آپ کتنے آزاد ہیں ذرا اپنے ضمیر سے تو پوچھیے/محمد علم اللہ

ہمارے ایک پاکستانی دوست کا کہنا ہے کہ ہندوستانی مسلمان ابھی بھی غلام ہی ہیں۔ میں نے عرض کیا: حضور ٹھیک ہے ہم تو غلام ہیں لیکن آپ کی ایسی آزادی کا کیا جہاں آپ خود چین اور سکون سے نہیں۔ جہان ہندو، سکھ، عیسائی، قادیانی تو چھوڑیے مسلمان ہی مسلمان سے خوفزدہ ہے۔

آپ کے ملک میں، مسلمان نہ صرف فرقوں میں بٹا ہوا ہے بلکہ آپ کا معاشرہ فرقہ وارانہ تشدد سے ٹوٹا ہوا ہے، جہاں شیعہ، سنی اور احمدیوں کو ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مساجد اور مذہبی اجتماعات، جیسے لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہولناک حملہ وغیرہ اس حقیقت کی تلخ یاد دہانی کراتی ہیں۔

میرے پیارے دوست آپ اپنے سیاسی نظام کو دیکھیں۔ آپ کے پاس فوجی آمریتیں رہی ہیں جنہوں نے سویلین حکمرانی کو پامال کیا، جنرل مشرف کے دور حکومت میں لال مسجد پر وحشیانہ کریک ڈاؤن جیسے واقعات۔ یہ بیرونی دشمنوں کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ آپ جیسے دوستوں کو غلام اور خود کو آزاد کہنے والے مسلمانوں نے اپنے ہی دارالحکومت میں مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔

آپ جنھیں غلامی کا طعنہ دے رہے ہیں کم از کم اس غلام ملک میں مذہب کے نام پر مسلمان مسلمان کو نہیں کاٹتا، مذہب کے نام پر کوئی مولوی مسجد اور مدرسوں کو بم سے اڑاتا اور نا ہی اس کا کوئی جواز فراہم کرتا ہے۔ اس ملک میں جسے آپ غلامی کا طعنہ دے رہے ہیں، کوئی مسلمان اپنے ہی لوگوں پر گولیاں چلا کر انھیں بھون نہیں دیتا۔ حروف تہجی والا کپڑا پہن لینے پر کوئی ہجوم اپنے ہی بھائی بندو کا لِنچ نہیں کرتا۔

آپ نے آزادی کی بات کی ہے تو بس کچھ اور باتیں یاد کرا دوں۔ میرے بھائی گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس کے مطابق، آپ کے آزاد ملک میں 1989 سے 2020 تک فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے 15,000 سے زیادہ اموات ہوئیں۔ بڑے واقعات میں شیعہ زائرین پر حملے اور مساجد اور مذہبی اجتماعات پر بم دھماکے شامل ہیں، جیسے 2017۔ سہون کے مزار پر بم حملہ جس میں 88 افراد جاں بحق ہوئے۔

آپ کے آزاد ملک میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے مطابق، 1984 اور 2020 کے درمیان، مذہبی عدم برداشت کی وجہ سے 260 سے زیادہ احمدی ہلاک ہوئے۔

آپ کے آزاد ملک میں 2007 کی لال مسجد (لال مسجد) میں تعطل کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں طلباء، عسکریت پسند اور فوجی شامل تھے، حکومت کی قیادت میں بنیاد پرست اسلام پسند عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران۔ یہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف ریاستی تشدد کی ایک واضح مثال ہے۔

آپ کے آزاد ملک میں ہیومن رائٹس واچ کی 2020 کی ایک رپورٹ میں سندھ اور پنجاب صوبوں میں ہندو اور عیسائی لڑکیوں کے جبری مذہب تبدیل کرنے کے درجنوں واقعات کو دستاویز کیا گیا ہے۔

آپ کے آزاد ملک میں توہین رسالت کے قوانین کو اکثر مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہتھیار بنایا گیا ہے۔ سینٹر فار سوشل جسٹس کے مطابق، 1987 سے 2021 تک، 1500 سے زیادہ لوگوں پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ قوانین غیر متناسب طور پر غیر مسلموں کو نشانہ بناتے ہیں اور ہجومی تشدد اور ماورائے عدالت قتل کا باعث بنے ہیں۔

آپ کے آزاد ملک میں ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل (SATP) کے مطابق، پاکستان نے 2003 سے 2020 تک دہشت گردی سے متعلق 60,000 سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ کیں۔ اس میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) جیسے گروپوں کے حملے بھی شامل ہیں۔ )، لشکر جھنگوی (LeJ)، اور دیگر، جو عوامی مقامات، اسکولوں اور مذہبی مقامات پر تباہ کن بم دھماکوں کے ذمہ دار ہیں۔
آپ کے آزاد ملک نے اپنے وجود کا تقریباً نصف فوجی حکمرانی میں گزارا ہے۔ 1950 اور 60 کی دہائی میں جنرل ایوب خان کی حکومت سے لے کر 2000 کی دہائی میں جنرل مشرف کے دور تک، فوج نے اکثر سویلین گورننس میں مداخلت کی، جمہوریت اور شہری آزادیوں کو نقصان پہنچایا۔

آپ کے آزاد ملک میں رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے 2023 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں 150 ویں نمبر پر ہے۔ جہاں صحافیوں کو فوج یا شدت پسند گروپوں پر تنقید کرنے پر ہراساں کیا جاتا ہے، اغوا کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ موت تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آزادی صحافت کا فقدان اہم مسائل پر عوامی گفتگو کو روکتا ہے۔

آپ کے آزاد ملک کو شدید معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ 2023 میں افراط زر 38 فیصد سے زیادہ بڑھ گیا، اور ملک بے روزگاری اور بیرونی قرضوں کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے، جس کی وجہ سے غیر ملکی امداد اور آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پر خاصا انحصار ہے۔

آپ کا آزاد ملک یونیسیف کے مطابق، دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی سب سے زیادہ شرحوں میں سے ایک ہے، جہاں 22 ملین سے زیادہ بچے تعلیم حاصل نہیں کر رہے۔ دریں اثنا، صحت کی دیکھ بھال کا نظام کم فنڈز سے محروم ہے، 2021 تک صحت کے اخراجات کے لیے GDP کا صرف 1.1% مختص کیا گیا، جس کے نتیجے میں آبادی کے لیے صحت کی دیکھ بھال کی خدمات ناکافی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے پیارے بھائی ہماری تمام تر کمیوں اور خاموں کے باوجود ہندوستان میں، ہم ایک خاص وقار کے ساتھ رہتے اور جیتے ہیں، جہاں ہماری لڑائی میں ہمارے ساتھ ہمارا ہندو بھائی بھی کھڑا ہوتا ہے۔
بلا شبہ ہم جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ہم اپنی تکثیری جمہوریت کو تھامے ہوئے ہیں اور تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رہنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہماری لڑائی بہتر مستقبل کے لیے ہے، ایک دوسرے کے خلاف نہیں۔ اس لیے ہمیں غلامی کا طعنہ دینے سے قبل اپنے گریبان میں بھی جھانک لیجیے گا، کیا سچ مچ آپ آزاد ہیں یا صرف اپنے نفس کو بہلا رہے ہیں؟۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply