جمہور کی آزادی/محمد ہاشم

آزاد قوم کی اولین آزادی یہ ہوتی ہے کہ وہ آزادی سے اپنا حکمران چنیں اور یہ حق انہیں آئین دیتا ہے جو کہ تمام تر اداروں اور لوگوں کی خواہشات سے بالاتر ہے۔
آٹھ فروری کے انتخابات میں فارم 47 والی واردات میں سمجھتا ہوں مارشل لاء اور ایمرجنسی سے بھی بھیانک ہے۔ مارشل لاء میں ایک امید رہتی ہے کہ یہ سسٹم تبدیل ہوگا، آئین بحال ہوگا تو جمہوریت دوبارہ بحال ہوگی اور “پھر راج کرے گی خلق خدا”۔

لیکن جب آپ “جمہوری دور” اور انتخابات کو ہی ایسی شکل دو کہ جمہوریت صرف نام ہی رہ جائے تو پھر سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ووٹر ناامید ہو جاتا ہے۔ سیاستدان پر سے ووٹر کا ڈر اور ووٹر کا خیال نکل جاتا ہے۔ پھر طاقتیں جو مرضی کریں یا کروا لیں سیاستدان چوں نہیں کرسکتا اور یہ ڈر بھی نہیں رہتا کہ غیر مقبول و عوامی مفاد کے برعکس فیصلوں سے ہمارے ووٹ بینک کو نقصان ہوگا۔ کیونکہ ووٹ بینک تو ایک کمرے میں ایک کاغذ کے اوپر بنا کے کسی کو بھی بانٹا گیا ہے۔

ووٹر کے دل میں بھی یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اس قدر جدو جہد کے بعد بھی میرے ووٹ کی پرچی گنتی میں ہی نہیں آنی اور میرے ووٹ کو تحفظ دینے والا  انصاف کا  ادارہ تک بے سدھ  پڑا ہے تو پھر میں کیوں اپنا وقت اور  پیسہ برباد کروں، کیوں لائنوں میں لگ کے ووٹ دینے کے لئے ذلیل ہوں، کیوں اپنے بیمار اور بزرگ لوگوں کو وہیل چیئر اور گود میں اٹھا کر پولنگ بوتھ لے آؤں جب ہونا وہی ہے جو فیصلہ پہلے سے موجود ہے۔اور جمہور کی سسٹم سے یہ بیزاری جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہے۔

8فروری کو تمام گزشتہ فاشزم اور ظلم و بربریت کی وجہ سے مصلحتاً خاموش عوام نے ایک فیصلہ سنایا۔ امید یہ تھی کہ نظام جتنا مرضی خراب ہو، دھاندلی کے جتنے مرضی ریکارڈ ہوں، اگر ہم سب نکل آئیں گے اور انگوٹھے سے اپنے مستقبل  کا فیصلہ کرنے کی کوشش کریں گے تو نظام کو جمہور کے آگے سرنگوں ہونا پڑے گا۔ ہوا ایسا ہی، عوام نے اپنی آواز یکجا ہو کر سنائی، ووٹ اس قدر یک طرفہ رہا کہ ازل سے جمہوریت کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والی طاقتوں کو اپنے روایتی ہتھکنڈے کم لگنے لگے۔ پھر وہ بالکل ننگے ہو کے سامنے آگئے۔ پھر یوں ہوا کہ نواز شریف کو یاسمین راشد سے، عون چوہدری کو سلمان اکرم راجہ سے اور حمزہ شہباز کو عالیہ حمزہ سے جتانا پڑ گیا۔ اور اس واردات میں اپنے منہ پہ اس قدر کالک ملی کہ اب دہائیاں لگے گی اس داغ کو دھونے کے لئے۔

اب جبکہ ایک کٹھ پُتلی حکومت بن گئی ہے تو مذاق یہ ہو رہا کہ وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ کے قلمدان ان کے پاس ہے جنہوں نے الیکشن جتوایا۔ ایسے میں وزیر اعظم کو صرف شو پیس کے طور پر رکھا گیا یے۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ایک ٹک ٹاکر کو تھمایا گیا ہے جن کی حرکتوں کے سامنے عثمان بزدار بھی اچھا لگنے لگا ہے۔

بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے اور طرفہ تماشا  یہ ہے کہ وزیر اعظم بھی دکھی اور غمگین ہے ان اضافوں کی وجہ سے کیونکہ ان کو خود علم نہیں یہ کون کر رہا ہے۔ اگر عوامی حکومت ہوتی تو عوام کی فکر ہوتی لیکن ان کے پاس تو یہ طعنہ بھی عوام کے لئے موجود ہے کہ ہم تو آپ کے ووٹ سے آئے ہی نہیں اور نہ ہی آنے والے وقتوں میں ووٹ کی امید ہے۔

انٹرنیٹ کی آئے دن بندش اور سوشل میڈیا سائٹس پر کریک ڈاؤن سے جو نقصان فری لانسرز اور کانٹینٹ کریئٹرز کا ہو رہا ہے اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ بڑے کانٹینٹ کر ی ایٹرز جن کی وجہ سے ملک میں ڈالر آرہے تھے وہ پہلے ہی دبئی اور یورپ کی طرف نکل گئے ہیں۔ فری لانسرز کو FIVER جیسا پلیٹ فارم یہ کہہ کے آف لائن کر رہا کہ موصوف ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں انٹرنیٹ stable نہیں ہے۔

گزشتہ نگران حکومت کے آئی ٹی منسٹر نے جھوٹے شادیانے بجائے تھے کہ پے پال پاکستان آرہا۔ اب حالات یہ ہیں کہ جو پاکستان میں ہے وہ بھی سامان سمیٹ کے بھاگ رہے۔ طاقتور حلقے ایک پارٹی کو توڑنے میں اس قدر مگن ہیں کہ اوپر سے قمیص کے بٹن لگاتے جا رہے اور نیچے سے ان کی پتلون اترتی جا رہی ہے۔ آئے دن پریس کانفرنس اور پریس ریلیزز جاری ہوتے ہیں جن میں ہونا تو یہ چاہیے کہ ملکی معاشی حالات اور دہشتگردی کی بڑھتی ہوئی لہر پہ بات ہو، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ سب پارٹیاں مل کر ایک شخص اور ایک پارٹی کو بدنام کرنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ عوام اور ملک دونوں ان کے ہاتھوں سے پھسلتے نظر آرہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ بچے جو اپنی جیب خرچ سے 14 اگست اور 23 مارچ کو جھنڈے اور بیج  لگایا کرتے تھے، اور خاکی وردی یا گاڑی دیکھ کر بے ساختہ سلیوٹ مارا کرتے تھے، یہ کب اور کیوں بددل ہوئے؟ یہ سب بے وقوف نہیں ہیں۔ یہ نئی نسل ہے جو پوری دنیا اور دنیا کے حالات کو دیکھتی اور جانتی ہے۔ آپ ان کو بیوقوف اور کلٹ کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اور خدارا پبلک انٹیلیکٹ پر شک کرنا بند کریں۔ یہ ملک اور یہ ادارے ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہیں لیکن جب سانپ اپنے ہی بچے کھانے لگ جائے تو اس سے محبت کی جگہ خوف آنے لگتا ہے۔ یہ سب لوگ آج سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply