سپین کے شہر ایلی کانٹے کا سفر نامہ- تبارکہ آئی لینڈ(2)-فرزانہ افضل

دوسرا دن:

ہوٹل میں ناشتے کا وقت صبح سات سےگیارہ بجے تک تھا ۔ ہم تیار ہو کر ناشتہ کرنے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں پہنچے۔ بہت اچھا صاف ستھرا انتظام تھا ۔ ہر طرح کی ضروریات والے لوگوں کے لیے ناشتہ موجود تھا ۔ گو کہ ہم نے ایلی کانٹے کے خاص مقامات کی لسٹ وہاں جانے سے پہلے ہی بنا لی تھی۔ مگر کس دن کیا کرنا ہے ، کہاں جانا ہے ، سوچا تھا کہ یہ وہاں پہنچ کر ہی فیصلہ کریں گے۔ پہلے دن ہوٹل سے کچھ معلومات حاصل کیں۔ مرینہ پر بہت سی کشتیاں کھڑی رہتی تھیں  اور ہم نے ان کی نقل و حرکت بھی دیکھی تو شوق ہوا کہ سب سے پہلے کشتی کی سیر کی جائے۔ ہوٹل سٹاف نے بتایا کہ ایک سرخ رنگ کی بڑی بوٹ تبارکہ کے جزیرے پر جاتی ہے اور راؤنڈ ٹرپ ہوتا ہے۔ مرینہ پر صرف دو عدد مخصوص سرخ رنگ کی بڑی کشتیاں پارک تھیں جو کسی کمپنی کی ملکیت تھیں۔ باقی زیادہ تر کشتیاں سفید رنگ کی تھیں۔ کوسٹ لائن کے پاس پرومینائڈ پر بہت سے سٹال بھی لگے ہوئے تھے۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم تبارکہ جانے والی بوٹ تک پہنچے اور ریٹرن ٹکٹ لیا، آخری بوٹ شام کو چھ بجے واپس آتی ہے۔ پوری بوٹ بھری ہوئی تھی۔ ہمارے علاوہ کوئی اور ایشیائی فیملی نہ تھی ۔ درجہ حرارت 27 ڈگری سینٹی گریڈ تھا، سورج بہت تیز تھا، سمندری ہوا کے باوجود گرمی لگ رہی تھی ۔ ہم نے اس ٹیکسی بوٹ پر کچھ تصویریں اور مختصر ویڈیو بنائیں ۔ ایک گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہم تبارکہ آئی لینڈ پہنچے۔ تبارکہ آئی لینڈ سپین کے صوبہ ایلی کانٹے میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو بحیرہ روم کے سمندر میں واقع ہے۔ سن 1700 سے قبل تبارکہ کو سینٹ پال آئی لینڈ کہا جاتا تھا جس کا پس منظر یہ ہے سینٹ پال نے یہاں پر قدم رنجہ فرمائے تھے۔ سن 1800 کے آخر تک یہ جگہ بحری قذاقوں کے لیے پناہ گاہ تھی اور غیر آباد تھی سپین کے کنگ چارلس تھری نے خطرناک بحری قزاقوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس جگہ کو آباد کیا۔ آئی لینڈ کے گرد ایک دیوار تعمیر کی گئی اور اس کا نام نیو تبارکہ آئی لینڈ رکھا گیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس جزیرے کی آبادی تقریباً 50 افراد پر مشتمل ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے یہ سپین کا سب سے چھوٹا جزیرہ ہے۔ گرمیوں کے موسم میں یہاں ہزاروں کی تعداد میں ٹورسٹ آتے ہیں۔ تبارکہ کی خصوصیت تیراکی کے لیے اس کا صاف شفاف پانی، ماہی گیری اور خوبصورت سینری ہے۔ ساحل سمندر پر بہت سے ریسٹورنٹ اور بارز ہیں۔ تھوڑا سا چل کر اندر کی طرف جائیں تو ایک مارکیٹ ہے جہاں پر پرانے طرز کی دکانوں میں جدید طرز کا سامان ہے۔ ہمارے ساتھ بورٹ پر جتنے لوگ آئے تھے سب آناً فاناً بیچ پر چلے گئے اور سوومنگ کرنے لگے۔ ہم نے تو ایک ریسٹورنٹ میں ٹیبل سنبھالی، کولڈ ڈرنکس پیۓ ۔ کچھ دیر بعد لنچ کیا۔ تمام ریسٹورنٹ فل تھے۔ اس کے بعد تھوڑا سمندر تک گئے تھوڑا سا پانی میں چلے۔ طبیعت میں ضرورت سے زیادہ نفاست کے باعث مجھے ذاتی طور پر سمندر کی بجائے سوئومنگ پول میں تیراکی پسند ہے۔ بہرحال گرمی اتنی شدید تھی کہ ہمیں پانی میں تھوڑی دیر کے لیے جانا پڑا جس سے واقعی گرمی کی شدت کم ہو گئی۔ اس کے بعد ہم قصبہ میں دکانوں کی طرف گئے وہاں جا کر بہت اچھا محسوس ہوا۔ گھروں کے دروازوں پر چقیں تانی ہوئی تھیں اور تقریباً ہر گھر کی کھڑکیوں اور بالکونیوں پر رنگ برنگے گملے قطار میں سجے ہوئے تھے یہ بہت خوبصورت اور روایتی منظر پیش کر رہے تھے۔ سپین کے اندرون شہر کے پرانے گھروں میں بھی ایسی ہی سجاوٹ کا رواج ہے۔ ہم نے وقت دیکھا تو واپسی کا وقت ہوا چلا تھا، پانچ بجنے والے تھے اور ساڑھے پانچ بجے کشتی واپس روانہ ہونی تھی۔ ہم نے نظر دوڑائی تو گھاٹ ( پیئر ) پر واپس جانے والے سیاحوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوراً وہاں پہنچے اور قطار میں شامل ہو گئے ۔ ایک گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ایلی کانٹے کی بندرگاہ پر پہنچے تو یوں تسلی ہوئی گویا اپنے گھر پہنچ گئے ہوں۔ ہوٹل جا کر ریسٹ کیا۔ کچھ دیر بعد فریش اپ ہو کر اور چینج کر کے شام کے لیے باہر نکلے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب آپ چھٹیوں پر ہوتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت باہر گزارا جائے اور اس کا پورا فائدہ اٹھایا جائے نہ کہ ہوٹل میں سوتے رہیں۔ ہوٹل کے باہر بہت رونق تھی۔ یورپ کی ہالیڈیز تو بہت اچھی ہوتی ہیں اگر ہم لوگ ایک دن میں ہی اپنے پاکستانی کھانے کو مس کرنے لگتے ہیں۔ لہروں والی موزیک ٹائلز والی شاہراہ ایکسپلاناڈا ڈی ایلی کانٹے جس کا میں نے کئی بار ذکر کیا ہے وہاں پر بہت سے سٹالز میں ایک پاکستانی لڑکی کا بھی سٹال تھا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ ایک پاکستانی بھائی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں وہ فوڈ ڈلیوری کا کام کرتے ہیں، ہم نے اس سے نمبر لیا اور عبدالقادر بھائی سے فوراً رابطہ کیا ، انہوں نے بتایا کہ ان کے قریب ہی دس منٹ کی ڈرائیو پر دکان ہے ، جہاں ان کی بیگم کھانا بناتی ہیں اور وہ ڈلیور کرتے ہیں۔ انہوں نے مینیو کی تصویریں بھیجیں۔ میری بیٹی جو برگر کو مس کر رہی تھی اس کے لیے زنگر برگر اور اپنے اور اپنی دوست کے لیے چکن بریانی آرڈر کی۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ یہاں پر تو باہر گاڑی کھڑی کرنے کی کوئی جگہ نہیں تو وہ ڈیلیوری کیسے لے کر اندر آئیں گے ۔ ہم ہوٹل کی لابی میں دروازے کے بالکل سامنے ان کا انتظار کر رہے تھے مگر دیے گئے وقت کے مطابق تقریبا ًپون گھنٹے میں عبدالقادر بھائی پہنچ گئے اور انہوں نے ایک دو پہیوں والی سکوٹی پر ہوٹل میں انٹری کی۔ معلوم یہ ہوا کہ ایلی کانٹے میں یو کے کی طرح کار پر ڈلیوری کرنا ممکن نہیں ، خیر اب تو یہاں بھی بائی سائیکل پر ڈلیورو والے جاتے ہیں ۔ ہم نے کھانا اپنے کمرے کی بالکنی میں بیٹھ کر کھایا۔ کھانا واقعی بہت اچھا تھا۔ زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ میری بیٹی کو عبدالقادر بھائی کا زنگر برگر اور چپس بہت پسند آۓ۔ کھانے کے بعد ہم پھر باہر نکل گئے۔ اور ڈیزرٹ کھائی۔ سپین کی آئس کریم کوالٹی بہت اعلیٰ  ہے ایمانداری کی بات یہ ہے کہ برطانیہ کی آئس کریم سے بہت بڑھ کر ہے۔ ہم رات گئے تک باہر گھومتے رہے اور موسم کا لطف اٹھاتے رہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply