محکوم اقوام کے مزاج اور ادب میں رومانیت کے عنصر کا پنپنا جوئے شیر لانے مترادف ہے۔ محکومی کی چکی میں پستی ہوئی قوم اگر تو کوہستانی ہے تو اس کے ادب میں جنگ، بہادری اور بغاوت کے رجحان دیکھنے کو ملیں گے، اور اگر قوم صحرائی مزاج رکھتی ہے تو ادب میں دکھڑے، غم، عاجزی و مسکینیت چھلکتی نظر آئے گی جو آگے جا کر تصوف، مجزوبیت اور درویشی سے ہوتی ہوئی نظریۂ وحدت الوجود کے دروازے پہ دستک دیتی دکھائی دے گی ۔
سرائیکی ادب کی روداد، بوجوہ ، ثانی الذکر مزاج پہ کھڑی ہے، جو اپنی جھکی ہوئی کمر کے ساتھ آنکھوں میں پژمردگی اور رحم طلبی کی دعوت دیتی ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جدید سرائیکی شاعری میں عزیز شاہد ہی وہ شاعر ہیں جنہوں نے خطے کی سیاہ اور سفید تلخیوں کے بیچ سرمئی رنگ کی ایک رومانوی لکیر کا پتہ کچھ اس اسلوب سے دیا گویا کہ پیاسے صحرا پہ رم جھم کا سماں باندھ دیا ہے۔
کوئی شک نہیں کہ ہجر ہی شاعری کی اساس اور عشق کا عروج ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں رومانیت سے محروم شاعری میں ہجر کی اس کیفیت میں خود کو ایسے فنا کرنا کاملیت کی علامت سمجھا جاتا رہا، کہ کسی چاندنی شب میں وصل یار کی امید جاگے بھی تو عاشق کے نیم مردہ تن اور من لطائف وصل سے ہم کنار ہونے سے قاصر رہیں گے، عزیز شاہد اپنی شاعری میں عاشق کو ایام ہجر میں خود کو سنبھالنے کا لطیف اشارہ دیتے آئے ہیں کہ باب قبولیت تک ممکنہ رسائی کے وقت عاشق کو شرمندگی اور محبوب کو مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ادب اور شاعری کی دنیا میں موضوع اور اظہاریئے کا باہمی تعلق اور ان کی اہمیت صدیوں سے رائج چلی آرہی ہے، راقم الحروف کی نظر میں اس موضوع پر سب سے دلچسپ اصطلاح معروف ناقد اور ادیب ولادیمیر نابوکوو نے عطا کی ہے، موضوع اور اظہاریہ کو انہوں نے ” آفاقی ناٹک ” کا نام دیا ، یہاں آفاقی سے مراد فرد کی تخلیقی گہرائی ہے یعنی موضوع، اور ناٹک کا مطلب اس تخلیقی گہرائی کو بیان کرنے کی صلاحیت ہے، ان دو میں سے کوئی ایک صلاحیت بھی کمزور ہوتو ادیب و شاعر تنقید کی زد میں آ سکتا ہے، یہ بات انہوں نے معروف ادیب فیودر دستایوسکی پر تنقید کرتے ہوئے لکھی، ان کے بقول دستایوسکی آفاقیت یعنی تخلیقی گہرائی سے مالامال ہیں لیکن ان کی اس تخلیقی گہرائی کو بیان کرنے( ناٹک ) کی صلاحیت کمزور ہے، نتیجے میں تخلیق کی اتنی بڑی گہرائی کمزور قاری کے اعصاب پہ منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
یہ ایسے ہی ہے کہ ٹھیٹر کے کسی ڈرامے میں اداکار کو خودکشی کا ناٹک کرنا ہو، اور وہ اداکار ناظرین کو اپنی اداکاری سے متاثر کرنے کیلئے نقلی پستول کی بجائے اصلی پستول سے اپنی کنپٹی پہ گولی چلا دے کہ موت کا منظر بالکل حقیقی لگے، ایسے میں ناظرین ڈرامے سے محظوظ ہونے کی بجائے کرب و اضطراب سے گزریں گے۔ اداکار کا کمال تو یہ ہے کہ اپنی موت کو یوں دکھائے کہ دکھنے میں اگرچہ یہ اصل لگے لیکن ناظر اپنے ہوش و حواس سے محسوس کرے کہ یہ ناٹک ہے، ادب کی خوبصورتی اسی میں ہے۔
اس بابت عزیز شاہد گنتی کے ان چند شعراء میں سے ایک ہیں جو دکھ درر، ہجر و فراق کی کیفیات کو بیان کرتے ہوئے ایسے اسلوب اور الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں کہ قاری جہاں ایک طرف ان دردناک کیفیات میں خود کو غرق پاتا ہے، وہیں ناٹکی رنگ کو محسوس کرتے ہوئے باقاعدہ محظوظ ہوتا ہے۔
بات اگر نثر تک محدود ہوتو موضوع اور اظہاریئے کی بحث کو یہیں سمیٹا جا سکتا ہے، لیکن شاعری میں اظہاریئے کا ایک اور تسلسل بھی ہے جسے گائیکی کہتے ہیں، شاعری اگر واقعتاً آفاقی ناٹک سے ابھری ہے تو ایسی شاعری کو گاتے وقت گائیک سروں کی رکابوں اور طنابوں پہ مضبوط گرفت محسوس کرتا ہے اور سامعین کی سماعتوں میں جیسے شہد انڈیلا جا رہا ہو، وسیب اور دامان کے گائیکوں کی اکثریت کو شہرت عزیز شاہد کا کلام گانے سے ملی کہ رومانیت کے سرمئی رنگ کی چاشنی ایک خاص کشش رکھتی ہے۔
عزیز شاہد نے روایت پہ رہتے ہوئے عارفانہ اور باطنی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ ضرور بنایا لیکن اس اندرونی دنیا کی وارداتوں میں ہمیشہ کیلئے غرق ہونے کی بجائے انہوں نے مزاج، موسم اور جمالیاتی مطالبوں کا بھی خاص خیال رکھا کہ خشک مزاجی کئی لطافتوں سے محرومی کا باعث بنتی ہے، البتہ تر مزاجی کے وہ صرف اس مقام تک قائل رہے جس مقام تک محبوب کا حسن ولولہ انگیزی کو بیدار رکھے ہوئے ہے۔
جسم اور روح کے تقاضوں میں ایسا اعتدال نایاب ہے، چشمِ تصور ایک منظر کو جنم دیتی ہے کہ ادب کی سرسبز چراگاہ کے بیچ شاعری کا ایک شفاف اور دھیما دریا رواں ہے، سحر پھوٹنے کے بعد دریا کے دائیں کنارے، عزیز شاہد رومی کی تسبیح پہ ورد کرتے ہوئے اپنے لاشعور سے کلام کشید کر رہے ہیں، لیکن شام ہوتے ہی وہ رومی کی جائے نماز سمیٹتے ہیں اور ابن مریم کی طرح دریا کی سطح پہ چلتے ہوئے بائیں کنارے پہنچتے ہیں، جہاں کشف کی صراحی اور حافظ شیرازی کا جام شب گزاری کیلئے ان کے منتظر ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں