برزخ’سماجی تناظر میں ایک تنقیدی جائزہ/منصور ندیم

آج کل برزخ فلم پر تائید و تنقید کا موسم چل رہا ہے، میں نے سوچا میں بھی برزخ پر لکھوں، برزخ ڈرامے کو تکنیکی طور پر دیکھیں تو بہترین Cinematography ہے، میں عموماًکسی فلم یا ڈرامے کو عامیانہ طرز پر نہیں، بلکہ موضوعاتی طرز پر یا پھر اس کے معاشرتی، نفسیاتی یا فلسفیانہ پہلوؤں کے تناظر میں ہی دیکھنا پسند کرتا ہوں، برزخ کی کہانی میری نظر میں ایک Piece of Art ہے، جس میں لکھنے والے کے قلم کی رفتار ایک عرب گھوڑے کی طرح دوڑ رہی تھی۔ یہ قلم کی طاقت کا اظہار ہے، کہ جب قلم آزاد ہو جائے تو اس کی کوئی حدود نہیں رہتی۔ برزخ ایک Wild Story ہے۔ جس میں رائٹر نے اپنے  تخیل کی پرواز کو لگاموں سے آزاد کردیا ہے، آپ ایسا سمجھ لیں کہ Imagination کو ایک ایسے گھوڑے پر سوار کرکے لگاموں کو تخیل کے تابع کردیا اور لگاموں کو خیال ایسے چلارہے ہیں جیسے وہ دماغ کے کنٹرول میں نہیں ہوں اور بھاگتا چلا جا رہا ہو، اور اس کی کوئی سمت کا تعین بھی نہیں، اور جب کوئی ڈائریکشن متعین نہ ہو تب آپ اس کو بالکل اسی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم رات میں سوتے ہیں اپنی آنکھیں بند کرتے ہیں تو ہم ایک ایسی دنیا میں پہنچتے ہیں، جہاں پر ہمارا ذہن ہمیں ایک ایسی دنیا میں پہنچاتا ہے، جہاں ہم بہت سارے لوگوں سے بہت ساری جگہوں پر روزانہ ملتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں نہ کبھی ہم نے وہ جگہیں وزٹ کی ہوتی ہیں نہ کبھی ان لوگوں کو دیکھا ہوتا ہے تو بالکل اسی طرح سے اس رائٹر نے اپنی تحریر کو وقت، مذہب یا کسی بھی معاشرتی و واقعاتی حدود و قیود سے آزاد رکھا ہے۔

ویسے عموماً جب بھی کوئی رائٹر کوئی بات لکھتا ہے، تو اس کے سامنے کوئی طے شدہ موضوع یا خیال ہوتا ہے۔ اور جیسے لکھاری جانتے ہوں گے کہ جب بھی آپ کے مد نظر کوئی موضوع ہوتا ہے تو لکھاری اس ٹاپک کو اپنے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے ہر اینگل کو وہ کور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہاں برزخ کے رائٹر نے اس کہانی کو اپنی تحریر میں بالکل ہی اپنی امیجینیشن پر چھوڑ دیا ہے، اور اپنے سامنے اس نے جو “برزخ” کا موضوع اٹھایا ہے، وہ بذات خود ایک بہت ہی نامکمل ہے، نامکمل اسی لئے ہے کیونکہ ہم لوگوں میں سے کوئی بھی برزخ نہیں گیا، نہ ہی اگر کوئی گیا ہے تو بھی کبھی وہاں سے واپس آیا، تو اگر آپ صرف اس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں تو حقیقتا یہ موضوع Itself بالکل ہی Incomplete ہے, تو جو موضوع ہی جان بوجھ کر نا مکمل رکھا گیا ہے، تو مجھے حیرت ہے کہ لوگ اس پر تنقید کس رخ سے کرنا چاہتے ہیں؟ اس کا Sense ہی نہیں بنتا، بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ڈرامے کا رائٹر جو بات کر رہا ہے وہ خود اپنے اندر نا مکمل ہے وہ اپنی اس تحریری تخلیق جسے ڈراماٹائز کیا گیا ہے، اسے برزخ کہہ رہا ہے، وہ تحریر کی نہ سمت مقرر کرسکا ہے، نہ ہی اس تحریر کے سوالوں کو کسی منطق تک پہنچا سکا، بلکہ یہ تحریری تخلیق بہت سارے نفسیاتی، معاشرتی، انسانی، تخلیقی، توہم پرستی، کہیں کہیں مذہبی اور انسانی رویوں کی عکاسی کرنے والے بے شمار نامکمل سوالات اور نامکمل جوابات کا ایک سلسلہ ہے، ایک کھوج ہے، اور اس کھوج کے سوالوں کو کرداروں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے تاکہ اپنے سوالوں کو خشک یا مبہم فلسفیانہ گنجلک کے بجائے کرداروں کی صورت میں پیش کیا جائے۔ وہ صرف آپ کو سوچنے پر مجبور کررہا ہے، وہ آپ کو آپ کے معاشرتی و نفسیاتی مسائل کا ادراک کروا رہا ہے۔

یہ ڈرامہ اپنے نام یا ڈرامے میں پیش کئے جانے والی کئی چیزوں پر بظاہر مذہبی طبقے کی طرف سے قابل مذمت ہتایا جارہا ہے، جیسے برزخ کا تصور جس طرح دکھایا جارہا ہے، میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا رائٹر کے لئے یہ مجبوری تھی کہ وہ اپنے سوالات و خیالات کو کرداروں میں ڈھالے، ورنہ اس اپروچ کے لئے مذکورہ کردار اور جغرافیہ، مقامی تہذیبی زندگی و مقامی مذاہب میں سے کوئی بھی چیز ان سوالات و تخیل کو پیش کرنے میں حقیقتا قریب ترین نہیں کرسکے، کیونکہ پاکستانی سوسائٹی میں اس تخیل اور سوالوں کے مطابق کردار پیش کرنا ممکن نہیں تھا، اس لیے عام حقیقی زندگی کے مقابل یہ ایک عجیب کردار محسوس ہوتے ہیں، پورا گھرانہ ایک خاص تصور اور نفسیاتی رویوں کا شکار اور مخصوص اپروچ کے ساتھ کیسے نظر آسکتا ہے؟ مگر کیا دنیا کے ہر مذہبی myth میں ایسی باتیں موجود نہیں ہیں، کیا ہم مسلمانوں میں ہی عالم ارواح کا تصور موجود نہیں ہے؟ میں اہلیہ کیساتھ الحساء گیا تو میری اہلیہ پرانے کھنڈرات و قلعوں میں قدیم نخلستانوں میں جا کر مجھے کہتی ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ “جیسے میں یہاں پہلے ان مقامات پر آئی تھی، میں یہاں سے گزری تھی وہ ان مقامات پر مجھے بار بار یہی کہتی رہی کہ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ مقامات میرے جانے پہچانے ہیں،”” لیکن میں نے اتنا سنجیدگی سے نہیں سنا، کسی نئے مقام پر جاکر کبھی کبھی آپ کو ایسا نہیں لگ رہا ہوتا ہے، جیسے یہ سب کچھ کچھ دیکھا ہوا ہے، اس وقت وہ سب دیکھ کر آپ کو عجیب سا لگ رہا ہوتا ہے آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہو، ہم ہر چیز کو عقل کی بنیادوں پر جانچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کئی چیزیں مابعدالطبیعاتی بھی ہوتی ہیں، اور مابعدالطبیعاتی مظاہر کو آپ عقل کی بنیادوں پر نہیں جانچ سکتے۔ جیسے ہم عالم ارواح کا تذکرہ بھی تو انہی معنوں میں کرتے ہیں۔

رائٹر نے اپنی تحریر میں مرکزی کردار سلمان شاہد میں ایک ایسے آدمی کی کہانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی ایک محبت بچھڑ جاتی ہے اور وہ اس کو ہمیشہ حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے، یہ نہیں کہ وہ نارمل زندگی نہیں گزارتا ہے، بلکہ اس کی دو شادیاں بھی ہوتی ہیں، اس کے بچے بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی اس محبت کے Trance سے کبھی باہر نہیں آ سکتا اور پھر وہ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہی کردار ایک خودغرض مفاد پرست Selfish شخص بھی ہے کیونکہ وہ ایک طرف محبت حاصل کرنے کا دعوی تو کر رہا ہے لیکن اس نے جو شادیاں کی اس میں ایک عورت سے Lust کے لیے شادی کی جس کے پاس پیسہ تھا مینگوز کے Orchid تھے اور وہ Orchid مینگو ہے, باتھ ٹب میں بار بار وہ مینگو چوستی ہوئی عورت اس لیے دکھائی ہے کہ وہ ایک مالدار عورت ہے اس کے پاس باغات ہیں۔ اسی آم کے باغات والی عورت سے اس کا ایک بیٹا (فواد خان) ہے، جس نے کبھی اپنے باپ کی محبت کو ویسے نہیں محسوس کیا، اس نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ میری ماں کے ساتھ میرے باپ کا رویہ اچھا نہیں تھا اور اسی لیے اس نے ایک شادی کی اور شادی کرنے کے بعد بھی وہ اپنے اندر یہ کوشش کرتا رہا، کہ میرا رویہ اپنے باپ جیسا نہ ہو، لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہا اس کی بیوی اس کے روئیے کی وجہ سے ایک دن خودکشی کر لیتی ہے، یہ نفسیاتی مسائل کی وہ گرہ دکھائی گئی ہے، جب آپ اپنے والدین کی طرف سے کئی معاملات میں نفسیاتی پریشر کا شکار رہے ہوں، تو پھر آپ یہ سوچتے ہیں کہ جب میں بڑا ہو جاؤں گا یا میں عملی زندگی میں آؤں گا تو میں یہ سب کچھ اپنی اولاد یا بیوی کے ساتھ نہیں کروں گا تو کبھی ایسا نہیں ہو پاتا، آپ غیر محسوس طور پر وہی کام کرتے ہیں۔

یہ بات ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، میری اہلیہ کی والدہ نے بطور ایک متوسط طبقے کے اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلوانے کی کوشش کی، کیونکہ ان کے دوسرے رشتے داروں میں زیادہ تر بہترین تعلیم یافتہ لوگ یا تو حکومتی اداروں میں بہترین نوکریوں پر یا پھر غیر ممالک میں اسکالر شپ پر گئے، تو اہلیہ کی والدہ کی طرف سے انہیں پڑھائی کے معاملے میں بہت زیادہ سختی کا سامنا رہا، میری بیٹی جس اسکول میں ہے وہاں وہ بہترین اسٹوڈنٹس کے سب سے زیادہ ٹائٹل لیتی ہے، مگر اس کے باوجود اہلیہ اس کی پڑھائی کے معاملے میں ہر وقت شدید پریشر کرتی ہے، شائد وہ غیر شعوری طور پر اپنے اوپر ایک وحشت طاری کر لیتی ہے جس سے وہ باوجود چاہ کر بھی نہیں نکل پاتی، وہ کیفیت اس پر حاوی ہوجاتی ہے، وہ ہر وقت اسی خیال میں رہتی ہے، کبھی بھی وہ بیٹی کو ایک دم ایک خیال آنے کے بعد کہتی ہے جاو اپنی میتھ کی بکس لے کر آو، اپنی انگریزی اور اردو کی کتاب لے کر آؤ، آج تم نے فلاں کام نہیں کیا، وہ رویہ تھوڑا شدت پسندانہ ہوتا ہے، شائد لا شعوری طور پر بہت سی نفسیاتی پریشر کا حصہ رہتا ہے، جو اس نے اپنے بچپن میں برداشت کیا، جس سے وہ آج تک باہر نہیں نکل سکی۔ جیسے پڑھائی کے معاملے میں میری اہلیہ کی والدہ انہیں ڈانٹتی تھیں۔ بالکل ویسے ہی میں بھی لاشعوری طور پر ہونے بچپن کے، بہت سارے خوف، تحفظات اور حسرتوں کے ڈر سے آج تک نہیں نکل سکا، میں بھی لا شعوری طور پر ایسے بہت سارے کام اور باتیں کرتا ہوں جو شائد میرے بچپن کے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل تھے۔ آپ لاشعوری طورپر ایسا بہت کچھ کررہے ہوتے ہیں، جو حقیقتا سماجی روئیے میں ایک بگاڑ کی صورت پیدا کررہا ہوتا ہے یا پیدا کرسکتا ہے۔ بچوں یا بیوی پر آپ کی بے جا جرح اکثر انہیں کوئی ایک ایسا غلط قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے، جیسا اس ڈرامے میں فواد خان کی بیوی کی خودکشی اس کے اسی بچپن کے نفسیاتی عوامل کا ایک سبب دکھایا ہے ۔

اسی ڈرامے میں سلمان شاہد کا جو دوسرا بیٹا دکھایا ہے ، وہ ہمیشہ سے ڈرا ہوا اور خوفزدہ ہے اس کے باپ نے اس کو فارن ملک میں بھیج دیا ہوتا ہے، وہ اکیلا وہاں رہتا ہے اب جو شخص اکیلا رہا ہے، ہو سکتا ہے اس کے ساتھ کچھ اس طرح کا ہوا ہو کبھی LGBT بھی یا اس سے متعلقہ کچھ بھی، لیکن لکھاری تو یہ سب باتیں آپ کے سوچنے کے لئے چھوڑ رہا ہے، لکھاری نے ان سب کرداروں کے ان رویوں کی وجوہات ہمیں نہیں بتائیں، بلکہ وہ ہمارے سوچنے کے لیے اس نے چھوڑ دیا وہ لڑکا ایسا کیوں ہے وہ ڈرا ہوا ہے، خوفزدہ ہے، وہ زیادہ بول نہیں پاتا وہ پریشان سا رہتا ہے، تو یہ بھی ایک سائیکالوجیکل پریشر ہے۔ اس کے کردار کو دوسرے کردار کے ساتھ جس ہم جنس پرستی کے خیال کے تحت دکھایا گیا وہ یقینا lust ہے، انسانی فطری جبلی تقاضا بھی ہے، مگر اس کی تکمیل کے غیر فطری یا فطری ہونے پر ایک مکالمہ چھوڑ دیا گیا ہے، ویسے کبھی کبھی محبت کے ترسے ہوئے لوگوں کو کسی دوسرے فرد سے کسی بھی حساب سے کمفرٹ مل رہا ہو، کسی بھی بات سے، رویے سے، اظہار سے، محبت سے، کلام سے، احساس سے تو آپ اس کمفرٹ کو چاہے کسی صورت ہو آپ اپنی انسکیورٹیز کو ان کمفرٹ میں چھپانا چاہتے ہیں، اور آپ کو نہیں پتہ ہوتا کہ آپ اس کو کیا نام دے رہے ہیں، آپ اس کو سیکس کا نام دے رہے ہیں، آپ اس سے ذہنی طور پر کلوز ہو رہے ہوں، حتی کہ آپ اگر کسی طرح فزیکل بھی ہو رہے ہیں تو آپ اس میں کیا چاہ رہے ہیں اس فزیکل ہونے میں آپ Lust لینا چاہ رہے ہیں، آپ کمفرٹ کا احساس کرنا چاہ رہے ہیں، آپ تھوڑی دیر کے لیے اپنی سوچوں سے بھاگنا چاہ رہے ہیں شائد یہ آپ کو نہیں پتہ ہوتا۔ میں کوئی جواز نہیں دے رہا، جو مذہبی لوگ اس پر جرح کرنا چاہتے ہیں وہ ضرور جانتے ہونگے کہ مسجد یا مدرسے میں بیٹھ کر سفید ریش بزرگ مذہبی کتاب سامنے رکھ کر یہ کام کم سن بچوں سے زبردستی کرتے ہیں۔ جیسے مغربی ممالک میں بھی چرچ میں پادریوں کے کم سن بچوں کے ساتھ کئے جانے والے زبردستی جنسی معاملات سامنے آتے ہیں۔

جو بچے یا افراد کسی بھی قسم کی ہم جنس پرستی کی طرف رغبت رکھتے ہیں یہ ان کے نفسیاتی مسائل ہیں، وہ بچے عملی زندگی میں غیر محسوس طور پر ان نفسیاتی مسائل میں شامل ہوتے ہیں، ایک اور بات سمجھنے کی یہ ہے کہ بعض لوگ جو پیدا ہوتے ہیں، وہ ایسے احساسات کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے مخالف جنس سے Feelings یا Attraction (کشش) ہونے کے بجائے اپنے ہی جینڈرز کے لوگوں سے ہوتی ہے تو یہ واقعتا ایک حقیقی Scientific Issue ہے, جن کے ساتھ شروع سے ہی مسئلہ رہتا ہے تو کیا آپ کے خیال میں معاشرتی سطح پر ان کی کونسلنگ کے بجائے آپ انہیں گالیاں دینا شروع کر دیں گے؟ لوگوں کی کونسلنگ کریں تاکہ وہ روئیے مزید پروان نہ چڑھیں، جہاں کچھ بھی اس طرح کی کیفیات آپ کو نظر آئیں تو آپ ان کو پراپر کونسلنگ کریں اور دوبارہ وہی والی بات آ جاتی ہے کہ جب تک آپ اپنے معاشرے میں ان نفسیاتی مسائل کو ایڈریس نہیں کریں گے، درست طریقے اور معاشرتی سطح پر تو یہ مسائل آتے ہی رہیں گے، ان مسائل کا سائنسی و سماجی تکنیک انداز میں تجزیہ و تدارک کرنا ہوگا نہ کہ ان مسائل کو اجاگر کرنے والوں یا سوال اٹھانے والوں پر ہی جرح شروع کردیں۔ لکھاری، ڈرامہ یا فلم کو ایک آرٹ کے طور پر بہت سارے سوالات میں آپ کے سامنے لا رہا ہے۔ یہ تو نفسیاتی الجھنوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کی طرف توجہ ہے، ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے کہ جو لوگ ذہنی دباؤ یا کسی بھی قسم کے اسٹریس یا پریشانی میں کسی ماہر نفسیات کے پاس جاتے ہیں وہ صرف پاگل ہی ہوتے ہیں، لیکن یہ سمجھ لیں کہ انسانی جسم کی بیماری کی طرح کبھی کبھی ذہن بھی بیمار ہوتا ہے، انہیں آپ وقت کے کسی مخصوص لمحاتی دورانئے میں نفسیاتی مریض سمجھ سکتے ہیں، جب تک کہ ہم ان باتوں سے باہر نہیں نکلیں گے، اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ انسان کو بہت سارے نفسیاتی مسائل ہو سکتے ہیں، جس کا سامنا کسی بھی نارمل رویے کے فرد کو ہو سکتا ہے، بس کچھ رویوں کی تبدیلی یا شدت جو اس کے بچپن، بچپن میں پیدا ہونے والے ماحول جس میں پرورش ہوئی، ماں باپ سے جڑے ایسے مسائل جو فرد کی شخصیت پر اثر انداز ہوں، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے جب تک یہ نہیں سمجھے جائیں گے، ہماری سوسائٹی میں ایسے مسائل رہیں گے۔

ڈرامے میں ایک کردار جسے صنم سعید نے نبھایا ہے، جو پہاڑوں کی بیٹی ہے، یہ واقعی بعض لوگوں کو بہت عجیب لگ رہا ہوگا کہ بار بار ڈرامے میں کہا جاتا ہے کہ آسمان سے آئی ہوئی ہے، جس کا کوئی Parental background بیک نہیں دکھایا گیا, لیکن بات یہ ہے کہ جو کہیں سے بھی نہیں آیا وہ پھر بھی کہیں سے تو آیا ہی ہے، تو بجائے کہ آپ اسے یہ کہیں کہ وہ ایک ناجائز اولاد ہے یا کچھ اور ہے وہ پہاڑوں سے آئی ہوئی ہے تو رائٹر آپ کو یہ بھی بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آپ یہ بات سمجھ لیں اور یہ بات ہم سب کہتے ہیں اگر کوئی ایک ایسا جوڑا جو کہ اولاد کی کمی سے بہت زیادہ سٹرگل کر رہا ہے اور محروم ہو تو اسے ایدھی کے جھولے سے ایک چھوٹا بچہ مل جاتا ہے تو ان کے لیے وہ پہاڑوں سے ہی آیا ہوا ہے، یا اللہ تعالی نے ان کے لئے اس کو بھیجا ہے، ان کو اس سے بات سے دلچسپی بھی نہیں ہے کہ ناجائز تھا یا نہیں تھا، کسی کے ناجائز سے ان کی گود بھر گئی، انہیں بچہ مل گیا، انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کسی فقیر کا تھا، یا کسی نے اسے کچرے میں پھینک دیا تھا۔ وہ ایک شخص کو پہاڑوں میں ملتی یے، مگر وہ کہیں سے تو آئی ہے قانون فطرت کے انسانی وجود کی تخلیق کے جو اصول ہیں اسی کی وجہ سے ہی آئی ہے۔ بس یہی وہ تخیلاتی پرواز ہے.

جب بھی کوئی رائٹر کچھ لکھتا ہے، تو ہمیشہ یہ نہ سوچیں کہ وہ لوگوں کے لیے لکھتا ہے، کبھی کبھی رائٹر اپنی تحریر اپنے لیے بھی لکھتا ہے تو سمجھ لیں کہ یہ تحریر اس نے اپنے لیے لکھی ہے، لکھاری نے اس ڈرامے کی تحریر کے اندر بہت سارے ایسے پہلووں کو ٹچ کرنے کی کوشش اپنے طریقے سے کی ہے لکھاری نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب مسائل تو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، اور ان کی اثر انگیزی بھی معاشرے میں موجود ہیں، اب اس کہانی کا پیغام دیکھنے والوں پر ہے کہ وہ اس کی کن تشریحات کو دیکھتے ہیں، آپ ہمیشہ یہ مت سوچیں کہ جو رائٹر لکھ رہا ہے وہ صرف اور صرف آپ ہی کے لیے لکھا ہے۔ آپ کی سوسائٹی میں عمومی جو ڈرامہ لکھا جاتا ہے وہ دیکھنے والوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں. اکثر Superficial ڈرامہ ہوتے ہیں جو روز ہم دیکھتے ہیں کہ ایک غریب لڑکی گھر سے نکلی اسے ایک امیر ادمی مل گیا، یہ آڈینس کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور آڈینس خوش ہو رہی ہے جی فلاں اداکارہ بہت خوبصورت لگ رہی ہے اور وہ بڑا ہینڈسم لگ رہا ہے، دیکھنے میں کیا ہی مزہ آ رہا ہے، ساس بہو کے جھگڑے، غربت سے امارت کا سفر یہ آڈینس کی سائیکالوجی سے کھیلا جا رہا ہے۔ بچپن سے آج تک اپنا سارا ادبی لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں، جن کی قید میں رہنے والی شہزادی کو ایک خوبصورت شہزادہ شادی کے لئے چھڑاتا ہے، عمرو عیار کی زنبیل سے آپ دنیا بھر کی اشیاء نکال رہے ہیں، طلسم ہوشربا اور الف لیلوی داستانیں آپ کو مزہ دیتی ہیں کیا یہ سب Superficial نہیں ہیں، کیا یہ سب زمینی حقائق سے الگ داستانیں نہیں ہیں۔ قیصر احمد راجہ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ یہ برزخ ڈرامہ معاشرے کا ڈیمانڈنگ ڈرامہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ہیرو کو چار آدمیوں سے مرتا نہیں دیکھ سکتا، وہ ڈرامے میں ایک دھان پان سے ہیرو سے چار تگڑے افراد کو مار کھاتا دیکھ کر خوش ہونا چاہتا ہے، اس کے نزدیک چار آدمیوں کا ایک فرد پر حاوی ہونا ایک نارمل سی بات ہے لیکن وہ ایکسپشنل کیس دیکھنا چاہتا ہے، کہ ایک آدمی چار آدمیوں کو مار کر دکھائے۔ وہ نارمل چیزیں نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ معاشرے کی درست تصویر کو سامنے لانے کے بجائے تصوراتی myth کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن وہ بھی اپنی مرضی و خیالات کے مطابق چاہتے ہیں۔

اس ڈرامے کے تبصرے کے conclusion کی طرف جانے سے پہلے میں کچھ مثالیں دیتا ہوں، میری اہلیہ نے یونیورسٹی کے بعد پہلی جاب چوبیس برس کی عمر میں شروع کی تھی، چوبیس برس کی لڑکی جو انگریزی لسانیات میں ماسٹرز کے بعد جب وہ انگریزی لسانیات پڑھ کر ان چیزوں کو ہی بیان کرے گی، انگریزی لسانیات کی Subject میں یونانی myth میں ایک Cupid Love of God کا تصور موجود ہے، جس میں عورت کی محبت کا تصور ہے اور یونانی MYTH میں ہر تصور کا ایک خدا موجود ہے، اور یہ ایک محبت کا خدا ہے، اس پر اہلیہ نے بورڈ پر وہ تصور لکھ ڈالا، اگلے دن انہیں اسکول کے اسٹاف روم میں شدید ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جب پتہ چلا کہ ان کے بعد اگلا پیریڈ ایک اردو کی ٹیچر کا تھا، انہوں نے لفظ love of God کا مطلب جو سمجھا، اس کو اسلامیات کی ٹیچر سے مزید سمجھا اور اسلامیات اور اردو کی ٹیچر نے اس پر ایک مزاحمتی تحریک چلا کر اہلیہ کے خلاف سکول انتظامیہ کو شکایت پہنچائی کہ یہ بچوں کو کیا سکھا رہی ہیں، وہ تو بھلا ہو کہ Educator School کی برانچ کی پرنسپل مسسز عارف جو فوزیہ قصوری کی کلاس فیلو تھیں، کے پاس یہ کیس پہنچا تو وہ حیران رہ گئی کہ اس بات پر اتنا ہنگامہ کیونکر ہوا، چونکہ وہ لٹریری پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ اس لئے انہوں نے مزاحمتی فریقین کو سمجھا لیا۔ ایک اور مثال اہلیہ نے Sixth کلاس میں اسی اسکول میں انگریزی کی ایک شاعری کو پوری کلاس کے بچوں کو Explain کیا، اور پھر بچوں سے کہا کہ جو تشریحاتی وضاحت انہوں نے کی ہے اس کی روشنی میں وہ بچے خود اپنے الفاظ میں اسی وضاحت کو اپنی سمجھداری کے مطابق لکھیں، وہاں ایک بچے نے بہت غیر معمولی طور پر ایک عجیب وضاحت لکھی جس نے اہلیہ کو حیران کردیا، کہ اس چھوٹے سے بچے نے اس تخیل سے کیسے سوچ لیا، اور اس کی حیران کردینے والا سلسلہ ہر روز جاری رہا، نہ صرف انگریزی کلاس میں بلکہ اس بچے نے اپنی دماغی صلاحیت سے ہر ٹیچر کو حیران کر دیا، اس کے لیے باقاعدہ ایک میٹنگ کی گئی اس کے والدین کو بلوایا گیا اور ان کو یہ سمجھایا گیا کہ یہ سکول بھی اچھا ہے لیکن یہ بچہ اس اسکول سے بھی الگ کسی اور سطح کی صلاحیت کا بچہ ہے۔ اس کے ساتھ زیادتی نہیں کریں اس کو اسی بچے کی ذہنی سٹینڈرڈ کے حساب سے پڑھائیں، جہاں تعلیم کسی کتاب کے نصابی طے شدہ اوراق کی قید میں نہ ہو، کیونکہ ان بچوں کے لئے نصاب کی خاص قید نہیں ہوتی کہ ان سے ایک مخصوص سوال کیا جائے گا اور اس کو انہوں نے مخصوص جواب دینا ہے۔

ارے بھائی جن جن لوگوں کو برزخ ڈرامہ پسند نہیں آیا، تو یہ تلخ حقیقت سن لیں کہ واقعی وہ ڈرامہ آپ کے لئے نہیں ہے، وہ ڈرامہ آپ کے لیے لکھا ہی نہیں گیا، یہ ڈرامہ ہر کسی کے لیے نہیں ہے، تو آپ لوگ اس پر کیوں اظہار رائے قائم کر رہے ہیں، آپ اپنا پسندیدہ مواد عشق و عاشقی دیکھیں،غریب لڑکی سے امیر لڑکے کی جنونی محبت دیکھیں، ساس بہو اور نند کی سازشیں دیکھیں، جہاں بہت سارے لوگوں نے اس پر تنیقید کی وہاں پر ایسے بھی تجزیے موجود ہیں، جو آپ کو حیران کر سکتے ہیں، اس ڈرامے کو دیکھ کر لوگ کن کن اپروچ سے سوچ رہے ہیں، اس ڈرامے میں بہت کچھ Eye Opening ہے، اس ڈرامے میں بہت کچھ انگریزی میں اسی لیے ہے کہ اس ڈرامے میں جو تصور دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا رائٹر یہ بات کہیں نہ کہیں جانتا تھا کہ وہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر انڈرسٹینڈنگ میں Exist نہیں کرتا، اور نہ اس کو عمومی لوگ سمجھ پائیں گے تو اس وجہ سے شائد اس میں انگریزی زیادہ رکھی گئی ہے، یہ صرف ایک خاص اڈینس کے لیے ہی ہے اور اس ڈرامے کو دیکھ کر اندازہ بھی لگا لیں کہ یہ بات واضح طور پر رائٹر اپنی طرف سے کیوں کر رہا ہے، یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ اسے مکمل اردو آڈینس کے لیے یا رائٹر کے ذہن میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس نے Purley اردو میں نہیں بیان کیں۔ عموما نگریزی ادب والے لوگ اس کو پھر بہتر طریقے سے انڈرسٹینڈ کرتے ہیں۔ ہاں ہمارے ہاں ایک اور بدقسمتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف انگریزی ادب والے ہی اسے سمجھیں گے، میں یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ اگر آپ عربی ادب پر بھی دسترس رکھتے ہوں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ عربی میں بھی کئی فلمیں اور ڈراموں میں آپ کو اسی طرح کے تخیلات نظر آئیں گے، مزید بدقسمتی یہی ہے کہ ہم نے عربی کو صرف ایک مخصوص مذہب کی خاص زبان سمجھا ہوا ہے، اور اس میں ہم مذہبی تفہیم کو ہی دیکھتے ہیں ورنہ عربی زبان میں ایسے ادبی ناول ڈرامہ یا فلمیں موجود ہیں جو ایسے کئی موضوعات کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں۔ انگریزی میں ایسے ہی موضوعات کے اندر مبہم اشاروں میں بہت سارے پیغامات یا موضوع چھپے ہوتے ہیں ان کے لئے ایک انگریزی ٹرم Read between the line استعمال ہوتی ہے، اور اہل فکر کے لیے یہ Read between the line بہت اہمیت رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : یہ تجزیہ میرا اور اہلیہ کا اس ویب سیریز ڈرامہ “برزخ” پر ایک مباحث کا نتیجہ بھی ہے، اور حقیقتا میں اس ڈرامے کو ایسے ہی دیکھتا ہوں۔ اس تجزئیے میں میری اہلیہ کے خیالات بھی موجود ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply