بارسلونا کی بکر منڈی(4)-محمود اصغر چوہدری

انا بالیسٹروس وہ پہلی لکھاری ہیں جنہوں نے پاکستان نامی کتاب ہسپانوی زبان میں لکھی ہے ۔ یہ سپین کی زبان میں پاکستان پر لکھی گئی پہلی مونو گراف ہے ۔ انہوں نے بارسلونا منتقل ہونے والے 80ء کی دہائی کے پاکستانیوں کے بارے لکھا ہے کہ ہسپانوی شہری پاکستانی مردوں کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سڑک پرچلتے دیکھتے تو بہت حیران ہوتے ۔ شرارتی بچے ان کے پیچھے بھاگتے اور انہیں مارکوئیتس،گے اور ہم جنس پرست ۔۔ کہہ کر آوازیں کستے ۔ یورپین شہریوں کے لئے یہ انتہائی شرمناک بات تھی کہ ایک مرد ایک مرد کا ہاتھ پکڑ کر کیسے چل سکتا ہے ۔ کیونکہ یورپ میں صرف پارٹنر اور ازدواجی تعلق میں منسلک لوگ ہی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر گلیوں میں سر عام چلتے ہیں ۔ انا کی بات پڑھتے ہوئے مجھے یاد آگیا کہ جب اٹلی میں ہمارا یک پاکستانی سیاستدان آیا ہوا تھا تو وہ اپنے حلقے کے ووٹرو ں سے ہاتھ ملاتا تو ان کا ہاتھ پکڑ کر دل سےلگا لیتا اور ان کا ہاتھ پکڑ کرچلنا شروع ہوجاتا ۔ میں ہال سے باہر نکلا تو پولیس کی بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں ۔ ان کے آفیسر ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ۔ یہ کیا ہو رہا ہے بھائی ۔۔میں نے انہیں چہ مگوئیاں کرتے دیکھا تو جا کر کہا آپ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمار ے کلچر میں کسی سے الفت کا اظہار کرنے کے لئے مرد بھی دوسرے مرد کا ہاتھ پکڑ کر سینے سے لگا لیتا ہے ۔ اور اس کا مطلب دوستی او ر تعلق کی مضبوطی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ سڑک کنارے چلتا پاکستانی اگر اپنی کسی حرکت پر شرمندہ ہوتا ہے تو وہ ہے اپنی فی میل پارٹنر کو ساتھ لیکر چلنا ۔ اس سے اتنا زیادہ فاصلہ اختیار کرلیتا ہے جیسے اسے جانتا ہی نہیں ہے ۔

بارسلونا میزبانی کا شہر ہے ۔ ویسے تو یہ ایک بین الثقافتی شہر بن چکا ہے ۔ یہاں دو سو زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ غیر ملکیوں میں پاکستانی تیسرے نمبر پر آتے ہیں ۔ لیکن بارسلونا کی ایک اور خاصیت بھی ہے ۔ یہاں دو زبانیں سرکاری درجہ رکھتی ہیں ۔ ہسپانوی کے علاہ کاتالونین زبان میں بھی ہر جگہ اسی طرح لکھی اور پڑھی جاتی ہے ۔ بارسلونا میں آزادی کی تحریک بھی چلی ۔ ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس کو اسپین سے علیحدہ کرنے کی کوشش بھی کروائی گئی ۔ کیونکہ بارسلونا کے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شہر کمائی کر کے دیتا ہے اور اسپین کے غریب علاقوں کو پالتا ہے ۔ بہرحال آزادی کی یہ تحریک ناکام ہوئی  اور اس کا نعرہ لگانے والے لیڈروں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی ۔ البتہ دو دو سرکاری زبانیں دینے والے ممالک سے ہمیں سیکھنا چاہیے کہ ہم نے 71ء میں آدھا ملک توڑ دیا صرف اردو کو سرکاری زبان بنانے کے چکر میں جبکہ دیگر ممالک میں ایک سے زیادہ زبانوں کو سرکاری درجہ دینے میں کوئی بات رکاوٹ نہیں بنتی ۔

کہتے ہیں کہ کسی بستی کے لوگوں کے بارے جاننا ہو کہ وہ کیسے ہیں تو اس کی گلیوں سے اندازہ لگا لو ۔ اگر تو گلیاں سیدھی ہیں تو اس بستی کے لوگ سیدھے اور صلح جو ہوں گے اور اگر گلیوں میں موڑ ہوں یا وہ بل کھاتی ہوں تو سمجھ جاؤ کہ  اس کے لوگ بڑے ٹیڑھے ہیں ۔ بارسلونا کو اگر ہوائی جہاز سے یا کسی ڈرون کی مدد سے اوپر سے دیکھیں تو اس کی شاہراؤں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی نے بڑی نفاست سے کیک میں چھری سے لائینیں لگادی ہیں ۔ آپ کا دل خوش ہوجائے گا ۔اور اگر آپ ان شاہراؤں کی وسعت دیکھیں یا سڑک کے دونوں کناروں پر سر سبز درختوں کو دیکھیں تو آپ کی طبیعت شاد ہوجائے گی ۔ رامبلہ میں آپ پیدل چہل قدمی کرتے سیدھے چلے جائیں تو اختتام نیلے ساحل سمندر پر ہوگا۔

بارسلونا شہر کے ساتھ ساتھ ساڑھے چار کلومیٹر کا ساحل سمندر گرمیوں میں سیاحوں سے اتنا بھر جاتا ہے کہ آپ کو اپنا تولیہ رکھنے کی بھی جگہ مشکل سے ملتی ہے ۔ اسی سمندر کنارے بھی آپ کو پاکستانی ملیں گے جو آپ سے انگریزی میں پوچھیں گے کیا آپ کو ریت پر کھلے آسمان نیچے لیٹنے کے لئے چھتری چاہیے ؟ یا پھر آپ کو پانی کی بوتلیں ،چائے اور سموسے بیچتے نظر آئیں گے ۔ اس کے علاوہ ایک چادر میں بارسلونا کی یاداشتیں اسٹیکر شرٹس لئے گھوم رہے ہوں گے جہاں بھیڑ دیکھی اپنی چادر زمین پر بچھا لی اور اپنی دوکان لے لی ۔ وہ چیزیں بھی بیچ رہے ہوتے ہیں او رنظر پولیس پر بھی ہوتی ہے جوں ہی کوئی پولیس والا آتا دیکھا تو چادر لپیٹی اور دوڑ لگا دیتے ہیں ۔ کیونکہ اس طرح کا چادر بزنس قانونی نہیں ہے ۔

بارسلونا کی سب سے مشہور ڈش پائیلا ہے جیسے ہسپانوی زبان میں پائییا کہتے ہے ۔ یہ ایک فرائی پان میں بنتی ہیں ۔ اس میں ہسپانوی موٹے چاول ، زیتون کا تیل ، ٹماٹر ، خرگوش ، چکن وغیرہ کا گوشت کے ساتھ ہلدی اور زعفران سے تیار کئے جاتے ہیں ۔ زعفران کا رنگ پورے پلیٹ پر غالب ہوتا ہے ۔ پائییا سبزیوں والا بھی ہوتا ہے اور بارسلونا میں سب سے زیادہ سی فوڈ والا مشہور ہے ۔ اگر تو آپ جس عالم کے پیروکار ہیں وہ سمندری جھینگوں وغیرہ یعنی سی فوڈ کو جائزقرار دیتے ہیں اور آپ بھی سی فوڈ کو پسند کرتے ہیں تو پائییا کا اصل مزہ تو سی فوڈ والی ڈش میں ہے ۔ البتہ اگر آپ چکن یا سبزیوں والا کھانا چاہتے ہیں تو فکر کی بات نہیں ہے بارسلونا میں بہت سے ریسٹورنٹس ہیں جو اب حلال پائییا بھی تیار کرتے ہیں ۔ اگر آپ اسپین جائیں تو ان کی یہ ڈش ضرور ٹرائی کریں ۔ زعفران ہلدی اور موٹے چاولوں کا مزہ آپ کے دہن میں کافی دیر برقرار رہے گا ۔

اگر آپ کو رونق والے بازار اچھے لگتے ہیں یا پھر روایتی مارکیٹ آپ کو لبھاتی ہے اور آپ مختلف کھانوں ۔ مشروبات یا روایتی چٹ پٹی ڈشوں والی فوڈ مارکیٹ میں جانا چاہتے یا پھر محض مختلف اشیائے خوردو نوش کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو بارسلونا کی لا بوقیریا مارکیٹ ضرور دیکھنےجائیں ۔ یہ ان ڈور منڈی ہے ۔ بارونق بازار رامبلہ میں ہی ہے اسے آپ یورپ کی سب سے بہترین روایتی تاریخی منڈی کہہ سکتے ہیں ۔ جو سن 1217ء سے میں شروع ہوئی تھی جس میں قصائیوں نے گوشت بیچنے کے ٹھیلے لگائے ۔ ترقی کرتے کرتے یہ اب تاریخی منڈی بن گئی ہے ۔ بارسلونا جانے والے ضرور اس منڈی کا رخ کرتے ہیں ۔ جو اندر سے کسی چھتے ہوئے پرانے ٹرین اسٹیشن جیسی لگتی ہے

اگر آپ بوقیریا کے لفظ کو دیکھیں تو یہ کاتولونین زبان سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بکرا ۔ بلکہ اگر اس سے بھی دوقدم آگے اس منڈی کی تاریخ نکالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ لفظ سسلی کےپالیرمو شہر کی مشہور وکیرا منڈی سے نکلا ہے ۔ سسلی مسلمانوں کے قبضے میں رہا اور وہاں قصابوں کی منڈیاں اپنی پہچان تھیں ۔ آپ یہیں سے اندازہ لگالیں کہ زبانیں کیسے یہاں سے وہاں سفر کرتی رہتی ہیں اور ان کے بولنے والوں کو بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ دنیا کے کسی دوسرے کونے میں بیٹھا شخص بھی اسی سے ملتے جلتے الفاظ بول رہا ہے ۔ لاہور کی بکر منڈی اور بارسلونا کی لابوقیریا مارکیٹ میں فرق یہ ہے کہ بارسلونا کی بکر منڈی میں جانور نہیں ہوتے ۔ بلکہ گوشت ، تازہ مچھلی۔ سبزیاں ، فروٹ ، مصالحے ، رنگ برنگے جوس وغیرہ کے ساتھ سیلفیاں لے سکتے ہیں اور اگر آپ کا دل کچھ کھانے پینے کا ہے اور وہ بھی روایتی کھانوں کا تو اس کے اندر چھوٹے چھوٹے ٹھیلے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے ڈھابے ہیں جہاں آپ چٹ پٹ کھانے ، کافی ، چورس ، ہا ٹ چاکلیٹ یا دیگر کھانے خرید سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

الغرض بارسلونا میں تفریح کا وہ سارا سامان ہے جو کسی ایک ٹورسٹ کو کسی ایک شہر میں مل سکتا ہے ۔ آرٹ سے لیکر آرکییٹیکچر تک ، پھولوں سے سے لیکر فواروں کو پھوار تک ، سر سبز درختوں سے لیکر سر سبز پارکوں تک ، بلندامارتوں اور بلند عمارتوں سے لیکر پہاڑی سلسلوں تک جہاں سے پورا شہر نظر آتا ہے اور کھیلوں کے میدان سے لیکر یورپ کا سب سے بڑا فٹ بال اسٹیڈیم تک اور اس کے ساتھ ساتھ کئی کلومیٹر تک پھیلا ہوا ساحل سمندر اتنا کچھ کسی ایک شہر میں سما گیا ہے کہ یہ شہر آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply