بدرالدین عمر کا انٹرویو (بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہ دیش اور برصغیر کی تاریخ و سیاست پر 100 سے زیادہ کتابیں اور سینکڑوں مقالے اور مضامین لکھ چکے ہیں)
1: بغاوت کے دوران
سوال: کیا آپ موجودہ طلبہ تحریک اور مجموعی صورتحال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں؟
ترقی کو غلط کاموں کو دبانے کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ بالآخر لوگوں پر ظلم کا معاملہ کھل کر سامنے آگیا۔ موجودہ تحریک کو سمجھنے کے لیے خطے میں گزشتہ عوامی بغاوتوں کو سمجھنا ہوگا۔ 1952ء میں زبان کی تحریک کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش میں پانچ بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ ہم اس وقت بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف ایک اہم اور وسیع پیمانے پر عوامی بغاوت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس بغاوت کی اصل نوعیت، اسباب اور ممکنہ نتائج کو سمجھنے کے لیے اس خطے میں ہونے والی تاریخی بغاوتوں کو دیکھنا چاہیے۔ اس سیاق و سباق کے بغیر موجودہ بغاوت کا مکمل ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش برصغیر پاک و ہند کا واحد خطہ ہے جہاں کئی بار اس طرح کی عوامی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ پہلی 1952ء میں، دوسری 1969ء میں، تیسری جنوری 1971ء میں، اور چوتھی (آرمی چیف) حیسن محمد ارشاد کے خلاف 1990ء کی دہائی میں۔
ان میں سے ہر بغاوت حکومت میں تبدیلی کا باعث بنی۔ اگرچہ 1952ء میں حکومت براہ راست تبدیل نہیں ہوئی تھی، لیکن اس وقت کے آس پاس پاکستان میں سیاسی جماعتیں بننا شروع ہوئیں۔ 1952ء کی تحریک کے بعد، 1954ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی حکومت ٹوٹ گئی، اور مسلم لیگ کو مشرقی بنگال میں شکست دی گئی۔ 1969ء کی بغاوت کے نتیجے میں ایوب خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، حالانکہ فوجی حکومت برقرار رہی۔ جنوری 1971ء میں شروع ہونے والی عوامی تحریک نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی جہاں حکومت معمول کے مطابق کام نہیں کر سکتی تھی اور اس کے نتیجے میں براہ راست فوجی حکمرانی شروع ہوئی۔ 25 مارچ کو جنگ شروع ہونے کے بعد نہ صرف حکومت بلکہ ریاست پاکستان کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس وقت کی بغاوت اور عوامی تحریک اس قدر طاقتور تھیں۔ آزاد بنگلہ دیش میں ارشاد کے خلاف ایک اہم تحریک بھی چلی۔ تاہم، یہ ملک گیر تحریک نہیں تھی۔ میں نے اسے شہری بغاوت سے اس لیے تعبیر کیا ہے کیونکہ یہ ڈھاکہ اور دیگر شہری علاقوں میں مرکوز تھی۔ شہری سرمایہ دار طبقے کی یہ بغاوت ارشاد کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔ واضح رہے کہ سابقہ چار بغاوتوں کے بعد حکومت میں تبدیلی آئی اور 1971ء کی بغاوت جنگ آزادی اور ریاست پاکستان کے خاتمے پر منتج ہوئی۔
موجودہ عوامی بغاوت نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جہاں حکومت کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ بغاوت پہلے کی کسی بھی بغاوت سے زیادہ وسیع ہے۔ یہ نا صرف ڈھاکہ اور دیگر شہری علاقوں میں بلکہ پورے دیہی علاقوں میں پھیل گئی ہے۔ کوٹہ تحریک کے دوران طلباء پر حکومتی حملے نے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے بجائے اس تحریک کو عام لوگوں میں پھیلا دیا۔ لوگ اپنے اپنے مقاصد کی حمایت میں تحریک میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ طلباء کی تحریک کو صرف کوٹے کی تحریک کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں (عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم) چھاترا لیگ کی طرف سے دہشت گردی اور جبر کے خلاف عام طلبہ کی طویل شکایات نے اس تحریک کو جنم دیا۔ اسے محض کوٹے یا ملازمتوں کے حوالے سے تحریک کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یونیورسٹیوں کی صورتحال نے کوٹہ تحریک کو متاثر کیا ہے۔ حکومت کے حملوں نے کوٹہ کی تحریک کو بغاوت جیسی صورت حال میں تبدیل کر دیا ہے، جو پورے ملک میں الاؤ کی طرح پھیل رہی ہے۔
عام عوام نہ صرف طلبہ پر ظلم و ستم کی وجہ سے بغاوت میں شامل ہوئے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں اور تیل، گیس، بجلی اور ہر چیز کی قیمتیں بے قابو ہو چکی ہیں۔ حکومت نے اظہار رائے کی آزادی میں مداخلت کی ہے۔ اخبارات میں حکومت بالخصوص سربراہ حکومت (حسینہ واجد) پر تنقید ممکن نہیں۔ ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ لوگوں کا حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ لوگ یہ ماننے لگے ہیں کہ جب تک یہ حکومت رہے گی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، منی لانڈرنگ اور سرکاری منصوبوں سے پیسے کی چوری کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہے گا۔ اس لیے بغاوت ابل پڑی۔
حکومت عوامی بغاوت پر قابو پانے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ وہ صورتحال کو مکمل طور پر قابو میں نہیں لا سکی کیونکہ کرفیو ابھی تک نافذ ہے۔ معلومات کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی محدود یا منقطع ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اب تک صورتحال پر پوری طرح قابو نہیں پا سکی ہے۔ حیرت ہے کہ حکومت اب بھی کوٹہ تحریک کے طلبہ رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کے نتائج ابھی دیکھنا باقی ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا احتجاج کی ایک اور لہر اٹھے گی یا نہیں۔ حکومتی جبر کے خلاف نا صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ڈھاکہ میں 14 ممالک کے طلباء، دانشوروں، ادیبوں اور سفارت کاروں نے اس جبر کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ حالانکہ تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد 200 سے زیادہ ہے لیکن اصل تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ہسپتالوں کے باہر ہونے والی بہت سی اموات کی معلومات نہیں دی گئی ہیں۔ عوام اس جنونی قتال کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ حالات جس طرح ہیں اس میں ایک اور حرکت یا جھٹکا لگنے کا پورا امکان ہے۔ حکومت پر اس طرح کے جھٹکے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ مستقبل ہی بتائے گا۔
سوال: آپ نے 1969ء کی عوامی بغاوت کا مشاہدہ کیا۔ آپ اس کا موازنہ موجودہ تحریک سے کیسے کرتے ہیں؟
1969ء کی تحریک اور موجودہ تحریک میں مماثلتیں ہیں۔ ایوب خان نے پاکستان پر دس سال حکومت کی اور ایک عشرے کے بعد اسے “ترقی کی دہائی” کے نام سے منانے کا آغاز ہوا۔ لیکن پوری قوم ایوب خان کے خلاف متحد ہو کر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اگرچہ ترقی کا دعویٰ کیا گیا لیکن ایوب خان کے دور میں استحصال اور جبر کے خلاف جمع شکایات کو دبایا نہ جا سکا۔ ترقی کے باوجود استحصال اور جبر کے خلاف لوگوں کی مزاحمت اس مقام پر پہنچ چکی تھی کہ وہ ترقی کو نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ یہ دیکھ رکھے تھے کہ ان پر کتنا ظلم ہوا تھا۔ ایوب خان کی ترقی کا فائدہ عوام کو نہیں بلکہ حکمران طبقے کو پہنچا تھا۔ اسی طرح موجودہ حکومت ترقی کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے لیکن آج حالات ایوب خان کے دور سے بھی بدتر ہیں۔ آج بڑے منصوبے بڑے پیمانے پر چوری کے مترادف ہیں۔ ان منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، حکمران جماعت کے ارکان، سرکاری افسران، اور فائدہ اٹھانے والوں نے ہزاروں کروڑوں کی لوٹ مار کی ہے جس کی وجہ سے ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے۔ قیمتیں بڑھی ہیں لیکن اجرتوں میں اس کے مطابق اضافہ نہیں ہوا جس سے لوگوں کی اصل آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ وہ لوگ جو دن میں تین وقت کا کھانا کھاتے تھے اب دو یا ایک وقت تک زندہ رہتے ہیں۔ مچھلی اور گوشت کی کھپت میں بھی کمی آئی ہے۔
سرکاری افسروں کی ہزاروں کروڑ کی بدعنوانی کی رپورٹوں کا اثر لوگوں میں بھی محسوس کیا گیا ہے۔ انفراسٹرکچر کے ان بڑے منصوبوں سے عام لوگوں کو کتنا فائدہ ہوا ہے؟ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال میں خاطر خواہ سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے عوام پسماندگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ جس طرح ایوب خان ترقی کی بات کرنے کے باوجود تنقید سے نہیں بچ سکا اسی طرح موجودہ حکومت کے اس سے بچ نکلنے کا امکان بھی نہیں ہے۔
سوال: حکومت موجودہ صورتحال کا ذمہ دار بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی کے اتحاد کو ٹھہراتی ہے۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
عوامی لیگ اب موجودہ صورتحال کا ذمہ دار کسی کو ٹھہرانے کے لیے بے چین ہے۔ اس معاملے میں انہیں بی این پی-جماعت اتحاد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ لوگوں کی اس صلاحیت کو نہیں پہچانتے کہ لوگ ان کی غلطیوں کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس الزام تراشی سے عوامی لیگ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ بات غلط نہیں ہے کہ بی این پی-جماعت اتحاد نے واقعی اس تحریک میں کسی حد تک حصہ لیا ہے۔ ایسی بغاوت میں کیا جماعت یا بی این پی سیاسی جماعتوں کے طور پر ایک طرف الگ تھلگ کھڑی رہیں گی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ان جماعتوں نے اتنا حصہ نہیں لیا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے بی این پی اور جماعت نے اس طرح کام نہیں کیا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ انہیں مزید شامل ہونے کی ضرورت تھی، لیکن ان میں صلاحیت کی کمی تھی۔ اب ان پر الزام لگانے والی عوامی لیگ کو کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے بجائے، یہ بی این پی اور جماعت کی تعریف کرتا ہے، ایسے کاموں کو ان سے منسوب کرتا ہے جس کے وہ مستحق نہیں۔ اس طرح ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ عوامی لیگ کی جہالت اور دیوالیہ پن کی انتہا ہے۔ عبید القادر (عوامی لیگ کا جنرل سیکریٹری) کی جانب سے عوامی لیگ کے رہنماؤں کو سڑکوں پر آنے کی کال بے سود تھی۔ عوامی لیگ کے مقامی رہنماؤں نے ان کی کال پر کوئی جواب نہیں دیا، اور کوئی سڑکوں پر نہیں آیا۔ اس بات کا اعتراف خود قادر نے حال ہی میں ایک بیان میں کیا۔ ڈھاکہ کے وارڈز میں عوامی لیگ کی کچھ کمیٹیاں سڑکوں پر آنے کی کال میں حصہ نہ لینے پر تحلیل کر دی گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی لیگ کے ارکان بھی اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ حکومت کو صرف پولیس، ریپڈ ایکشن بٹالین, بنگلہ دیش بارڈر گارڈ اور فوج کی مدد حاصل ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں عوامی لیگ کے کارکن سڑکوں پر کیوں نہیں آ رہے؟
وہ سڑکوں پر نہیں آ رہے ہیں کیونکہ عوامی لیگ کے اعلیٰ رہنما صورتحال کو نہیں سمجھتے مگر نچلی سطح کے کارکن سمجھتے ہیں۔ عام کارکن اور پارٹی کے نچلے درجے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ عوامی لیگ کی کمزوریاں کہاں ہیں۔ اس لیے ان میں عوامی لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے چلائی جانے والی پالیسیوں کے لیے کوئی جوش نہیں ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ پالیسیاں عوام کو ان کے خلاف کر رہی ہیں۔ وہ حملے سے خوفزدہ ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی ہیں۔ عوامی لیگ کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ اگر پارٹی اقتدار سے محروم ہو گئی تو انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سوال: موجودہ تحریک میں بھارت، چین، روس اور مغربی ممالک کے کردار کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
اس تحریک کے دوران ہندوستان مکمل طور پر خاموش رہا، حالانکہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے جبر کے خلاف بات کی۔ بھارتی حکومت خاموش ہے کیونکہ حکمران جماعت کا انحصار بھارت پر ہے۔ تاہم مغربی ممالک نے اس صورتحال پر تنقید کی ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء، دانشوروں، ادیبوں، پروفیسروں اور سیاسی رہنماؤں نے بنگلہ دیش کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی حکومت کی خاموشی کے باوجود کئی بھارتی دانشوروں نے احتجاج کیا ہے۔
2: بغاوت کے بعد
سوال: کیا آپ بنگلہ دیش کی تاریخ میں عوامی بغاوتوں کے دوران حکومت کے سربراہان کی قسمت پر روشنی ڈال سکتے ہیں؟
بنگلہ دیش نے ارشاد اور حسینہ کے دور میں دو عوامی بغاوتیں دیکھی ہیں۔ ارشاد کے دور حکومت میں بغاوت کی وجہ سے اس کا استعفیٰ بہت زیادہ مزاحمت کے بغیرآگیا تھا۔ وہ تیزی سے نیچے اترا اور چلا گیا۔ مزید یہ کہ ارشاد کے خلاف عوام کا غصہ اتنا شدید نہیں تھا جتنا اب حسینہ کے خلاف ہے۔ ہم نے دیکھا کہ 1990ء میں بغاوت کے باوجود ارشاد نے پانچ سیٹوں پر الیکشن لڑا اور پانچوں جیت لیں۔ اگر حسینہ اب الیکشن میں کھڑی ہوتی تو قوی گمان ہے کہ وہ ایک فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کر پاتی۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ اسے ملک سے بھاگنا پڑا۔ اگر وہ ایک گھنٹہ یا اس سے زیادہ کے اندر اندر فرار نہ ہوتی تو شاید اسے پیٹ پیٹ کر مار دیا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ارشاد کے خلاف عوام کا غصہ اتنا شدید کبھی نہیں تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ارشاد حسینہ کی طرح وحشیانہ جبر اور قتل و غارت میں ملوث نہیں تھا۔ ارشاد، ایک آمر کے طور پر، حسینہ سے کہیں زیادہ کمزور تھا۔ شیخ حسینہ نے لاپرواہی سے لوگوں کو قتل کیا ہے۔
سوال: ماضی کی عوامی بغاوتوں کے دوران ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں اب کے مقابلے میں آپ کا کیا اندازہ ہے؟
ارشاد کے دور میں عوامی بغاوت نے اتنا بڑا جانی نقصان نہیں دیکھا۔ ارشاد کے دور حکومت میں طلبہ کو ٹرک سے کچل کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاہم، اس نے بڑے پیمانے پر فائرنگ نہیں کی تھی۔ اب تک 400 کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔ لیکن اصل تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ ارشاد کے دور میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اب جو کچھ ہوا وہ دنیا کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ نیتن یاہو غزہ میں ایسے ہی مظالم ڈھا رہا ہے۔ اسرائیل جو کچھ غزہ میں کر رہا ہے، شیخ حسینہ نے اپنے ہی لوگوں کے ساتھ کیا ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ 1990ء اور 2024ء کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے۔
سوال: شیخ حسینہ طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے بعد ملک سے فرار ہوگئی۔ بھارت اسے پناہ اور مختلف قسم کی امداد فراہم کر رہا ہے۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
عبید القادر دعوی کرتا تھا کہ شیخ حسینہ کبھی ملک نہیں چھوڑ سکتی۔ وہ بنگہ بندھو (شیخ مجیب) کی بیٹی ہے اور اسی طرح کی بیان بازی وغیرہ۔ لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ حسینہ بھاگ گئی ہے۔ وہ بھاگ کر کہاں جائے گی؟ وہ پہلے ہندوستان گئی۔ وہ بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر سب کچھ ان کے حوالے کر کے اقتدار میں رہی ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس نے خود کو ہندوستان کو بیچ دیا تھا کیونکہ فروخت میں عام طور پر کچھ تبادلہ ہوتا ہے مگر بنگلہ دیش کو بدلے میں کچھ نہیں ملا۔ اس نے اپنے مفادات سمیت سب کچھ چھوڑ دیا۔ ایسی صورت حال میں بھارت اسے عارضی پناہ دے گا۔ یہ فطری ہے۔ لیکن بھارت اسے کوئی سیاسی پناہ نہیں دے گا۔ بھارت اسے کبھی بھی مستقل سیاسی پناہ نہیں دے گا۔ بھارت جانتا ہے کہ شیخ حسینہ جیسے عوام دشمن شخص کو مستقل پناہ دینے کی پیشکش، جس کے خلاف بنگلہ دیش میں زبردست عوامی بغاوت ہوئی ہے، بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف مخالفت کو مزید تیز اور گہرا کرے گی۔ اس سے بالآخر ہندوستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ سو، بھارت اسے مستقل پناہ نہیں دے گا۔ امریکہ پہلے ہی اس کا ویزا منسوخ کر چکا ہے۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ اسے سیاسی پناہ نہیں دے گا۔ کوئی یورپی ملک اسے اپنے یہاں نہیں آنے دے گا۔ تو وہ کہاں جائے گی؟ فی الحال، بھارت نے اسے عارضی پناہ گاہ فراہم کی ہے تاکہ اسے کہیں اور بھاگنے کا موقع مل سکے۔ اس مجرم کو دنیا میں کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں مل رہی۔ امریکہ اور انگلینڈ سب نے اس سے منہ موڑ لیا ہے۔ بھارت اسے نہیں رکھے گا۔ وہ لیتھوانیا، لٹویا اور ایسٹونیا جیسی جگہوں پر تنہا اپنے دن گزار سکتی ہے۔ اسے اپنے بیٹے اور بہن سے بہت دور رہنا پڑے گا۔ اگر انگلینڈ نے اسے پناہ دینے کی پیشکش کی ہوتی تو وہ بخوشی وہاں رہتی۔ لیکن اس نے یہ موقع گنوا دیا۔ کئی ممالک سے تعلقات ہونے کے باوجود کوئی ملک اسے قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے عوام کی طرف سے اسے کس حد تک مخالفت کا سامنا ہے۔ اسے پناہ دینے کا مطلب بنگلہ دیش کو کھو دینا ہوگا۔ کوئی بھی بنگلہ دیش کو کھونا نہیں چاہتا، یہاں تک کہ ہندوستان بھی نہیں۔ اس لیے بھارت اسے پناہ نہیں دے گا۔ تاریخ میں تین اور رہنما بھاگنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ 1959ء میں بٹسٹا کیوبا سے فرار ہوا اور اپنی باقی زندگی فلوریڈا، امریکہ میں گزاری۔ رومانیہ کے چاؤشسکو نے ہوائی جہاز سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس کے طیارے کو زبردستی اتار کراسے اور اس کی بیوی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تیسری مثال شیخ حسینہ کی ہے جو فوج کی مدد سے بھاگ کر ہندوستان چلی گئی۔
سوال: 1975ء میں بنگہ بندھو (شیخ مجیب) کے قتل کے بعد، عوامی لیگ 1996ء میں دوبارہ اقتدار میں آئی۔ آپ کے خیال میں 2024ء میں شیخ حسینہ کے فرار ہونے کے بعد عوامی لیگ کا مستقبل کیا ہوگا؟
1975ء میں شیخ مجیب کے قتل کے بعد عوامی لیگ بھاگ گئی۔ عوامی لیگ تباہی کے دہانے پر تھی اور ایک تنظیم کے طور پر زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔ بعد میں جب ضیاء الرحمن نے تمام جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دی تب عوامی لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر پارٹیاں دوبارہ ابھریں۔ 2024ء میں، تاہم، شیخ حسینہ کے فرار کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ عوامی لیگ کا کوئی مستقبل نہیں بچا ہے۔ اس بار صورت حال پارٹی کے لیے 1975ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین اور تباہ کن ہے۔ عوامی لیگ کی موجودہ حالت کا موازنہ 1954ء میں مسلم لیگ کے حالات سے کیا جا سکتا ہے۔ 1952ء کی زبان کی تحریک کے نتیجے میں 1954ء میں مسلم لیگ کی سیاست ختم ہو گئی تھی۔ اسی طرح 2024ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر مؤثر طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے۔ میں عوامی لیگ کو مستقبل میں زیادہ ٹھیک ہوتے نہیں دیکھ رہا ہوں۔ آئندہ انتخابات میں پارٹی شاید ایک سیٹ بھی نہ جیت سکے۔ اس کا موازنہ 1991ء کے انتخابات سے کریں جب ارشاد نے اکیلے پانچ نشستیں حاصل کیں اور اس کی پارٹی کے کئی ارکان بھی جیت گئے۔ 1954ء میں مسلم لیگ نے بھی نو نشستیں جیت لی تھیں۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ عوامی لیگ ایک بھی نشست حاصل کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوامی لیگ ایک مؤثر سیاسی قوت کے طور پر ختم ہو چکی ہے۔ عوامی لیگ کے اندر ٹوٹ پھوٹ پہلے ہی عیاں ہے۔ عبید القادر نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے کی اپیل کی، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ خود عبید القادر نے بھی اس کا اعتراف کیا۔ عوامی لیگ کے صدر اب پارٹی سے فرار ہو چکے ہیں۔ شیخ حسینہ نے ریاست پر مکمل انحصار کرتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کو نظر انداز کیا۔ وہ پارٹی ممبران کو صرف سہولتیں اور مراعتیں دے رہی تھی۔ بنیادی طور پر، اس نے انہیں صرف زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرنے کی اجازت دی۔ وہ گھر کی اس بلی جیسے بن گئے تھے جو خوش خوراکی کہ وجہ سے چوہوں کا شکار نہیں کرتی۔ عوامی لیگ کے رہنماؤں کو شیخ حسینہ نے اس طرح کھلایا ہے کہ وہ اب چوہے پکڑنا نہیں چاہتے۔ اب، موجودہ صدمے کی لہر کے ساتھ، وہی رہنما خاموشی سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ مجھے پارٹی کی تنظیم نو کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر تقریباً ناپید ہے۔
سوال: شیخ حسینہ کے دور حکومت میں بنگلہ دیش اور ہندوستان کے درمیان اقتصادی اور سیاسی فوائد کا تبادلہ بنگلہ دیش کی مستقبل کی ہندوستان پالیسی پر کیا اثر ڈالے گا؟
بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان حکومتی سطح پر معاہدے ہوئے۔ ان کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ دو طرفہ ریاستی معاہدے تھے جنہیں آسانی سے راتوں رات منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ ملکی معاملات جیسے کہ خالدہ ضیاء کو رہا کرنا یا طارق رحمان کو ملک واپس لانا، یا قیدیوں کی رہائی جیسے معاملات کو جلد حل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، دو طرفہ معاہدے ایک الگ معاملہ ہے، ان کو راتوں رات منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ ان معاہدوں کا ممکنہ طور پر مستقبل میں جائزہ لیا جائے گا اور ان کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ تاہم، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مستقبل کی کوئی بھی حکومت ہندوستان کے لیے اتنی ہی موافق ہوگی جتنی حسینہ کی انتظامیہ تھی۔
سوال: تحریک کے دوران بنگہ بندھو (شیخ مجیب) کے مجسموں کو توڑا جا رہا ہے۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
یہ تحریک صرف شیخ حسینہ کے خلاف نہیں ہے۔ یہ شیخ مجیب کے خلاف بھی ہے۔ اب وہ شیخ مجیب کے مجسمے توڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے دھان منڈی گھر کو آگ لگا دی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار صرف شیخ حسینہ ہی نہیں شیخ مجیب بھی ہے۔ لوگوں میں یہ بڑھتا ہوا جذبہ ہے جس کی وجہ سے ایسی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے سوگ کے نام نہاد مہینے میں اس کی میراث کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا ہے۔ شیخ حسینہ اتنی بے وقوف تھی کہ عوامی بغاوت کی پہلی لہر سے بچنے کے بعد وہ کچھ کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اپنے تکبر اور غرور کی وجہ سے اس نے فرض کیا کہ وہ اب بھی بے پناہ طاقت رکھتی ہے۔ نتیجتاً، جب اس نے طلبہ اور عوام کے خلاف توہین آمیز تبصرے کرنا شروع کیے تو چند ہی دنوں میں تحریک کی دوسری لہر پھوٹ پڑی، جس کی وجہ سے وہ ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئی۔
سوال: آزادی کے 53 سال بعد، عوام نے 5 اگست کو شیخ حسینہ کے استعفیٰ کو “بنگلہ دیش حقیقی معنوں میں آزاد” ہونے کے لمحے کے طور پر منایا۔ کیا آپ بھی ایسا ہی سوچتے ہیں؟
شیخ حسینہ جیسی مطلق العنان ظالم کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد عوام پرجوش ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اسے اس طرح بھگانے سے ملک کو مکمل آزادی ملی ہے۔ اقتدار اب عوام کے ہاتھ میں ہے۔ شاید وہ یہی مانتے ہیں۔ یہ چیز ان کے فوری جذبات کی عکاسی کر سکتے ہیں، لیکن یہ ان کی سوچ میں پختگی کی عمومی کمی کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
آزادی کو دو طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک غیر ملکی کنٹرول سے آزادی۔ دوسرا حکمرانی کا نظام ہے جو حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کرتا ہے، ان کی بات سنتا ہے اور ان کے بہترین مفاد میں کام کرتا ہے۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیش نے صرف شیخ حسینہ کو بے دخل کرنے کی وجہ سے خود کو بیرونی اثر و رسوخ سے آزاد کر لیا ہے۔ ملک کے اندرونی حالات اور دیرینہ خارجہ تعلقات صرف اس سے ختم نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ہندوستان کا کنٹرول، جیسا کہ یہ حسینہ کے دور میں تھا، برقرار نہیں رہ سکتا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا۔ پڑوسی پاور ہاؤس کے طور پر، بھارت بنگلہ دیش پر اثر و رسوخ جاری رکھے گا۔ بنگلہ دیش بھارت کو سمجھے بغیر نہیں چل سکتا۔ مزید یہ کہ دیگر ممالک نے بنگلہ دیش کو اہم قرضے فراہم کیے ہیں۔ مثال کے طور پر چین۔ اگر حسینہ کے ساتھ تعلقات باقی نہ رہے تب بھی چین کا اثر اس کے مالیاتی تعلقات کی وجہ سے برقرار رہے گا۔ چین اپنی بڑی سرمایہ کاری کے پیش نظر صرف دستبردار نہیں ہو سکتا۔ وہ اس ملک میں اپنی سرمایہ کاری پر غور کریں گے۔ اس طرح چین صرف چھوڑ نہیں سکتا۔ وہ اپنے مفادات، سرمایہ کاری پر غور کریں گے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ بنگلہ دیش اب مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا اور اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو اپنی مرضی سے کنٹرول کر سکے گا کیونکہ بنگلہ دیش میں جو صورت حال طویل عرصے سے پیدا ہوئی ہے وہ برقرار رہے گی۔ اس انحصار پر قابو پانا ممکن نہیں۔ خاص طور پر بنگلہ دیش نے مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں سے جو خاطر خواہ قرضہ لیا ہے، اس کا بلا شبہ اثر پڑے گا۔ اس لیے یہ دعویٰ کرنا غلط ہے کہ بنگلہ دیش نے غیر ملکی کنٹرول سے مکمل آزادی حاصل کر لی ہے۔
دوئم، یہ خیال بھی گمراہ کن ہے کہ بنگلہ دیش کی حکمرانی اب محنت کش طبقے، کسانوں، مزدوروں اور عام شہریوں کی طرف سے چلائی جائے گی۔
1972ء سے ملک ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی میں ہے۔ ہر حکومت آمرانہ رہی ہے۔ شیخ مجیب کی حکومت فاشسٹ تھی جس کا خاتمہ عوامی-بکسالی حکومت پر ہوا۔ اس کے بعد ضیاء الرحمن کی فوجی حکومت آئی، اس کے بعد ارشاد کی فوجی آمریت آئی۔ 1990ء کے بعد بنگلہ دیش نے خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ کی سویلین آمریتوں کا مشاہدہ کیا۔ قوم نے یکے بعد دیگرے ایک فاشسٹ حکومت دیکھی ہے، جس میں شیخ حسینہ کی حکومت سب سے زیادہ جابر ہے۔ اس نے جس فاشزم کا مظاہرہ کیا وہ خطے میں بے مثال ہے۔ سوائے اس کے والد کے دور حکومت کے۔ 1974-75 کے علاوہ شیخ حسینہ کے دور حکومت کا کوئی موازنہ نہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیخ حسینہ کا دور جبر کی وسعت کے اعتبار سے 1974-75 سے بھی بدتر ہے۔ لہٰذا، اس کے جانے کے بعد، عام لوگوں کو یقین ہو سکتا ہے کہ انہوں نے آخر کار آزادی حاصل کر لی ہے اور ایسا ظلم واپس نہیں آئے گا۔ لیکن یہ عقیدہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ کچھ معاملات میں، عوام واقعی تھوڑی زیادہ آزادی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جو لوگ آئندہ برسراقتدار آئیں گے وہ فوری طور پر اسی سطح کا جبر مسلط نہیں کر سکیں گے۔ تاہم، ملک کی حالت کو دیکھتے ہوئے، یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ حفاظتی قوانین کی ضرورت، استحصال، جبر اور قید کے امکانات برقرار نہیں رہیں گے۔
مستقبل کے حکمران عوام کے حقیقی نمائندے بھی نہیں ہوں گے۔ وہی حکمران طبقہ جو 1972ء سے برسراقتدار ہے، جو ملک کا استحصال کرتا رہا ہے، رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی پارلیمنٹ کا 70-80 فیصد حصہ تاجروں پر مشتمل ہے اور ان کے مفادات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ طبقہ صرف ختم نہیں ہوگا۔ انہیں اس تحریک کے ذریعے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ موجود رہیں گے۔ وہ اپنے مفادات کے مطابق حکومت کرتے رہیں گے۔ اس طرح، اس نقطہ نظر سے بھی، یہ دعویٰ کرنا غلط ہے کہ بنگلہ دیش نے مکمل طور پر آزادی حاصل کر لی ہے۔ اگرچہ شیخ حسینہ جیسے مجرم اور فاشسٹ کو ہٹانے سے کچھ راحت مل سکتی ہے، لیکن یہ سوچنا کی کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ہمیشہ رہے گا اور بنگلہ دیش ان دونوں معنوں میں ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی سے آزاد ہوگا۔
(یہ دونوں انٹرویو بنگلہ دیش کے رسالے “بونکبرتا” میں 29 جولائی اور 10 اگست کو شائع ہوئے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں