانی زمین پر پانی کے مقابلے میں کم و بیش لاکھ گنا کم ہے۔

اب آتے ہیں پہلے سوال پر یعنی کیا سورج پر پانی موجود ہے۔
سورج کا اندرونی درجہ حرارت 15 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس درجہ حرارت پر سورج ہر پانی کا ہونا ناممکن ہے۔
مگر یہ درجہ حرارت سورج کے اندر کا ہے۔ سورج بہت بڑا ہے اور اسکے مختلف حصوں کو سائنسدان انکی خصوصیات اور درجہ حرارت کی بنا پر مختلف تہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ سورج کی بیرونی تہہ جہاں سے روشنی نکلتی ہے، اسے فوٹو سفئیر کہتے ہیں۔ فوٹوسفئئیر کا درجہ حرارت کم و بیش 5500 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے گویا سورج کی اندرونی کور سے 273 گنا کم۔ تو کیا اس درجہ حرارت پر پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن میں ٹوٹے بغیر اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے؟
نہیں۔
تو پانی کس درجہ حرارت تک بغیر ٹوٹے اپنا وجود قائم
رکھ سکتا ہے؟
آپکی سوچ کے برعکس پانی ایک ڈھیٹ مالیکول ہے۔ یہ 2000 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت پر آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تبدیل نہیں ہوتا۔ اگر درجہ حرارت 2000 ڈگری سے اوپر کیاجائے تو جتنا زیادہ درجہ حرارت بڑھایا جائے گا اتنا زیادہ پانی کے مالیکول ٹوٹتے جائیں گے۔
مثال کے طور پر 2200 ڈگری سینٹی گریڈ پر پانی میں موجود تین فیصد مالیکول ٹوٹ جائیں گے جبکہ 3000 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ پر پانی میں موجود آدھے مالیکولز ٹوٹ جائیں گے۔ جبکہ 4000 ڈگری سینٹی گریڈ پر 80 فیصد سے زائد مالیکیولز ٹوٹ جائیں گے۔

اب کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج پر موجود دھیے جنہیں sunspot کہتے ہیں یہ سورج کے کس حصے یا تہہ میں ہیں؟
یہاں اوپر بیان کیے گئے فوٹوسفیئر میں جہاں سے سورج کی روشنی نکلتی ہے۔ یہ دھبوں زمین سے کئی گنا بڑے ہوتے ہیں اور انکا کا درجہ حرارت باقی تہہ کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ یعنی انکا درجہ حرارت قریب 3500 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ اور اس درجہ حرارت پر معمولی مقدار میں پانی کا ہونا اچھنبے کی بات نہیں جسکی وجہ اوپر بیان کر دی گئی ہے کہ پانی ایک ڈھیٹ مالیکول ہے۔
سو سائنسدانوں نے سورج کے ان سیاہ دھبوں سے نکلنے والی روشنی کا “پوسٹ مارٹم “کیا یعنی اسکی سپیکٹروسکوپی کی(جسکا ذکر اوپر کر دیا گیا ہے) اور اس نتیجے پر پہنچے کہ۔سورج کے ان سیاہ دھبوں میں بخارات کی صورت پانی موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ پانی کہاں سے آیا ؟ یہ پانی اس نیبولا سے آیا جس سے سورج اور نظام شمسی کے دیگر سیارے اور شہابیے بنے۔
جاتے جاتے، مشتری کی فضا میں قریب 0.25 فیصد پانی کے بخارات ہیں جبکہ زحل اور یورینس کی فضا میں بھی پانی کے بخارات پائے گئے ہیں۔ اسکے علاؤہ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پلوٹو کی برفیلی سطح کے نیچے بھی پانی موجود ہے۔
کائنات میں پانی نایاب نہیں۔
اور اگر کائنات میں پانی نایاب نہیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کائنات میں زندگی بھی نایاب نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply