پاکستان 77سال کا ہوگیا/شاہین کمال

پاکستان ماشاءاللہ ستتر سال کا ہو گیا۔
ہم سب کو اس کی سالگرہ مبارک ہو۔
کہتے ہیں قوموں کی زندگیوں میں صدی معنی نہیں رکھتی، غلط بالکل غلط۔ ہمارے سامنے ہی کی مثال ایک دن بعد آزاد ہونے والا وطن ہندوستان ہے، اسرائیل ہے اور دو ہی سال بعد آزاد ہونے والا چین ہے۔ چین جو نشے میں ڈوبا ہوا پوستی ملک تھا۔ آج وہ سب آگے، کہیں سے کہیں نکل گئے۔
بد عنوانی ، نا انصافی ، مفاد پرستی اور ظلم ان کے یہاں بھی ہے کہ انسانی کجروی سے مفر نہیں مگر انہوں نے بحیثیت قوم اپنا تشخص نہیں کھویا اور اپنے ہدف پر فوکس رہے۔ انہوں نے اداروں کو خدا نہیں بنایا اور سب سے بڑی بات کہ وہاں قانون سے بالا کوئی نہیں۔ ان ممالک میں بھی کرپشن ہے، بڑی مچھلیاں، مٹھی چاپی کر کے عموماً وہاں بھی نکل جاتی ہیں مگر پاکستان جیسا اندھیر کہیں نہیں، حد کہ جنگ کی تباہ کاریوں سے نڈھال افغانستان میں بھی پاکستان جیسا ظلم، اندھیر اور کرپشن نہیں۔

آئیں تھوڑی سی تاریخ کھنگال لیں۔
٩ جون ١٩٤٧ کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ
” میں نے اپنا کام پورا کر لیا ہے۔ جب فیلڈ مارشل آرمی کو فتح سے ہمکنار کرتا ہے تو اس کے بعد سول اتھارٹی کنٹرول سنبھال لیتی ہے۔ ”
یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قائد اعظم نئی ریاست میں سولین حکومت کے حامی اور خواہش مند تھے۔
١٩٤٦ میں دہلی میں Reuters کے نامہ نگار ڈون کیمپبل کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے کھلے الفاظ میں اظہار کیا کہ
” نئی ریاست، جدید جمہوری ریاست ہو گی، جس میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہو گا اور نئی قوم کے اراکین کو شہریت کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ ”

کہاں کھو دیا ہم نے ایسا متوازن، پر امن جنت نظیر پاکستان؟؟
بد قسمتی کہیے یا بد نیتی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے آرمی ایکٹ ١٩١١ کو بالکل اسی طرح اپنا لیا جیسا وہ تھا حالاں کہ یہ ایکٹ برطانوی آقاؤں نے اپنے نو آبادیاتی مفادات کے تحفظ، رعایا کے حقوق سلب کرنے اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے بنایا تھا مگر ہم نے اس استعماری و نو آبادیاتی آرمی ایکٹ کو کسی ترمیم کے بغیر قبول کر کے جمہوری پاکستان پر پہلی ضرب لگائی۔

برصغیر پاک و ہند کی فوج کا جد و جہد آزادی ہند یا تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہ تھا متحد ہندوستان کی چار لاکھ فوج میں سے پاکستان کو تقریباً ٣٣٪ یعنی ڈیڑھ لاکھ فوج ملی۔ پاکستان کو چار ہزار فوجی افسران کی ضرورت تھی لیکن اس وقت اس کے پاس صرف ڈیڑھ ہزار افسر تھے، جن میں سے پانچ سو برطانوی تھے۔ ایک میجر جنرل، دو بریگیڈیئر اور ٥٣ کرنل تھے۔ گیارہ مسلم ملٹری افسر سول سروس میں شامل ہو گئے۔ عارضی کمیشن، شارٹ سروس اور اہلیت و تجربے کے بغیر قبل از وقت ترقیاں دے کر اس کمی کو پورا کیا گیا۔ فوجی اثاثوں کی تقسیم کے مسائل کو پیش نظر رکھا جائے تو حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حصے میں آنے والی مسلم فوج پیشہ ورانہ لحاظ سے ایک کمزور فوج تھی۔

میجر جنرل شاہد حامد کے مطابق ٢٧ اکتوبر ١٩٤٧ کو قائد اعظم نے کمانڈر ان چیف سر ڈگلس گریسی کو حکم دیا کہ افواج پاکستان کو جموں و کشمیر بھیجا جائے اور سری نگر اور درہ بانہیال پر قبضہ کر لیا جائے۔ جنرل گریسی نے ” گورنر جنرل” کے احکامات کی تعمیل سے انکار کر دیا۔ بقول جنرل گریسی کے پرائیویٹ سیکرٹری ولسن، ماؤنٹ بیٹن نے گریسی کو فون کیا اور دھمکی دی کہ اگر فوج کو کشمیر کی جانب روانہ کیاتو یقین کر لے کہ اسے” نائٹ ہڈ ” کا خطاب نہیں ملے گا۔
جنرل گریسی کی حکم عدولی نے ملک میں فیصلہ سازی کے عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

ایوب خان کو مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ عبدالرب نشتر نے قائد اعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ایوب خان نے اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کیں اور ان کا رویہ پیشہ ورانہ نہیں ہے۔ ایوب خان نے اُسی وقت سے سیاسی جوڑ توڑ شروع کر دی تھی۔ قائداعظم نے سزا کے طور پر ایوب خان کا تبادلہ مشرقی پاکستان کر دیا اور ایک سال تک بیج لگانے کی ممانعت کر دی۔ ایوب خان جیسے منتقیم نے یہ کینہ دل میں پال لیا۔

ائیر مارشل محمد اصغر خان لکھتے ہیں کہ چودہ اگست کا دن تھا اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کراچی میں ایک استقبالیہ دے رہے تھے، جس میں لوگوں کی کثیر تعداد کو مدعو کیا گیا تھا۔ قائد اعظم خوشگوار موڈ میں لوگوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ حاضرین میں دفاعی ملازمتوں کے چند عہدے دار بھی تھے۔ قائد اعظم ان سے مخاطب ہوئے اور پوچھا آپ لوگ کیسے ہیں؟

وہاں کرنل اکبر خان ( بعد میں راولپنڈی سازش کیس والے میجر جنرل اکبر خان ) نے جواباً دفاعی حکمت عملی پر اپنے خیالات کی وضاحت شروع کر دی اور جوشِ بیان میں انہوں نے ایسے معاملات پر جو ایک جمہوری نظام میں کسی سول حکومت کی ذمہ داری ہوتے ہیں مشورہ یہ دینا شروع کر دیا کہ دفاعی ملازمتوں کا انتظام کس طرح چلانا چاہیے۔ ابھی کرنل اکبر خان نے بات بھی پوری نہیں کی تھی کہ قائد اعظم نے ان کی گفتگو درمیان ہی سے قطع کر دی۔ اپنی انگلی اٹھا کر انہوں نے اکبر خان پر کڑی نظر ڈالی اور دھیمے لہجے میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا
” یہ نہ بھولیے کہ آپ لوگ جو مسلح افواج میں ہیں، عوام کے خادم ہیں۔ قومی پالیسی آپ لوگ نہیں بناتے۔ یہ ہم شہری لوگ ہیں جو ان معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ جو ذمہ داری آپ کو سونپی جائے، اسے پورا کریں۔ ”

چودہ جون ١٩٤٨ کو قائداعظم پہلی اور آخری بار سٹاف کالج کوئٹہ گئے تو وہاں انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر فوجی افسران کو ان کی فراموش کردہ فرض شناسی یاد دلائی اور مرتب شدہ تقریر ملتوی کر کے ان کا” حلف نامہ” پڑھ کر سنایا۔

گورنر جنرل اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح سے فوج کی وفاداری کا ایک مظاہرہ ١١ ستمبر ١٩٤٨ کو اس وقت ہوا جب شدید بیماری کے عالم میں بابائے قوم کو آرمی کی خستہ حال آرمی ایمبولینس میں ایئرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس لے جایا جا رہا تھا۔ اس مختصر راستے میں ایمبولینس کا خراب ہونا اور گھنٹوں متبادل ایمبولینس کا نہ ملنا اور اس سڑی گرمی میں مادرِ ملت کا اپنے نیم جان بھائی، قائد اعظم محمد علی جناح پر سے بےبسی کے عالم میں اپنے ڈوپٹے کے آنچل سے مکھیاں اڑانا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

١٩٧١ جب ایک بد مست شرابی ملک کا نا خدا تھا۔ اس نے اپنی خر مستیوں میں مبتلا ہو کر ایسے فیصلے کیے کہ ملک نہ صرف دو لخت ہوا بلکہ لاکھوں محب وطن شہید اور لاکھوں برباد ہوئے۔ وہ بنگالی جن کو بوجھ سمجھا جاتا تھا، جنہیں سوالی جان کر دھتکار جاتا تھا ان کی معیشت آج پاکستان سے بہت زیادہ بہتر ہے اور 5 اگست 2024 کو انہوں نے حقیقی آزادی بھی حاصل کر لی۔
اسی پاکستان کو وجود میں لانے کے لیے ہزاروں بہاریوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیا۔ اکتوبر ١٩٤٦ میں بہار میں تیس ہزار سے زیادہ بہاری مسلمان شہید ہوئے اور قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ “اگر بہار میں اتنی کثیر تعداد میں مسلمان شہید نہ ہوتے تو پاکستان کبھی اتنا جلدی وجود میں نہ آتا۔”
پاکستان کی بنیادوں میں بہاریوں کا خون ہے اور اسی محب وطن بہاری نے ١٩٧١ میں پاکستان کی بقا کے لیے

بے دریغ اپنی جانوں کا نذرانہ دیا اور نتیجتاً بنگلہ دیش بننے کے دوران اور سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان کی محبت کی پاداش میں غیض و انتقام سے بپھرے بنگالیوں کے ہاتھوں لاکھوں بہاری گاجر مولیوں کی طرح کاٹ ڈالے گئے۔ پانچ لاکھ کے قریب محبان وطن صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔ جو بچے وہ اجڑ کر بہت مشکلوں اور صعوبتوں کے بعد بچے کچھے پاکستان پہنچے اور تقریباً تین لاکھ حرماں نصیب پاکستانی ابھی بھی بنگلہ دیش کے ١١٦ کیمپوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ ان کی زندگیاں ابتر ہیں اور وہ کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انسانی تاریخ میں آج تک وفا اور محب وطنی کی ایسی بھاری قیمت کسی قوم نے نہ دی ہو گی، جو مشرقی پاکستان کے محب وطن بہاریوں نے دی ہے۔

شاباش ہے حکومت پاکستان کی سفاکی و بے حسی پر کہ وہ اپنے ہی لوگوں کو واپس لینے سے گریزاں ہے۔ اسی کراچی میں تیس لاکھ سے زائد افغانی، بیس لاکھ بنگالی، جن کی اکثریت سن تہتر کے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان آئی ہے، روہینگی، افریقی، نیپالی اور روسی اطمنان سے رہ رہے ہیں مگر اسی پاکستان کا دل اور دامن اتنا تنگ ہے کہ اس میں اُس کے اپنے تین لاکھ ہم وطن بہاریوں کے لیے جگہ نہیں۔

بنگلہ دیش کے کیمپ میں ترپن سالوں سے پاکستانی پرچم سینے سے لگائے لگائے کئ انتظار کرتی آنکھیں بجھ گئ ہیں ۔ اپنے وطن عزیز کی خاک پر سجدہ کرنے کی آرزو میں کلستی جھلسی پیشانیاں خاک نشین ہوئیں۔ واقعی ہم لوگ محسن کش قوم ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ پاکستان کو تاراج کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دے۔ اس سے پہلے کہ ” تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں”
ہمارے گناہوں کو معاف کرتے ہوئے کسی نیک نیت مصلحِ قوم کو رہبری کے لیے تفویض کر دے۔
آمین ثم آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply