مارک مینسن کا تعلق امریکہ سے ہے ان کی کتاب The Subtle art of not giving a f*ck نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر کتابوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع Behavioral Science ہے۔
کتاب پر گفتگو کرنے سے پہلے ایک اعتراف کر لوں کہ Behavior Sciences کے بارے میں میری معلومات محدود سے بھی کم ہیں۔ اس لیے اس بات کا غالب امکان ہے کہ کتاب کے مندرجات کو سمجھنے میں میرے سے کوئی غلطی ہوئی ہو اور میں مصنف کی بات کو مکمل طور پر نہ سمجھ پایا ہوں۔ میرے اس اعتراف سے جہاں میرے اوپر ذمہ داری کا بوجھ کم ہوا تو وہاں میرا یہ ہی اعتراف اس کتاب کا ایک موضوع بھی ہے۔
مارک مینسن نے بتایا ہے یہ کتاب آپ کو عظیم اور خاص انسان بننے کی دعوت دیتی ہے نہ ہی اس میں آپ کو سہانے خواب دکھائے گئے ہیں بلکہ یہ کتاب آپ کو مسائل اور مشکلات کے باوجود زندگی کو نارمل گزارنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کتاب میں مارک نے مختلف تصورات پیش کیے جو کہ زندگی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے حل تجویز کرتے ہیں۔
کتاب کا نام گو کہ بہت عامیانہ سا ہے اور کتاب کے اندر مارک کی گفتگو بھی کافی کھلی ڈھلی ہے اور اس نے کسی تکلف کی ضرورت نہیں سمجھی ہے۔ مارک کہتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں ایک محدود وقت کے لیے آیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ تقریباً ہر انسان کو موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اپنی اس محدود زندگی کو اچھے اور کامیاب طریقے سے گزارنے کا ایک بنیادی گر یہ ہے کہ اپنے ترجیحات کا تعین کریں دنیا میں ہر وقت مختلف معاملات و مسائل چلتے رہتے ہیں آپ کی زندگی میں بھی بہت سی باتیں اور مسائل آتے رہتے ہیں آپ نے ان میں سے کچھ مسائل کو اہمیت دینی اور بہت سے مسائل اور باتوں سے صرف نظر کرنا ہے۔ جو لوگ ہر مسئلے میں ٹانگ اڑاتے ہیں مارک نے ان کو مریض قرار دیا ہے۔ یہ لوگ اپنی زندگی تو خراب کرتے ہی ہیں ساتھ دوسرے کے لیے بھی درد سر ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ مارک مینسن لوگوں کو لاپرواہی کی ترغیب دے رہے ہیں بلکہ وہ یہ سوچ دے رہے ہیں کہ انسان اپنی محدود زندگی میں ان مسائل کو زیادہ اہمیت اور وقت دے جن کا تعلق اس کی زندگی اور اس مشن کے ساتھ ہے۔ مینسن کی اس بات کو کرکٹ کی مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے اچھا اور ذہین بلے باز کبھی بھی ہر بال پر اسکور کرنے کی کوشش نہیں کرتا اپنی اننگ کے دوران وہ بہت سی بالوں کو روکتا ہے اور جانے دیتا ہے وہ شاٹ کے انتخاب کے لیے مناسب بال کا انتظار کرتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ انسان کی زندگی کے مسائل کا بھی ہے کہ ہر مسئلے میں اس کا شامل ہونا کوئی دانشمندی نہیں بلکہ ان مسائل کو موضوع بنانا جو آپ کو براہ راست متاثر کریں ان کا انتخاب کرنا چاہیے۔ یہ بھی بات یاد رکھنے کی ہے کہ چیلنجز آپ کی مرضی سے سامنے نہیں آتے بلکہ یہ حالات پر منحصر ہوتا ہے اس لیے یہ مسلسل اور روز مرہ کی ایک ایکسرسائز ہے جس کا آپ کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دکھ ، تکلیفیں ، مشکلات اور ناکامیوں کے بارے میں مصنف نے ایک اور زاویہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مارک نے کہا ہے کہ تکالیف اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کا حل یہ ہے کہ ان کے چیلنج کو قبول کر کے ان کا حل نکالا جائے۔ جو لوگ مشکلات سے بچتے اور گھبراتے ہیں وہ کبھی بھی زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ مشکلات اور چیلنجز انسان کو مضبوط بناتے ہیں۔ ان چیلنجوں سے بھاگنا از خود ایک بڑی مصیبت ہے۔ لہذا ان سے نمٹنے کا حل یہ ہے کہ اس کو قبول کریں اور اس کا مقابلہ کریں۔ ممکن ہے کہ کسی مشکل کا مقابلہ کرتے ہوئے ہم کامیاب نہ ہو پائیں مگر یہ ناکامی بھی انسان کو مزید سکھانے کا سبب بنتی ہے جس سے وہ درست انداز سے چیزوں کو دیکھ سکتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ ناکامی کے خوف کے باعث چیلنج کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں، مارک نے بتایا ہے کہ یہ ایک غلط سوچ ہے۔ مصنف نے بتایا کہ یہ ناکامیاں ہماری زندگی کا حصہ ہیں ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں بہت سے کام ہماری خواہش کے مطابق نہیں ہو رہے ہوتے۔ ایسا ہی معاملہ ہماری اپنی ذات کا ہے۔ ہر انسان کا کام اس کی خواہش کے مطابق ہونا ممکن نہیں ، کئی دفعہ نتائج اس کی توقعات کے برعکس آتے ہیں اس لیے بجائے کسی چیلنج اور اس کے برے نتیجے کو قبول کرنے کے اگر ہم فرار کی راہ اختیار کریں گے تو یہ ہماری مشکل کو ختم نہیں کر دے گا بلکہ ان میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے اور یہ انسان کو مزید کمزور کرتا ہے۔ مارک نے اس سلسلے میں ایک اور بات بھی کی ہے کہ جو چیلنج قبول کرے تو ایسا نہیں کہ ایک دفعہ اس کا مقابلہ کرنے کے بعد اس کی زندگی میں سکون آ جائے گا ، بلکہ زندگی جہد مسلسل کا نام ہے اگر ایک مسئلہ حل ہوتا ہے تو اس کے اندر دوسرا مسئلہ جنم لیتا ہے۔ پہلے ہمارا مسئلہ اپنے گھر کا ہونا ہوتا ہے، جب گھر مل جائے تو اس کی تزئین و آرائش کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ ہم مسلسل گھر کے اندر بہتری لانے کے لیے فکر مند ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ہے ۔ جیسے کہ آپ ایک جگہ اچھی نوکری کرتے ہیں جو کہ آپ کی خواہش کے مطابق ہے مگر یہ نوکری آپ کے لئے ذمہ داری کی ٹینشن بھی لے کر آتی ہے۔ اس طرح ہر کامیابی کے بعد ایک نئی مشکل اور مسئلہ کھڑا ہوتا ہے جس کو ہم نے حل کرنا ہوتا ہے۔
کئی لوگ جو اپنے مسائل خود حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مسائل کا کسی اور کو ذمہ دار قرار دیکر ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے مسائل کوئی باہر سے آ کر حل کر جائے اس کے لیے ان کو کوئی تگ ودو نہ کرنی پڑے۔ یہ درحقیقت ناکام اور سست لوگ ہوتے ہیں جو اپنی غیر ذمہ داری اور غیر سنجیدگی کا جواز الزام تراشیوں میں ڈھونڈتے ہیں۔
ناکامی کے خوف سے چیلنج قبول نہ کرنے والوں کے بارے مارک کہتے ہیں کہ ان کے اندر ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک دم صفر سے بہترین پر پہنچنا ہوتا ہے جو کہ ناممکن ہے۔ مارک نے بہت اہم بات کی کہ جب بھی آپ کو نیا کام شروع کرتے ہیں تو کبھی بھی آپ کے کام میں ایک دم پرفیکشن نہیں آ سکتی۔ ہمارا یہ سفر بتدریج طے ہوتا ہے ہم غلط سے آغاز کرتے ہیں بتدریج ہماری غلطیاں کم ہوتی جاتی ہیں۔ آپ ڈرائیونگ کی مثال لے سکتے ہیں جب آپ نئی نئی ڈرائیونگ کرتے ہیں تو آپ بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں مگر جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں تو آپ کی ڈرائیونگ میں بہتری آتی ہے۔ ایسی ہی مثال زندگی کے دیگر شعبوں کے بارے میں ہے۔
مصنف کہتے ہیں کہ ہمیں غلطیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ یہ غلطیاں ہمارے لیے نئے تجربات کے راستے کھولتی ہیں اور یوں ہمارے سیکھنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے جو لمبے وقت کے لیے آپ کو فائدہ دے سکتا ہے۔
مصنف کہتے ہیں کہ کامیابی دراصل چھوٹی چھوٹی سی ناکامیوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ایک بچہ جب چلنا شروع کرتا ہے تو اس کے پیچھے متعدد ناکامیاں چھپی ہوتی ہیں۔ بچہ کبھی اپنی ایک ناکامی پر گھبراتا نہیں ہے کہ میں چل نہیں سکتا بلکہ وہ بار بار کوشش کرتا ہے اور ناکام ہوتا ہے مگر ہر بار وہ پہلے سے بہتر ہونے لگتا ہے اور پھر بالآخر وہ چلنے لگتا ہے۔
مارک نے کہا کہ بالعموم ہمارے ہاں بحرانوں کو منفی طور پر دیکھا جاتا ہے مگر کئی بڑی بڑی ترقیاں اور فلاحی منصوبے ان بحرانوں کے بعد جنم لیتے ہیں۔ مصنف نے ایک پولش مصنف کی تحقیق کا حوالہ دیا جس نے جنگ عظیم دوم میں شریک فوجیوں اور بچ جانے والے لوگوں سے ملاقاتیں کیں تو انہوں نے یہ کہا کہ بیشک جنگ کے نتیجے میں بیشمار انسانی جانوں کا ضیاع ہوا مگر اس بحران نے ہمیں ایک مختلف انسان بنا دیا ہے۔اب ہم زیادہ ذمہ دار ہو گئے ہیں اور ہمیں دنیا کے امن کی زیادہ فکر ہے
مارک نے اس کتاب میں اس بات پر خصوصی زور دیا ہے کہ ہمیں اپنی محدودیت کو تسلیم کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ ہر شخص extra ordinary نہیں ہو سکتا ، اگر ہر کوئی ایکسٹرا ارڈنری ہو تو پھر یہ لفظ اپنا معانی کھو دیتا ہے۔ مارک نے کہا ہے کہ ناصرف ہمیں اپنی بلکہ دوسری کی حدود کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ہم اگر کسی معاملے میں اوسط صلاحیتوں کے مالک ہیں تو اس پر شرمندگی کی بجائے اس کو معمول کی چیز سمجھنا چاہیے اور دوسری کو بھی اس کا اندازہ کرنا چاہیے۔ یہ بات والدین کے لئے بہت اہم ہے جو اپنی اولاد کے درمیان موازنہ کر کے ایک بچے کو دوسرے بچے سے کمتر ثابت کرتے ہیں۔ یہ چیز بچوں پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ ایک بچہ پڑھائی میں زیادہ بہتر ہو تو دوسرا کسی اور معاملے میں زیادہ بہتر ہے۔ کئی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں کہ ایک ذہین اور لائق بچے کے سوچنے کا انداز اتنا گہرا نہیں ہوتا جیسا کہ کم ذہین یا پڑھائی میں اوسط صلاحیتوں والے کا ہوتا ہے۔ مارک کی یہ بات مجھے پسند آئی جس میں اس نے اکثریت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ midocre ہیں تو اس پر چھپانے یا شرمندہ بالکل نہ ہو، اس کو نارمل لے کر چلیں۔ ہر معاشرے و سماج میں ذہین یا ایکسٹرا ارڈنری اشخاص تھوڑے ہوتے ہیں اگر آپ اس میں سے نہیں ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں. بھارت کا ہر بیٹسمین سچن ٹنڈولکر یا ویرات کوہلی نہیں ہو سکتا ، پاکستان کا ہر باؤلر وسیم اکرم یا وقار یونس نہیں ہو سکتا۔ عمران خان جیسی قائدانہ صلاحیت ہر کپتان میں ممکن نہیں۔
مارک نے کامیابی کی پیمانے پر بھی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ اس کی میٹرکس ہر انسان کی مختلف ہوتی ہے۔ مارک نے ایک سنگر کی مثال دی جس کو اس کے بینڈ نے الگ کر دیا بعد میں اس نے الگ سے گانا گانا شروع کیا تو اس کے البم کی بیس لاکھ سے زائد کاپیاں بکیں جبکہ جس بینڈ سے وہ الگ ہوا اس کی البم کی پچاس لاکھ بکیں۔ اب ہم دیکھیں تو اس سنگر کی البم کا بیس لاکھ سے زائد بکنا ایک بڑی کامیابی تھی مگر وہ اس کو اپنی ناکامی قرار دیتا رہا۔ اس کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ وہ بینڈ جس سے وہ نکالا گیا اس کی البم پچاس لاکھ سے زائد بکی۔ وہ اس بینڈ سے الگ کیے جانے پر بعد میں پچھتاتا رہا۔
مارک نے ایک اور مثال دوسرے شخص کی دی جو کہ میوزک بینڈ میں ڈرم بیٹر تھا۔ بینڈ کے باقی لوگوں نے اس کو نکال دیا اور جو ڈرم بیٹر اس کی جگہ آیا وہ اس سے کم تھا۔ کچھ سالوں بعد وہ بینڈ بھی مشہور ہوا اس کے میوزک البم لاکھوں میں فروخت ہوئے جبکہ یہ شخص ایک میوزک سکول میں جاب کرنے لگا۔ بعد میں یہ شخص اپنے بینڈ سے نکالے جانے کو اپنا خوش قسمتی گردانتا تھا کیونکہ اس کے بعد اس نے اپنے گھر کو وقت دیا اور اس کی ازدواجی زندگی بہت خوشگوار گزر رہی تھی۔ اگر وہ میوزک بینڈ کا حصہ ہوتا تو وہ کبھی بھی اپنی بیوی اور بچوں کو وہ وقت نہ دے سکتا۔
مارک نے یہ دو مثالیں دیکر بتایا ہے کہ اگر کوئی اور شخص ان واقعات کو دیکھے تو اس کو پہلا شخص کامیاب جبکہ دوسرا ناکام لگے گا مگر ان دونوں کی اپنی کامیابی کی میٹرکس الگ تھی۔ ایسے ہی ہر شخص کی میٹرکس دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کوئی کسی ایک کام میں اطمینان محسوس کرتا ہے جبکہ دوسرا ایک اور کام میں۔ مارک نے تین جاپانی فوجیوں کا بھی ذکر کیا ہے جنگ عظیم دوم میں میدان جنگ میں جانے سے پہلے ان کے جرنیل نے ان کو کہا کہ امریکیوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے اور ان کو روکنا ہے۔ ان لوگوں تک ایٹم بم گرائے جانے اور جنگ ختم ہونے کی اطلاع نہیں پہنچی تو انہوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور جنگلوں میں گھس کر امریکیوں پر حملے کرتے۔ امریکہ اور جاپان کی حکومت نے ان کی پمفلٹ پھینکے اور کہا کہ جنگ ختم ہو گئی ہیں مگر انہوں نے اس کو دھوکا قرار دیا پھر ان کے گھر والوں کی تصویریں کے ساتھ پمفلٹ پھینک کر انہیں یقین دلایا گیا مگر انہوں نے اس کو دشمن کا دھوکا قرار دیا اور گوریلا کاروائیاں جاری رکھیں۔ کوئی دس سال بعد ان میں سے دو فوجی مر گئے مگر تیسرے نے فلپائن کے جنگلات میں اپنی کارروائی جاری رکھی بالآخر 26 سال بعد اس کو ایک سیاح نے ڈھونڈ نکالا۔ بعد میں بھی اس فوجی کو اپنے چھبیس سال بلا مقصد گوریلا کارروائیوں پر کوئی ملال نہ تھا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ اس کو ہتھیار پھینکنے کے آرڈر نہیں ملے تھے۔ یہ اب اس جاپانی فوجی اونوڈو کی داستان ہے اور اس کی میٹرکس ہے جبکہ باقی لوگوں کے مطابق کچھ اور نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ ایک فضول لڑائی لڑ رہا تھا جس کا کوئی مقصد نہیں تھا اور اس نے کئی بے لوگوں کو مارا اور لوگوں کو مالی نقصان پہنچایا
مارک نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ دوسروں کی کامیابیوں کی داستان تو ہمیں بہت اچھا احساس دلاتی ہے مگر ہم ان تکلیفوں کو محسوس نہیں کر سکتے جو اس مقام پر پہنچنے تک ان لوگوں نے جھیلی ہوتی ہیں۔ ایسے ہی کسی اداکار کی ادکاری تو ہمیں بہت لبھاتی ہے مگر اس نے اس کو بہترین طریقے سے پرفارم کرنے کے لیے جو مراحل طے کیے ہوتے ہیں وہ ہمیں نظر نہیں آ رہے ہوتے ۔ اس لیے کسی کی اسکرین کی چمک سے بہت سے لوگوں کو مغالطہ ہو سکتا ہے کہ بغیر کوئی امتحان کے اس کا کامیاب ہونا ممکن ہے۔
مارک نے کہا ہے کہ کچھ چیزیں آپ کو تھوڑے وقت کے لیے خوشیاں دے سکتی ہیں مگر ان کا عرصہ بہت محدود ہوتا ہے اور بعد میں اس کے نتائج زیادہ تباہ کن بھی ہوتے ہیں جبکہ اس کے برعکس کچھ چیزیں اور عمل بظاہر بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں مگر ان کے نتائج بہت مثبت برآمد ہوتے ہیں۔ میراتھن دوڑ کے مقابلے میں چاکلیٹ کیک کھانا زیادہ لطف اندوز ہے، بچے کی تربیت کے مقابلے میں اس کے ہاتھ میں ویڈیو گیم تھما دینا زیادہ آسان ہے مگر جب ہم لانگ ٹرم میں سوچیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ کون سی چیز زیادہ ضروری ہے اور جب میراتھن اور بچے کی تربیت کے مثبت اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو جو اطمینان اور خوشی ہمیں اس وقت محسوس ہوتی ہے وہ اس سے کئی زیادہ ہے جو ہمیں کیک کھاتے یا ویڈیو گیم میں ہوتی۔ اس لیے کامیابی اور سکون کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے جو کہ مشکلات کو قبول کرنے میں ہی چھپی ہوتی ہے
منفی تجربات ، منفی جذبات اور غصے پر بھی مصنف نے قدرے حقیقت پسندانہ گفتگو کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لازم نہیں کہ منفی تجربہ ہمیشہ برا ہو بلکہ کئی دفعہ وہ بہت مثبت نتائج لاتا ہے۔ جیسے کوئی بچہ اگر گرم چولہے پر ہاتھ رکھے تو یہ اس کو تکلیف تو دے گا مگر اس کے بعد وہ یہ غلطی کرنے سے اجتناب کرے گا۔
یوں ہی غصے کے بارے میں کہا کہ کچھ لوگ مثبت نظر آنے کے لیے اپنی منفی تاثرات اور غصے پر شائستگی کا مصنوعی خول چڑھاتے ہیں۔ یہ سراسر ایک دھوکا ہے اپنے آپ سے بھی اور دوسروں سے بھی۔ اگر ہم کسی بات پر غصے کا اظہار کرتے ہیں یا اس کے بارے میں منفی رائے دیتے ہیں تو یہ ہمارے مخلص اور سچا ہونے کی نشانی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا اور مصنوعی طور پر مثبت دکھنے میں فرق ہے۔
یوں ہی انکار کے حوالے سے بھی مصنف کا کہنا ہے کہ میاں بیوی ہوں یا پھر دوست اگر ان کا رشتہ مضبوط ہوگا تو وہ بہت بآسانی ایک دوسرے کو انکار کرتے ہوں گے۔ اپنے شریک حیات یا دوست کی ہر بات ماننا کسی صحت مند تعلق کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ منفی چیز ہے۔ جہاں رشتہ مضبوط ہو وہاں آپ بہت پر اعتماد انداز سے دوسرے کی بات ماننے سے معذرت کر سکتے ہیں اس سے دوسرے شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی حدود کیا ہیں۔ کئی لوگ اپنے مسائل کو خود حل کرنا پسند کرتے ہیں بھلے ان کے عزیز ہوں یا پھر دوست وہ اس میں کسی کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے تو اس پر بھی ہمیں ان کو سپیس دینی چاہیے اور ان کی حدوں کا احترام کرتے ہوئے ان کو اپنے مسائل خود نمٹانے دینا چاہیے۔
مارک نے اپنے روس جانے اور وہاں پر لوگوں سے ملنے کے بعد بتایا کہ یورپ اور امریکہ میں لوگ آپ سے اکثر مصنوعی طور پر مسکرا کر بات کرتے ہیں وہ بہت کم آپ کی کسی چیز کو برا کہتے ہیں جبکہ روس میں لوگ مسکرا کر کم بات کرتے ہیں اور ایک لڑکی کو جب میری بات بری لگی تو اس نے بغیر کوئی لحاظ کیے اس کا اظہار کر دیا۔ یہ بات مجھے عجیب لگی مگر بعد میں سوچا کہ یہ عمدہ کلچر ہیں جہاں ایمانداری سے اپنے خیالات کا اظہار دوسرے سے کر دیا جاتا ہے کسی کو دھوکے میں نہیں رکھا جاتا۔
تعلقات کے حوالے سے مصنف نے ایک اور بات بھی کی ہے کہ بالعموم ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ جس سے آپ کا تعلق جتنا مضبوط ہو گا اور جس سے جتنی زیادہ محبت ہوگی اس کے ساتھ آپ کی بات چیت بھی اتنی زیادہ ہو گی۔ یہ لازمی نہیں ہے اور میں خود اس بات کو سو فیصد درست سمجھتا ہوں کہ کسی کے ساتھ آپ کا کثرت سے بات چیت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے درمیان محبت بھی اتنی گہری ہے۔ بلکہ ہمارے سماج میں بالعموم والد اور بیٹے میں ایک گیپ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ بچہ اور باپ آپس میں زیادہ باتیں نہ کرتے ہوں مگر ان کے درمیان محبت اور پیار کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے۔
تعلقات کے حوالے سے مصنف نے ایک اور دلچسپ بات کی ہے کہ ہمارے تعلقات کے جو حالات زمانہ حال میں موجود ہوتے ہیں ہم اپنے ماضی کے تعلقات کو بھی اس ہی تناظر میں دیکھتے ہیں بالفرض اگر ہماری اپنے بہن بھائی سے اچھے تعلقات ہوں تو ہم ان کے ساتھ گزرے ہوئی یادوں کو بھی خوبصورت معانی دیں مگر جب تعلقات میں تلخیاں آ جائیں تو یہ ان ہی یادوں سے ہم کوئی منفی مطلب نکالتے ہیں۔ عید پر دیا گیا جو تحفہ ہمیں بہت بھلا لگتا تھا اب محض خانہ پری لگتی ہے۔ اگر کسی موقع پر وہ ہمیں دعوت نہ دیں تو وہ کبھی ایک معصومانہ غلطی لگتی ہے تو کبھی ایک بہت بڑی غفلت معلوم ہوتی ہے۔
مصنف نے خود احتسابی کو بھی سراہا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں اس عادت کو اپنانا چاہیئے۔ ہر دفعہ دل کی بات پر عمل نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو بات دل میں آئے اس پر سوال اٹھانا چاہیے۔ ممکن ہے کسی چیز کو ہم بہت زیادہ اہم سمجھ رہے ہوں مگر خود سے سوال کرنے کے بعد ہمیں اندازہ ہو جائے کہ وہ چیز بالکل بھی اہم نہیں ایسا ہی اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے کسی بات کو ہم اتنی اہمیت نہ دیں مگر جب اس پر غور کریں تو اس کے نتائج دور رس ہوں۔ خود احتسابی کا یہ عمل انسان کی اپنی گروتھ کے لیے بہت ضروری ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ خود احتسابی کوئی آسان کام نہیں ہے، یہ کافی حوصلہ مانگتا ہے۔اس کا آغاز اپنے آپ سے آسان سوال پوچھنے سے ہوتا ہے مگر یہ سوال جتنے آسان ہیں اس کے جواب کا عمل اور پھر سوالات کا ابھرنا ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن جن لوگوں کو اپنے آپ سے سوال کرنے کی عادت ہو جائے پھر وہ اپنے فیصلوں میں زیادہ ثابت قدم ہوتے ہیں۔ اپنے آپ سے سوال کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی سوچ اور کام میں مزید بہتری کی گنجائش ہے یوں اس کے سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس طرح مصنف کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے تصورات جو ہم نے قائم کر رکھے ہوتے ہیں کو بھی تشکیک کے عمل سے گزارنا چاہیے تاکہ جو بھی کمزور بات ہو اس کے جگہ ہم مضبوط بات کو دے سکیں۔
ہم اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ بھی خود احتسابی کے عمل کے طفیل کر سکتے ہیں جب ہم یہ تسلیم کریں کہ ماضی میں ہمارا کیا گیا فیصلہ درست نہیں تھا۔ یہ غلطی کو تسلیم کرنا ایک مثبت عمل ہے یہ انسان کی اپروچ میں بہتری اور اس کے سیکھنے کے عمل کے لیے بہت ضروری ہے۔
مارک مینسن کی یہ کتاب ہماری سوچ کے بہت سے زاویوں میں بہتری لانی کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ہمیں مسائل کے ساتھ جینا اور ان کو قبول کرنے کی دعوت دیتی ہے اور پھر اپنی ترجیحات کے تعین کرنے پر بھی زور دیتی ہے۔ ایک دفعہ پھر میں یہ اعتراف کر دوں کہ Behaviour Science کے بارے میں میری معلومات محدود ہیں تو ممکن ہے کہ میرے فہم میں بہت سی کمیاں پائی جاتی ہوں۔ ایسے ہی یہ کتاب بھی کوئی بہت اعلیٰ فلسفہ زندگی بیان کرنے کی دعویدار نہیں بلکہ یہ زندگی کو نارمل انداز میں گزارنے کی دعوت دیتی ہے۔ مصنف نے متعدد مثالیں دیکر بھی اپنی باتوں کو واضح کرنی کی کوشش کی ہے۔ یہ اسلوب بہت پسندیدہ ہے جس سے انسان کو بات کو سمجھنے میں بہت آسانی پیدا ہوتی ہے۔ اس کتاب کا اُردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے لیکن اگر آپ کے لئے انگریزی کتاب پڑھنے میں دشواری نہ تو بہتر ہے کہ انگریزی کتاب ہی پڑھیں کیونکہ اس کی زبان بہت سادہ ہے اور پھر مصنف نے جس کھلی ڈھلے انداز میں بات پیش کی ہے اس کو اُردو کے قالب میں ڈھالنا ممکن نہیں بالخصوص جب لکھا جا رہا ہو۔ میں نے اُردو ترجمہ دیکھا مگر مصنف کے انداز میں اس کو بیان نہیں کیا گیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں