حنہ جھیل ؛
حنہ جھیل دیکھنےکی مجھے کوئی خاص ایکسائٹمنٹ نہیں تھی کہ بچپن میں یہ جھیل میں دو بار دیکھ چکا تھا۔ سُنا تھا کہ اس کا پانی کم یا خشک ہو گیا ہے لیکن اس دن ماشاءاللہ، جھیل کا پانی اور عوام کا سمندر دونوں ہی ٹھاٹھیں مار رہے تھے۔ چھٹی کے باعث عوام کا جم غفیر تھا۔
کوئٹہ کے شمال میں پہاڑوں کے بیچ واقع حنہ جھیل انگریز سرکار نے 1894 میں پانی کی فراہمی، زیر زمین پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے بنائی تھی۔ یہ جھیل ہجرتی پرندوں کی ایک بڑی آماجگاہ ہے۔ 🪽
اس جھیل کی گہرائی لگ بھگ 43 فٹ ہے جہاں بارشوں اور برفباری کا پانی مختلف گزرگاہوں سے ہوتا ہوا اڑک روڈ پر واقع براستہ سرپل جھیل تک پہنچتا ہے۔
کافی عرصہ پہلے یہ جھیل مکمل خشک ہو گئی تھی جس سے یہاں کی سیاحت اور پرندوں کی آمد کافی متاثر ہوئی تھی۔ شدید بارشوں اور ہنگامی اقدامات کے باعث جھیل اب دوبارہ بھر چکی ہے۔
نیز فوج کی نگرانی میں ضروری حفاظتی انتظامات کے ساتھ یہاں آنے والوں کو کشتی کی سیر کروائی بھی جاتی ہے۔ جھیل کے قریب نصب لفٹ چئیر کو ایک حادثے کے بعد ہٹا دیا گیا تھا۔
یہاں ہم نے کئی پٹھان اور بلوچ نوجوانوں کی ٹولیاں دیکھیں جو مختلف گانوں پہ مقامی رقص اتن کر رہے تھے اور بہت سے لوگ ان کے گرد جمع تھے۔ یہ رقص واقعی بہت مشکل تھا جس میں ردھم کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔
شام کو حنہ جھیل سے واپسی کے بعد اڑک کا رخ کیا جہاں ایک خوبصورت ہوٹل کے ٹھنڈے لان میں چائے پی اور رات کو کوئٹہ واپسی ہوئی۔ یہاں سے ہم نے فیض بھائی کو الوداع کہا اور اپنے ہوٹل کی راہ لی۔
اگلے دن علی الصبح اٹھے، تیار ہو کے شالیمار ہوٹل سے ناشتہ کیا جس کی چائے پورے شہر میں مشہور ہے، اور سامان لے کر اسٹیشن پہنچ گئے۔ جعفر ایکسپریس جانے کے لیئے تیار تھی۔ اپنے ڈبے میں سامان رکھا اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔
اب بات ہو جائے بلوچستان بارے کچھ حالات و واقعات کی۔
میرے بہت سے دوستوں اور پڑھنے والوں نے اس سفر کے حوالے سے مختلف سوالات کیئے تھے جن کے چیدہ چیدہ جوابات میں یہاں دینا چاہوں گا۔
کیا بلوچستان محفوظ ہے ؟
اگر حقیقت کی عینک لگا کے دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کے بیشتر علاقے محفوظ نہیں ہیں۔
پنجاب اور سندھ میں بھی ڈکیتیاں ہو جاتی ہیں۔ بلوچستان کے بیشتر علاقے جیسے ژوب، کوئٹہ، زیارت، سبی، نصیر آباد، پشین، لورالائی، حب، رکھنی، بارکھان وغیرہ محفوظ ہیں۔
آپ یہاں بسوں پر، ٹرین پر اور اپنی سواری پر بھی جا سکتے ہیں۔ ہمارے ہوٹل کے آس پاس سب کو پتہ تھا کہ ہم سرائیکی اور پنجابی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم یہاں آرام سے رہے۔
ہاں کچھ علاقے جیسے پنجگور، تربت، مکران، ہرنائی وغیرہ میں اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں (جن کی وجوہات ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے) لیکن یہاں کی عوام بہت پر امن اور مہمان نواز ہے۔ اگر ان علاقوں میں آپ کا کوئی مقامی یار دوست ہے تو آپ بلا جھجک جا سکتے ہیں۔
لوگوں کے رویئے اور عوام کی حالت زار کیسی ہے۔ ؟
بلوچ قوم بہت باشعور اور کھلے ذہن کی مالک ہے۔ پڑھنے لکھنے، رقص، موسیقی، شاعری اور سیاحت کا شوق رکھتی ہے۔ کتب بینی کو پسند کرتی ہے۔ طلبا کا جھکاؤ بائیں بازو کی سیاست کی طرف ہے۔
ملنسار اور مہمان نواز لوگ ہیں۔ کوئٹہ میں رکشے والے سے لے کر ہوٹل والے تک سب نے پیسے لینے سے انکار کیا لیکن ہم سیاح تھے، سو ہم نے پیار سے انہیں منع کر دیا اور کرایہ ادا کیا۔
شاپنگ کے وقت بھی مجھے خصوصی رعایت دی گئی، اتنی تو پنجاب اور سندھ میں بھی نہیں ملتی۔
ٹیکسی والے پٹھان بابا جی بھی کمال تھے۔ پورا راستہ ہم دوست سیاست اور علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں پر کھل کے بات کرتے آئے لیکن انہوں نے کہیں کوئی مداخلت نہیں کی نہ ہی ناگواری ظاہر کی۔
عوام کی حالت زار بالکل ویسی ہے جیسے اندرون سندھ میں ہے۔ پنجاب کی عام تحصیل بھی بلوچستان کے ضلعی صدر مقام سے بڑی اور بہتر ہے۔
بلوچستان کے بیشتر شہر انفراسٹرکچر میں بہت پیچھے ہیں۔ پسماندگی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ زیارت جیسے شہر تو اپنی خوبصورتی اور باغات کے پیچھے چھپ جاتے ہیں لیکن سبی، بوستان، ڈیرہ اللہ یار اور ڈیرہ مراد جمالی کو دیکھ کے بس یہی خیال آتا ہے کہ اس صوبے کا بجٹ آخر جاتا کہاں ہے۔ ؟
سرکاری اسپتال کوئی خاص نہیں ہیں۔ کوئٹہ کا سب سے اچھا اسپتال (سی ایم ایچ) کینٹ میں واقع ہے جہاں ہرعام شخص کا داخلہ بند ہے۔ پرائیویٹ اسپتال بھی زیادہ نہیں ہیں۔ کینسر، گردوں اور ریڈیالوجی کے ماہر ڈاکٹرز کی کمی ہے۔ بڑے شہروں کے علاوہ کہیں صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔
ثقافت و روایات اور خواتین کی موجودگی۔
یوں تو اس صوبے کے ہر علاقے کی الگ روایات ہیں لیکن میں وہی بیان کروں گا جو دیکھا ہے۔
پہناوؤں کی بات کریں تو بیشتر لوگ بل والی شلوار، قمیض اور نوروزی پہنے نظر آئیں گے۔
سر پہ سندھی اور بلوچی ٹوپی رکھنا بھی پسند کیا جاتا ہے۔
پینٹ شرٹ والے یا تو بچے ہوں گے یا پنجاب و سندھ سے کام کے لیئے آنے والے کچھ لوگ۔ خواتین زیادہ تر پردے میں ملیں گی۔ بلوچی سمیت پشتو، سرائیکی، ہزارہ، پنجابی، سندھی اور براہوی سب زبانیں بولنے والے ملیں گے۔ انگریزی بولنے والے صرف سرینا تک محدود ہیں۔
روایت پسندی، بہادری اور مہمان نوازی بلوچ کلچر کی بنیاد میں شامل ہیں۔ کیا نوجوان اور کیا بوڑھے، سب ہی کام کاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ باقی علاقوں کی طرح یہاں موٹاپا کم دکھائی دیتا ہے یوں لگتا ہے جیسے ہر دوسرا شخص کثرت کرتا ہو۔ سنا تھا کہ یہاں ہر دوسرا شخص اسلحہ رکھتا ہے لیکن میں نے ایسا نہیں دیکھا۔
سڑک سے گزرتے آپ کسی دوکان دار سے کچھ پوچھیں گے تو وہ آپ کو قہوہ ضرور پوچھے گا۔ بھاؤ تاؤ بھی نہایت تمیز اور پیار سے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سخت مزاج لوگ کہیں نہیں ہیں، وہ بھی اس معاشرے میں ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں۔
کوئٹہ شہر میں تو زیادہ پٹھان ملتے ہیں اس لیئے شہر پہ پختون ثقافت کا غلبہ ہے۔ مکانات پکے اور دیدہ زیب ہیں۔ شہر سے باہر کے لوگ کچے مگر مضبوط مکانات میں بستے ہیں۔ مٹی سے بنے ان گھروں کی سادہ بیٹھکیں آپ کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں۔
فرشی نشستوں اور گاؤ تکیوں کا رواج زیادہ ہے۔ گاؤں میں اکثر لوگوں کو ایک جگہ گپ شپ کی محفلیں جمائے دیکھا۔ لڑکے کرکٹ کھیلتے، کوئی کام کرتے یا پڑھائی کرتے پائے گئے۔ روایتی رقص سے ان کو بہت محبت ہے۔ جہاں کسی جگہ چھ آٹھ نوجوان اکٹھے ہوئے، اتن شروع ہو گیا اور ہم جیسے سوچتے رہ گئے کہ ہمارے ہاں اس طرح سیلیبریٹ کرنا کتنا مشکل ہے۔
معاشرے پہ مرد غالب ہیں ۔
خواتین خال خال ہی نظرآتی ہیں۔ ہرعوامی جگہ پہ آپ کو صرف ہزارہ خواتین نظر آئیں گی۔ ہزارہ کمیونٹی بہت پرامن ہے اور سیر و تفریح کو پسند کرتی ہے۔ ان کی خواتین پڑھی لکھی اور باوقار ہیں۔ اب تو قبائلی بلوچ خواتین بھی یونیورسٹی لیول تک جا کے اپنے خواب پورے کر رہی ہیں۔ کوئٹہ میں بازار وہ واحد جگہ ہیں جہاں خواتین کی کثیر تعداد نظر آئے گی۔
جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں