سوشل میڈیا اور اخبار کا مطالعہ کیا تو کچھ تحریریں سامنے آئیں۔ سب تحریریں تقریبا ًایک جیسی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب چھوٹے ہوتے تھے تو 14 اگست کے دن جو تحریریں یا کالم پڑھتے تھے آج بھی ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ بیشتر تحریروں میں وہی مایوسی نظر آئی کہ ابھی تک ہم اصل میں آزاد نہیں ہوئے۔ 14 اگست کو صرف دن منانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ دنیا میں سب سے آسان کام اعتراض کرنا ہے جو بغیر سیکھے آ جاتا ہے۔ کتنا بھی اچھے سے اچھا کام کر لیں اعتراض کرنے والے لوگ کہیں نہ کہیں سے کوئی نقطہ نکال لیتے ہیں۔ اعتراض کرنے کو ہم نے قومی فریضہ مان لیا ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ اتنے بڑے لیول پر بات کرنے کے بجائے انسان کو اپنی ذات کی بات کرنی چاہیے۔ کبھی خود کو بھی آزاد کروا لینا چاہیے۔ پورے ملک کو چھوڑ کر صرف اپنی ذمہ داری لے لیں۔ چھ فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی باڈی کو مختلف عوامل سے آزاد کر لیں۔ یہ ایریا آپ کی ملکیت ہونا چاہیے۔ اس پر صرف آپ کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ اگر آپ کو اعتراض ہے کہ جب سے پاکستان آزاد ہوا تب سے حکمرانوں نے تعلیم کے شعبہ میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کی تو اب آپ کے پاس موقع ہے کہ آپ چھ فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی سلطنت کو ایجوکیٹ کریں۔ اس کے لیے آپ کو کسی بھی بڑے فنڈ اور کسی کے اپروول کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ کیونکہ آپ آزاد ہیں۔
دوسروں کی منفی باتوں اور اپنی منفی سوچوں سے خود کو آزاد کریں۔ دوسروں سے کینہ، حسد اور برا چاہنے سے آزادی لے لیں۔ یقیناً یہ کام تھوڑا عجیب لگے گا لیکن جب خود کو آزاد کریں گے تو آپ کو حقیقی آزادی محسوس ہوگی۔
جہاں تک لیڈرشپ کی بات ہے تو اب حکمرانوں کے بڑے بڑے دعوے بے جان سے لگتے ہیں۔
“آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے”
(داغ دہلوی)
مان لیتے ہیں جب پاکستان آزاد ہوا تو اس کے بعد ہمیں کوئی اچھی لیڈرشپ نہیں ملی۔ اب خود کو آزاد کر لیں۔ اپنی لیڈرشپ اپنے ہاتھ میں لیں۔
مان لیتے ہیں جب سے پاکستان آزاد ہوا حکمرانوں نے اس کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ ان چیزوں سے سیکھتے ہوئے اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ابھی سے ٹھوس اقدامات شروع کریں۔ کیونکہ اس میں آپ کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ اس میں غفلت یا سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو آپ کو کوئی حق نہیں کہ کسی دوسرے پر اعتراض کریں۔
جہاں تک ملک کی کسمپرسی کی بات ہے تو اس میں بھی مختلف گروپ موجود ہیں۔ جن لوگوں نے خود پر کام کیا وہ آگے بڑھ گئے۔ وہ اس ملک میں رہتے ہوئے بھی کسی مسئلے کا شکار نہیں ہیں۔ انہیں لوڈ شیڈنگ، بجلی کی قیمتوں اور پٹرول کی قیمتوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ باہر کیا مسائل ہیں، وہ اپنی زندگی میں مطمئن اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ (یاد رہے یہاں میں کسی حرام کمائی کا ذکر نہیں کر رہا اس لیے یہاں پر آپ مثبت رہ کر سوچ سکتے ہیں)۔
اور یہی کام آپ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ کام تھوڑا مشکل تو لگے گا لیکن اس کے بعد آپ کسی پر اعتراض کرنا چھوڑ دیں گے۔
اگر آپ کو اپنے اہداف، مسائل کے حل اور اس کے لیے بہترین حکمت عملی کا معلوم نہیں تو آپ کسی اور پر بھی اعتراض نہیں کر سکتے۔

کل ایک بچے کی کونسلنگ کرتے ہوئے میں نے نوٹ کیا کہ وہ 14 اگست کی تیاری کے لیے بہت پرجوش تھا۔ بتا رہا تھا کہ اس نے نئے کپڑے لیے ہیں اور بیچ بھی لیے ہیں۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ بچوں کے لیے یہ صرف ایک تہوار کی شکل ہے اور یہ سامان بیچنے والوں کے لیے ایک بزنس ہے۔ بچے کا تہوار بنانا خوشی منانے کا ایک بہانہ ہے۔ اسی طرح اس موقع پر اپنے لیے بزنس کرنا بھی اچھی بات ہے۔ لیکن اپنے آپ کو منفی سوچوں کا قیدی بنائے رکھنا اپنے ساتھ ظلم ہے۔
چیلنج!
اپنی ذات کا جائزہ لیتے ہوئے اہداف کا تعین کریں۔ اپنے مسائل اور چیلنجز کو بھی سامنے رکھیں۔ اہداف مقرر کر کے ان کو پورا کرنے کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ کریں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں