سیتا زینب(ناول)-تبصرہ/ڈاکٹر مریم زہرہ

ناول:  سیتا زینب
مصنف: زیب سندھی
سندھی سے اُردو ترجمہ: شاہد حنائی
ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی

“سیتا زینب”، محترم زیب سندھی صاحب کے قلم سے سندھی زبان میں لکھی گئی ایک منفرد اور پُر تجسس تخلیق ہے۔ یہ ناول اب تک چار مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے جن میں اردو، پہاڑی، بنگالی اور عربی زبان شامل ہیں۔
زیرِ نظر اظہارِ خیال “سیتا زینب” کے اردو ترجمہ سے ماخذ ہے۔

ظاہری ابتداء سے کہانی کسی دیہی علاقے کے روایتی اسلوب اور محبت کی سماجی بُنت سے جنم لیتی ہے، مگر یکایک گرفت مضبوط کرتے ہوئے اپنے بیانیے سے دفعتاً اٹھتی ہے، تو ہم جان جاتے ہیں کہ یہ وہ کہانی نہیں ہے جسے ہم نے پہلے صفحے پر مکمل سمجھ لینے کا گمان کیا تھا۔ اس ناول کی کہانی ایک ہی بہاؤ میں نہیں بہتی بلکہ کسی بھی رُخ پر رات اندھیرے یا دن اجالے میں اپنے نشیب و فراز سے گزر جاتی ہے، اس حد تک کہ قاری ششدر رہ جاتا ہے۔

حیران کُن خوشی ہے کہ یہ میرا دو نشستوں میں مکمل کیا جانے والا پہلا ناول ہے۔ اس بڑی دلیل کے ہمراہ کہ،
‘یہ ناول بِنا ختم کئے سکون سے رہنے دینے والا نہیں ہے، کم سے کم نشستوں میں اپنا حق مطالعے پر تواتر سے مانگتا رہے گا’

ناول کی ورق گردانی اپنے قاری کو کیفیات کے اُتار چڑھاؤ سے جکڑے رکھے گی، ہر صفحے پَر تجسس اور فکر انگیزی کے تجربات سے سامنا ہوتا رہے گا، غیر ارادی طور پر یہ ناول، پڑھنے والے کے جذبات کو اپنے بھنور میں قید رکھنے کی اہلیت کا حامل ہے، اور پھر آپ کہانی کے ہر کردار کے ساتھ اسکی زندگی کا خوف، پریشانی اور کرب جینے لگتے ہیں۔ آپ کسی کے ساتھ رو دیں گے اور کسی کی خوشی میں مسکراتے ہوئے پائے جائیں گے۔

مصنف نے کرداروں کی زندگی لکھتے ہوئے انہیں اپنا حصہ محسوس کیا ہے گویا وہ خود مکالمے میں شامل ہوں۔ کرداروں کے مابین مکالمہ حیرت انگیز رہا۔ ہر کردار کے ماحول اور عمر کے مطابق الفاظ کا چناؤ کیا گیا ہے، کہیں یونیورسٹی کے ہم جماعت دوستوں کی بے تکلفی، کہیں ایک نیک جوڑے کی آپس میں گفتگو یا کہیں سنگدل بیٹے کا اپنی ماں اور بہن کے ساتھ رویہ۔ یہ مضبوط پلاٹ اور کردار نگاری کے ساتھ ساتھ منظر نگاری کو بھی دلکش انداز میں پیش کرتا چلا گیا۔

میں دعوے سے کہ سکتی ہوں ‘یہ ناول غیر محسوس طریقے سے یاد رہ جانے والا ہے۔ آپ اسے بھول نہیں سکتے۔ کم از کم دو بنیادی کردار جن کا اپنی چھاپ چھوڑ جانا یقینی ہے’

اختتام کو آپ نہایت غیر متوقع پائیں گے۔ قاری آخری سطر تک اس انتظار میں رہتا ہے شاید پہلے کی طرح اب بھی کوئی راہ نکل آئے جیسے کہ مرکزی کردار (زیتا/ زینب) کے معاملے میں بارہا ہوا۔ شاید اس ایک لمحے میں سب بدل جائے۔ مگر ایسا نہیں ہوگا۔
قاری بے چینی سے بس یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اگر یہ کہانی میرے ہاتھ میں ہوتی تو کم از کم سب سے اہم کردار آغاز سے اختتام تک اکیلے مصائب کا شکار نہ رہتا۔ ہمارے من پسند کردار (عابد علی) کو ریلوے پلیٹ فارم پر ادھورا کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟
یہ ناول جہاں بہت ساری اذیتوں اور حقیقتوں کو چھوڑ جاتا ہے وہیں کچھ سوال بھی سر اٹھائے پھرتے ہیں۔ مگر شاید یہی بات اِسکے منفرد ہونے کی دلیل ہے۔ اور زندگی سب کے لیے یکساں بھی تو نہیں ہوتی۔ کسی کے حِصّے میں خوشیاں آتی ہیں تو کسی کے حصے میں حسرتیں۔

نامور مترجم محترم شاہد حنائی نے ترجمے کا حق ادا کیا ہے یہاں تک کہ لگتا ہے اگر زیب سندھی سر خود اردو میں لکھتے تو کجا مختلف نہ ہوتا۔

ناول “سیتا زینب” سے اقتباس:

Advertisements
julia rana solicitors

“سیتا نے پاس کھڑی اپنی ماں کے چہرے کی طرف دیکھا اور محسوس کر لیا کہ اس کی ماں پر بے خودی سی طاری ہو گئی ہے۔ سیتا نے عقب میں دیکھے بِنا الٹے پاؤں چلنا شروع کیا اور پُوجا میں مصروف لوگوں کے درمیان سے نکل کر باہر چلی گئی۔
سیتا مندر کا صحن عبور کر کے مندر کے پچھلے دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔
چھوٹے شہر کا یہ مندر ایک بڑی جھیل کے کنارے واقع پہاڑی پر بنا ہوا تھا جس کے عقبی دروازے سے جھیل تک سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔
سیتا آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے چلی آئی اور سیمنٹ کے چبوترے پر بیٹھ گئی۔ ہر طرف خاموشی اور تنہائی تھی۔ شام کی خاموشی میں درختوں کے پتوں سے ٹکراتی ہوا اور جھیل کے کنارے سے ٹکراتی لہروں کا سنگیت موجود تھا۔ ہوا اور پانی کے سنگیت میں سیتا نے خود کو ہلکا پھلکا اور پر سکون محسوس کیا۔ اس نے مندر کی طرف نگاہ دوڑائی اور گردن پھیر کر ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
چند لمحوں کے بعد اس کے ہاتھ بے اختیار دعا کے لیے اٹھ گئے۔ اس نے بند آنکھوں اور ساکت لبوں کے ساتھ دعا کرنا شروع کردی۔
سیتا نے دعا کے لیے اُٹھے ہاتھ چہرے پر پھیرے تو اس نے اپنے ہاتھوں کے لمس سے بے نام توانائی اپنے اندر سرایت کرتی محسوس کی۔ اپنے اس احساس پر وہ خود حیران رہ گئی۔ اس نے بند آنکھیں کھولیں تو سامنے تا حدِ نظر پھیلی جھیل کی طرح خود کو بھی بے حد پر سکون محسوس کیا۔ لمحہ بھر کو ہوا تھمی تو اس نے قریب پڑا اِک کنکر اٹھا کر جھیل میں اچھال دیا۔ پانی کی ساکت سطح پر ارتعاش پیدا ہوا تو سیتا مسکرا دی۔”

Facebook Comments

ڈاکٹر مریم زہرہ
ڈاکٹر مریم زہرہ کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ آپ نے ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے شعبہ ڈاکٹر آف فارمیسی میں ڈگری حاصل کی۔ آپ بیک وقت ایک تبصرہ نگار، فکشن نگار، مترجم، موٹیویشنل سپیکر اور کتب بین ہیں۔ آپ اردو ادب سے منسلک ہونے کے ساتھ نفسیات پر کچھ سوشل ویب سائٹس پر بطور تربیت کار اور مشیر کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ روٹری انٹرنیشنل کلب(روٹیریکٹ) کی رکن ہیں۔ اس کے علاوہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کی فلاحی تنظیم رضاکار کی صوبائی صدر خیبر پختونخوا خواتین ونگ ہیں۔ آپ کا تحریری مواد کراچی سے شائع ہونے والے مؤقر ادبی جریدے تظہیر میں شامل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply