برزخ /ڈاکٹر مختیار ملغانی

اگر کسی مستحکم اور مضبوط نظریئے یا بیانئے کے سامنے کوئی اس کا متضاد یا جوابی بیانیہ پیش کرے جو ایسا ہی مستحکم اور مضبوط ہو تو اسے ہم فکر کا ارتقاء کہتے ہیں ،،
Thesis and anti-thesis
اسی کا نام ہے ۔۔
یعنی اس طرح انسان کی فکر اور اس کے نظریات آگے چلتے رہتے ہیں، کچھ کو قبولیت ملتی ہے اور کچھ کو رد کرتے ہوئے انسانی ذہن آگے کسی دوسری تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔۔۔۔۔
ڈرامہ برزخ کو اسی تناظر میں تنقید یا تعریف کا نشانہ بنایا جانا چاہئے تھا ،،، لیکن ہمارا معاملہ وہی بندر کے ہاتھ میں ماچس والا ہے،،،، ہم نے یہاں مشرقی تہذیب، ہم جنس پرستی اور دوسرے ایسے بھڑکتے ہوئے ایشوز اٹھا کر ڈرامہ برزخ میں موجود اصل ایشو سے نظریں پھیر لی ہیں، ایسے ہی جیسے عدالتیں ہر بار نواز شریف کے جرائم سے نظریں پھیر لیتی ہیں ۔۔۔۔
سب سے سطحی تنقید تو یہ ہے کہ اس پورے ڈرامے میں بے ربطگی ہے، کہیں کوئی ربط نہیں،،،، کسی کسی جگہ پہ تو ایسا لگا کہ مصنف اور ڈائریکٹر کو خود معلوم نہیں کہ وہ کیا کہنا اور کیا دکھلانا چاہ رہے ہیں ۔۔۔۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس ڈرامے کے مصنف اور ڈائریکٹر ایک ہی شخص ہیں جن کا نام عاصم عباسی ہے،،، اور یہ بھی یاد رہے کہ عباسی صاحب لندن میں SOAS سے پڑھے ہیں
،،،،SOAS
یعنی
School of oriental and African studies
دوسرے الفاظ میں وہ ایشیا ،مڈل ایسٹ اور افریقی علوم والی یونیورسٹی میں پڑھے ہیں ، اگرچہ ان کا سبجیکٹ اکانومیکس تھا، لیکن یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اکانومی ہی ہر خطے کے اقدار اور روائج نہ صرف قائم کرتی ہے بلکہ اس پہ اثر انداز بھی ہوتی ہے۔۔۔۔
بہرحال معاملہ کچھ یوں ہے کہ ان خطوں بارے جو انہوں نے پڑھا ، شاید وہیں سے انسانی معاشروں کے اسرار و رموز جاننے کی خواہش ان کے اندر پیدا ہوئی،،، اور یہ بلاشبہ ایک اچھی بات ہے۔۔۔۔
لیکن معمہ یہ ہے کہ کوئی اوریجنل سسپنس یا میسٹری کو تخلیق کرنے کیلئے انسان کے اندر ایک جنون، ایک دیوانگی کا عنصر لازم ہے،،،،، اور بدقسمتی سے اس جنون اور دیوانگی کے عنصر کے ساتھ انسان کسی سماج میں کوئی کامیاب کاروبار نہیں کر سکتا، ایسے افراد تو بیچارے کسمپرسی کی زندگی جیتے ہیں،،، اور آج اس جدید دور میں کون ہے جسے سہولتوں سے بھری آرام دہ زندگی نہیں چاہئے ،،،، اور پھر یہ دیوانگی اختیاری نہیں ہے،،، لوگ اس دیوانگی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، یہ جنون انسان میں یا تو موجود ہے یا نہیں ہے ۔
عاصم عباسی صاحب میں ایسی کسی دیوانگی کے آثار نہیں ملتے ،،، اس لئے انسانی نفسیات یا پھر سماجی ممنوعات میں کچھ نیا تخلیق کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔۔۔۔
مگر جب ایک طرف تو انسان کے اندر کچھ نیا لکھنے اور دکھانے کی خواہش ہو، اور دوسری طرف تخلیق کاری بس واجبی سی ہوتو پھر اکثر ایسے سو کالڈ تخلیق کار ادھر ادھر سے مواد اٹھا کر ایک کھچڑی سی تیار کرتے ہیں،،،،،، ایسی کھچڑی کہ دیکھنے والے کو معلوم ہی نہیں پڑتا کہ کیا دکھایا جا رہا ہے اور کیوں دکھایا جا رہا ہے،، اور پھر ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں لوگ کتاب نہیں پڑھتے، وہاں جو چیز سمجھ نہ آئے، وہی اہم اور پرکشش بن جاتی ہے۔۔۔۔۔
اس ڈرامے میں” ایک نسل کے گناہوں کا بوجھ اگلی نسل پہ پڑتا ہے” والا فلسفہ دکھایا گیا ہے، یہ وہی فلسفہ ہے جسے گبریئیل گارسیا مارکیز اپنی تحریروں میں مسلسل بیان کرتے آئے ہیں ۔۔۔
پھر روحوں سے لین دین کا قصہ شاید نیکالوئی گوگل کے شہرہ آفاق ناول، the dead souls سے لیا گیا ہے، اور یہ جو مسلسل ڈرامے کے بیچ کسی book of nowhere نامی کتاب سے اقوال زریں دکھائے جاتے رہے ہیں،،، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہاں book of mirdad کی نقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،،، بس پھر سسپنس تو خود ہی پیدا ہونا تھا کہ کھچڑی ہی ایسی تیار ہوئی۔۔۔۔
ڈرامے میں سب سے پہلے تو ایسا لگتا ہے کہ the shutter Island والی سینیماٹوگرافی دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اوپر سے آئرش سا میوزک اور پہاڑ بھی چار نہیں تو کم از کم دو چاند ضرور لگائے ہوئے تھے ۔۔
The shutter Island
سے یاد آیا کہ اس فلم کے مرکزی ہیرو لیونارڈو ڈی کیپریو ایک جینوئن سینیماٹوگرافک ایکٹر ہیں،،،، یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے فواد خان بھی ایک سینیماٹوگرافک ایکٹر ہیں،، اور واقعی ہیں ،،،، شاید اسی لئے ان دو ادکاروں کی سینیماٹوگرافی کا مقابلہ دکھانے کیلئے برزخ میں کھانے کے دوران جو بحث اور غصہ دکھایا گیا وہ سین تو ایسا لگا کہ لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم Django unchained سے کاپی کیا گیا ہے،،، فواد خان نے میز پر مکا بھی بالکل ویسے ہی مارا جیسے ڈی کیپریو نے مارا تھا،، بس اس فرق کے ساتھ کہ ڈی کیپریو غلطی سے ٹیبل پہ رکھے گلاس پہ مکا مار بیٹھے تھے جس سے ان کا ہاتھ حقیقت میں زخمی ہوگیا تھا اور سین میں ان کے ہاتھ سے خون نکلتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے،،، فواد خان کو اب ہاتھ شیشے پر مارنے کی یقینا ضرورت نہیں تھی،،،، اتنی زیادہ نقل تو بہرحال پکڑی جاتی ہے۔۔۔
یہ جو ہم جنس پرست دکھایا گیا،،،،، اور اب یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ دنیا میں اور ہمارے ملک میں ایسے بے شمار افراد موجود ہیں، اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں،،، لیکن دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ہم جنس پرست ایک یورپی ہے،،جو پاکستان میں رہ رہا ہے،، یا پھر ایک پاکستانی ہے جس کا زیادہ وقت مین لینڈ یورپ میں گزرا ہے،،،،،
یورپ کیوں ؟
مین لینڈ یورپ ہی کیوں ؟؟
یہ بڑا عجیب سا سوال ہے،، بلکہ عجیب سا معاملہ ہے ،، یہ بات مصنف سے پوچھی جانی چاہیے کہ مین لینڈ یورپ ہی کیوں؟
یورپی آدمی،،،، ایک ہم جنس پرست۔۔۔
ہو نہ ہو،،،، مغربی ہم جنس پرست والا کریکٹر انہوں نے شانتارام ناول سے چرایا،،،،دیدیئے نام تھا اس بندے کا ،،،، اور اس پورے ناول کا جو اہم مرکز تھا وہ Leopold bar تھا،،، اور دیدیئے اس بار کی جان تھا ،،،، جو ہر وقت سینیؤر سینیؤر کرتا رہتا تھا ۔
تو کہنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایک عجیب سی کھچڑی بنائی گئی،،، ایسی کوئی بھی کھچڑی کبھی کسی متبادل بیانیے کو جنم نہیں دے سکتی،،،اس لئے کسی پریشانی کی بات نہیں،،، یہ بس دھواں سا ہے جو چند دنوں میں بیٹھ جائے گا،،،،
ہمیں معاشرے کو کوئی سمت دینے کیلئے حقیقی تخلیق کار چاہئیں،،،، جن میں دیوانگی اور جنون پایا جاتا ہو،،، باقی سب ہیر پھیر ہے،،، اور سب خیر ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply